احمد فراز

احمد فراز
12 جنوری

بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں

ناولیں اور کہانیاں پڑھنے کا شوق تو بچپن سے تھا دس گیارہ کی عمر میں ابن صفی کو پڑھنا شروع کردیا لیکن شاعری میں دلچسپی ٹین ایج میں پیدا ہوئی اس وقت تک درسی کتابوں میں استاتذہ کو پڑھا تھا یا پھر عمر کے لحاظ سے ساحر کی باغیانہ شاعری پسند تھی ۔احمد فراز کو پہلی بار پڑھنے کی جگہ سنا تھا ۔کسی فنکشن میں “رنجش ہی سہی ” سنی اور ذہن میں ایک عرصہ تک یہ غزل گونجتی رہی۔پھر کہیں سے “جاناں جاناں ” ہاتھ آگئی اور ایک خوبصورت دنیا سے متعارف ہوئی لیکن زندگی میں کبھی ان سے مل سکوں گی یہ صرف ایک خواب ہی تھا جو امریکہ میں پورا ہوا ۔جہاں ایک شام فراز کے ساتھ اٹینڈ کی اور کلام فراز ان ہی کی زبانی سننے کا اعزاز ملا ۔

پھر قفس میں شور اٹھا قیدیوں کا اور صیاد
دیکھنا اڑا دے گا پھر خبر رہائی کی
دکھ ہوا جب اس در پر کل فرازؔ کو دیکھا
لاکھ عیب تھے اس میں خو نہ تھی گدائی کی

سید احمد شاہ کی پیدائش 12 جنوری 1931 کو کوہاٹ کے ایک سادات گھرانے میں ہوئی۔ بعد میں ان کی فیملی پشاور آگئی جہاں سے انہوں نے اردو اور فارسی میں اپنا ماسٹر مکمل کیا اور پشاور یونیورسٹی میں بطور استاد پڑھایا بھی۔ پاکستان کے سب سے بڑے ادبی ادارہ اکیڈمی آف لیٹرز کے پہلے ڈائریکٹر جنرل بنے ۔وہ فیض احمد فیض سے متاثر تھے اور ان ہی کے مشورہ پر احمد فراز کا قلمی نام اختیار کیا۔
فیض کی طرح فراز کی شاعری میں بھی رومان اور انقلاب کا سنگم نظر آتا ہے۔ انہوں جبر اور استعماری طاقتوں کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی اور جلاوطنی کی سزا بھی کاٹی۔لیکن فراز کی بے پناہ مقبولیت کا باعث ان کی رومانوی ، محبتوں اور جذبوں سے گندھی شاعری بنی ۔فراز کی شاعری ایک اور خوبی ان کی منفرد اصطلاحات بھی ہیں ۔ اس عہد کے شعرا میں فراز جیسی مقبولیت شاید ہی کسی اور شاعر کو نصیب ہوئی ہوگی ۔ مقبولیت کے ساتھ اعزازات کی ایک لمبی فہرست بھی ان سے منسوب ہے۔ جن میں انڈیا سے فراق گورکھپوری ایوارڈ اور ٹاٹا ایوارڈ ، کینڈا سے اکیڈمی آف اردو لٹریچر ایوارڈ کے علاؤہ آدم جی ایوارڈ، اباسین ایوارڈ،، اکادمی ادبیات پاکستان کا ’کمال فن‘ ایوارڈ، ادب میں نمایاں کارکردگی پر ہلال امتیاز بھی شامل ہیں۔

احمد فراز کے کئی شعری مجموعہ شائع ہوچکے ہیں جاناں جاناں، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کرو، درد آشوب ،تنہا تنہا،سب میری آوازیں ہیں، میرے خواب ریزہ ریزہ، نایافت ،نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، پس انداز موسم، شب خون، وغیرہ ۔۔

ذاتی زندگی میں احمد فراز خوش مزاج اور بذلہ سنج شخص تھے اور جتنی عمدہ ان کی شاعری تھی اتنی ہی دلکش ادائیگی بھی تھی۔۔ان کی کئی غزلوں کو مہدی حسن اور دیگر بڑے غزل سنگرز نے اپنی آواز دی۔

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا

تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا

میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا
جب کوئی پھول مری شاخ ہنر پر نکلا

شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا

تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن
مجھ سے تنہا کے مقابل ترا لشکر نکلا

میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا

اپنا تبصرہ بھیجیں