کافکا۔ پریشان جے لگدے ہو

کافکا۔ پریشان جے لگدے ہو
محسن علی

ہمارے گھر سے پچاس قدم کے فاصلے پر واقع گھر میں ایک بزرگ رہتے ہیں۔ شاید نوے (90) سال کے لگ بھگ اُن کی عمر ہے۔ درمیانہ قد، صحت مند جسم، سفید داڑھی، سر کے بال اوپر سے کچھ کم لیکن باقی اطراف سے مکمل، آنکھوں میں اُداسی، ہاتھ میں اکثر اخبار پکڑے ہوتے، چلتے چلتے رُک جاتے ہیں، گہری سوچ میں گُم ہو جاتے ہیں، خود کلامی کرتے رہتے ہیں، کبھی واپس پلٹ جاتے ہیں، کبھی بیٹھ جاتے ہیں، آسمان کو تکتے ہیں، مسکراتے ہیں، پھر اُٹھ کر کسی سمت چلنا شروع کر دیتے ہیں، اُداس سے دکھائی دیتے ہیں۔
کبھی کسی کو تنگ نہیں کیا، نہ کسی کے معاملہ میں دخل اندازی کی اسی وجہ سے سب اُن کا بھی احترام کرتے ہیں۔ میں نے کبھی اُن کو ہنستے نہیں دیکھا۔ جب سے ہوش سنبھالا اُن کو ایسا ہی دیکھا۔ یعنی کے تیس سال سے زیادہ ہو گیا۔ بزرگ ایسے کیوں ہیں یہ تو نہیں کسی کو معلوم، بس اتنا معلوم کے پڑھے لکھے تھے، دینی و دنیاوی کتابیں پڑھ رکھی تھیں، فکشن، نان فکشن سب کچھ پڑھا اور سعودی عرب میں رہ چکے تھے۔ واپس پاکستان آۓ تو بس پریشان رہنے لگ گئے، سارا دن ناول پڑھتے رہتے، اخبار پڑھتے رہتے، سوچوں میں گُم رہتے۔

جب بھی اُن کو کوئی سلام کرتا تو وہ رُک جاتے، اس کی طرف دیکھتے، وعلیکم السلام کہتے، اپنے ہاتھ پیچھے باندھ لیتے اور انتہائی شفقت کے ساتھ پوچھتے،

“ پریشان جے لگدے ہو“

آپ بے شک اُن کو جتنے مرضی یقین و اعتماد کے ساتھ کہیں، نہیں بزرگو، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ لیکن وہ آپ سے کہیں گے۔

“ نہ دسو، ہے گے تُسی پریشان ہی ہو۔“

یہ بزرگ محترم مجھے کافکا کے ایک ناٹک“ مقبرے کا نگران“ لگتے ہیں۔ جس کے متعلق چیمبرلین، شہزادہ کو بتاتا کہ وہ ایک منتشر الخیال بوڑھا ہے۔ اور وہ ہمارے کسی کام کا نہیں۔

آج فرانز کافکا کا جنم دن ہے۔ 3 جولائی 1883ء کو ہرمین کافکا اور جولیا لووی کے ہاں دنیاء ادب کا ایک منفرد ادیب فرانز پیدا ہوتا ہے۔ کافکا کا نام اپنی والدہ کے نانا کے نام پر رکھا گیا تھا، جن کے متعلق کافکا اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ والدہ کو نانا سے شدید محبت تھی، اس لیے اُن کی خواہش کے مطابق والد نے فرانز نام رکھا۔ کافکا کے والد راسخ العقیدہ یہودی تھے اور فرانز کو بھی مکمل اطاعت و عبادت گزار یہودی کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن فرانز بچپن سے ہی مذہبی زنجیر سے آزاد ہونا چاہتا تھا۔ اسی آزادی نے آج ہمیں دنیا کے عظیم ادیبوں کی فہرست میں شامل ایک نام“ فرانز کافکا“ دیا ہے۔

کافکا کی زندگی بہت مختصر رہی، لیکن اس کم وقت میں بھی تین ناول، ڈائریاں، خطوط اور کہانیاں ہم تک پہنچی ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کے کتنی ایسی تصانیف ہیں جو آتش دان کی نظر ہوئی یا اُن کے مسودے ہی گُم ہو گئے۔ کافکا کی جو وصیت ملی تھی اس میں بھی ایسی ہی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس کے الفاظ کچھ یوں تھے۔
“ یہ میری آخری خواہش ہے، کہ میرے تمام مسودوں کو بغیر کسی استشناء کے، بغیر پڑھے جتنی جلدی ممکن ہو، جلا دیا جاۓ۔“

کافکا نے اپنے دوست میکس براڈ کو بھی ایک خط لکھا جس میں اس سے کہا کہ
“ میرے دوست میکس، میں تم سے آخری گزارش کرتا ہوں کہ میری درازوں سے، الماریوں سے، کمرے سے، دفتر سے یا جہاں کہیں سے بھی میری کوئی تحریر، ڈائری کا ورق، مسودہ، کہانی، خط یا کوئی سطر کچھ بھی ملے، خواہ وہ مکمل حالت میں ہو یا ادھوری ہو، یا کوئی مواد جو تمھارے پاس ہے، یا کسی اور دوست کے پاس، اس سب کو بغیر پڑھے جلا دو۔ اگر کوئی واپس کرنے سے انکار کرے، تو بھی اس سے جلد از جلد واپس لے لو۔۔ تمھارا دوست۔۔ فرانز۔”

ڈاکٹر روبینہ الیاس نے کافکا کی زندگی کے ایک اہم پہلو کے متعلق لکھا، کہ کافکا ایک دن برلن (جرمنی)کے ایک پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے جب انھیں ایک چھوٹی بچی ملی جو رو رہی تھی۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی سب سے پسندیدہ گڑیا کھو گئی ہے۔ کافکا نے بچی کے ساتھ مل کر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
کافکا نے بچی سے کہا کہ وہ کل وہیں ملے اور وہ ایک مرتبہ پھر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔

اگلے دن جب انھیں گڑیا نہیں ملی تھی تو کافکا نے بچی کو ایک خط دیا جو اس “گڑیا” نے لکھا تھا۔ خط میں لکھا تھا کہ:
“میری دوست، رو مت! میں دنیا گھومنے جا چکی ہوں اور میں تمھیں اپنے حیرت انگیز سفر کے بارے میں بتاؤں گی”۔

یوں ایک ایسی کہانی کی ابتدا ہوئی جو کافکا کی زندگی کے اختتام تک جاری رہی۔

بچی سے ملاقاتوں کے دوران کافکا اس گڑیا کے خطوط پڑھتے جس میں حیرت انگیز سفر اور مزے مزے کی کہانیاں ہوتیں جسے وہ بچی اپنی گڑیا کے خطوط سمجھ کر پڑھتی اور اسے دلی سکون ملتا۔

بالآخر ایک دن کافکا نے اس بچی کو ایک گڑیا لا کر دی اور کہا کہ اس کی گڑیا دنیا کے سفر سے برلن واپس آ گئی ہے۔ بچی نے کہا کہ یہ گڑیا تو بالکل بھی میری گڑیا جیسی نہیں لگتی۔ کافکا نے بچی کو ایک اور خط دیا جس میں گڑیا نے لکھا تھا کہ:
“دنیا بھر کے سفر سے میں تبدیل ہوگئی ہوں۔”

چھوٹی معصوم بچی نے گڑیا کو گلے سے لگایا اور خوشی خوشی اپنے گھر لے گئی۔ ایک سال بعد کافکا کی موت ہوگئی۔ کئی سال بعد جب وہ بچی اپنی جوانی میں داخل ہوئی تو ایک دن گڑیا کو الٹتے پلٹتے اسے اس کے اندر سے فرانز کافکا کا دستخط شدہ ایک خط ملا جس پر لکھا تھا:

“ہر وہ چیز جس سے تم محبت کرتی ہو، ایک دن گم ہو جائے گی، بالآخر تمھیں کسی اور شکل و صورت میں ہی سہی، لیکن محبت ضرور ملے گی۔”
محبت کے متعلق پھر کافکا ایک منظر کشی کرتا ہے جس میں وہ بتاتا ہے کہ محبت کیا ہے۔
محبت کیا ہے؟ یہ تو بڑی ہی سادہ سی بات ہے! محبت وہ سب کچھ ہے، جو تمام تر بلندیوں اور پستیوں کے بعد ہماری زندگی کو رفعت و وسعت دیتا اور افزودہ بنا دیتا ہے۔ محبت مشکلوں سے مبرا ہوتی ہے، اتنی ہی جتنی کوئی گاڑی۔ مشکلات تو صرف ڈرائیور، مسافروں اور سڑک کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
(جرمن سے اردو قالب: مقبول ملک)
کافکا نے جو تکلیف دہ زندگی گزاری اُس میں ایسی شاندار تصانیف لکھ دیں، تو اگر کافکا کو وہ ماحول میسر آتا جس کا وہ متمنی تھا، پھر کیسے شاہ کار وجود میں آنے تھے۔
کافکا کو پڑھنے کے بعد انسان بے چین ہو جاتا ہے۔ کہ آخر ایک قلم سے کیسے معاشرے کی تہیں کھودی جا سکتی اور اس میں موجود اصل حقیقت کو زمین کے اوپر لایا جا سکتا ہے۔ کافکا کی ہر تحریر پڑھنے کے بعد یوں لگتا ہے، وہ آپ کے پاس موجود ہے اور آپ سے کہہ رہا ہے کہ:

“ پریشان جے لگدے ہو“
آپ بے شک کافکا کو جتنے مرضی یقین و اعتماد کے ساتھ کہیں، نہیں عظیم مصنف، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ لیکن وہ آپ سے کہیں گے۔
“ نہ دسو، ہے گے تُسی پریشان ہی ہو۔“
______________
میری_ایک_ہزار_کتابیں
کتاب_نمبر_24، 25، 26، 27
(کافکا کہانیاں، قلب ماہیت، پراسرار مقدمہ)