سیرۃ النبی ﷺ (ابن ہشام)
سیرۃ النبی ﷺ (ابن ہشام)
محسن علی خاں
سیرۃ النبی ﷺ کے موضوع پر ابن اسحاق، ابن ہشام، شبلی نعمانی و دیگر علماء دین نے بہت عرق ریزی کے بعد کتابیں لکھی ہیں۔ ابن ہشام کی لکھی گئی سیرۃ النبی ﷺ ایک مستند کتاب ہے۔ ابن ہشام نے واقعات کو اس کی جزیات کے مطابق پرکھا ہے، اپنے مقدمہ سیرت میں بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے ابن اسحاق کی لکھی ہوئی سیرت کا تفصیلی اور تنقیدی مطالعہ کیا ہے۔ بہت سی ایسی باتیں جن کا براہ راست سیرت سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا خصوصاً ایسے واقعات جن کی روایات میں معمولی سا بھی جھول تھا اور اشعار و قصائد بھی اپنی لکھی اس کتاب میں شامل نہیں کئے۔ یہی وجہ ہے کہ ابن ہشام کا کام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے اہل علم کے ہاں سب سے مستند کتاب ابن ہشام کی لکھی ہوئی سیرۃ النبی ﷺ ہے۔
بلاشبہ یہ میری بک شیلف کی سب سے قیمتی اور علمی کتاب ہے۔ اسی وجہ سے اس کتاب کو اپنی اول کتاب مانتا ہوں۔ یوں تو اس میں سیرت کا ایک سے بڑھ کر ایک واقعہ ہے۔ ہر واقعہ کا اپنا ہی لطف ہے۔ بس رحمت ہی رحمت نظر آتی ہے۔ میرے لئے انتخاب کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا کہ کون سی بات لکھوں، کون سی چھوڑوں، یہاں تو پوری کتاب بھی ٹائپ کر دوں تب بھی حق ادا نہ کر سکوں۔ بہت سوچ بچار کہ بعد میں نے آپ دوستوں کی خدمت میں رحمتہ العالمین ﷺکا وصف/حلیہ مبارک کے بیان کا انتخاب کیا ہے۔
آپ ﷺنہ بہت دراز قامت تھے، نہ بہت پست (چھوٹے) قامت تھے۔ آپ ﷺ میانہ قد کے تھے۔ (لیکن کسی بھی بڑے قد کے شخص کے پاس کھڑے ہوتے تو آپ اس سے بلند قامت نظر آتے)۔
آپ ﷺ کے بال مبارک بھی بہت گھنگریالے نہیں تھے نہ بہت سیدھے، ہلکا سا خم لئے ہوۓ تھے۔ کندھوں تک بڑھے ہوتے۔
بالوں کا رنگ چمکدار سیاہ تھا۔ حتی کہ تریسٹھ برس کی عمر تک بھی آپ ﷺ کے بیس کے قریب بال سفید ہوۓ تھے۔
آپ ﷺ نہ بہت موٹے تھے، نہ بہت دُبلے۔ متوازن اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔ چوڑے اور مضبوط کندھے۔
سفید رنگ تھا، جس میں سُرخی جھلکتی تھی۔ جاذبیت ایسی تھی کہ سب آپ ﷺ کو چاند سے تشبیہ دیتے تھے۔
کشادہ پیشانی، جس پر نور چمکتا تھا
سرمگیں آنکھیں۔ سرخ دھاریاں لئے ہوۓ۔ گہری سیاہ۔ لمبی پلکیں، باریک اَبرو قوس کی طرح خم دار، دونوں اَبرو فاصلہ لئے ہوۓ، بیچ میں رَگ، جو غصہ کئ حالت میں نمودار ہوتی۔ جب کسی سے بات فرماتے تو بقدر ضرورت دیکھتے اور حیاء کی وجہ سے آنکھیں نیچی فرمالیتے۔
ناک مبارک لمبی ستواں تھی اور آگے سے جھکی ہوئی تھی لیکن سرسری نظر میں اونچی دکھتی تھی،
رخسار مبارک ہموار اور ہلکے تھے جن میں ابھار نہ تھا۔
دانت مبارک باریک، موتیوں کی طرح چمکتے ہوۓ۔
سینے اور ناف کے درمیان بالوں کی لمبی اور باریک لکیر۔
آپ کی کمرایسی تھی گویا ڈھلی ہوئی چاندی کا ٹکڑا۔
سینہ اقدس فراخ و کشادہ اور آئینہ کی طرح سخت اور ہموار تھا۔کوئی حصہ دوسرے سے بڑھا ہوا نہیں تھا۔
خوبصورت (ترشی ہوئی) ایڑیاں جن پر گوشت بہت کم تھا۔ چلے میں تیز رفتار، چلتے تو قدرے جھٹکے سے پاؤں اٹھا تے۔ اور یوں چلتے گویا کسی ڈھلوان پر چل رہے ہیں، جب کسی طرف ملتفت ہوتے تو پورے وجود کے ساتھ ملتفت ہوتے، دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔
باوجود اس کے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا مکمل حسن ظاہر نہیں کیا گیا‘صحابہ کرام رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے تھے۔حضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں:
”میں نے جب بھی آ پ صلی الله علیہ وسلم کے انوار کی طرف دیکھا تو اپنی بینائی جانے کے ڈر سے آنکھوں پر اپنی ہتھیلیاں رکھ لیں۔“