گمنام گاؤں کا آخری مزار

گمنام گاؤں کا آخری مزار (رؤف کلاسرا)
محسن علی خاں

پہلی بات۔۔۔آپ میری گارنٹی پر یہ کتاب لازمی پڑھیں، بلکے ابھی یہ پہلی لائن پڑھتے ہی میری تحریر بند کر کے آڈر کر دیں۔ اس میں کوئی دو راۓ ہی نہیں۔ مانتا ہوں، دنیا میں ہزاروں بیسٹ سیلر کتابیں ہیں۔ ٹاپ کلاس ایڈیشن ہیں۔، میلان کینڈیرا، پاؤلوکوئیلو، اورحان پامک کا سکہ چل رہا ہے۔ کہیں گبریل گارشیا تو کہیں خالد حسینی کائٹ رنر جیسے ناول لے کر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ خشونت سنگھ اگر دلّی سے ٹرین ٹو پاکستان چلا رہا، اگاتھا کرسٹی بھی اورینٹ ایکسپریس میں بیٹھی کرسمس منانے کروڑ پتی بوڑھے سائمن لی کے فارم ہاؤس پر جارہی۔ آپ کو بھی حق حاصل، دنیا گھومیں، پوری دنیا کی کتابیں پڑھ لیں، لیکن ایک چکر معمولی سی رقم میں جیسل کلاسرا کا بھی لگا لیں۔ وہاں جانے کو بھی چھوڑیں، بس یہ کتاب پڑھ لیں، خودی وہاں پہنچ جائیں گے۔

یہ کتاب دنیا میں بہترین لوگوں کی باتوں پر ان کی سچی داستانوں پرمشتمل ہے۔ اس سے آگے نہ پڑھیں یہ تحریر، ابھی بُک کارنر شو روم کا لنک اوپن کریں۔ کتاب آڈر کریں۔ کتاب کا انتظار کریں۔ جب مل جاۓ تو ایک رات میں اس کو پڑھیں۔ رومال اور پانی پاس لازمی رکھیں، رومال چھلکتے آنسو اور پانی خشک ہوتا گلہ تر کرنے کے لئے۔ اس کائنات کے مالک کے لئے نکلا آنسو افضل ترین ہے۔ لیکن کسی عام آدمی کے دکھ درد میں، اس کے غم میں شریک ہوتے ہوۓ اگر آنسو نکل جاۓ وہ موتی بن جاتا ہے۔ اُس موتی کا اِس دنیا میں کوئی مول نہیں۔ رؤف کلاسرا نے جو باتیں اس کتاب میں لکھ چھوڑیں، وہ کئی موتی آپ کے دامن میں ڈال دے گی۔

دوسری بات۔۔۔۔ آپ میری دوسری بات تک پہنچ گئے۔ اس کا مطلب آپ نے ابھی تک کتاب نہیں خریدی۔ چلیں خیر کوئی بات نہیں۔ تحریر کے اختتام پر لازمی منگوا کر بک کارنر شو روم جہلم سے جتنی جلدی ہو سکے پڑھ لیں۔ اس میں ایسے لوگوں کی باتیں لکھی ہیں جو آپ کی روح کو جھنجھوڑ دے گی۔
چند روز پہلے جب میں نے ارادہ کیا کہ ” میری ایک ہزار کتابیں ” کے نام سے ایک سلسلہ شروع کروں، جس میں وقت کے ساتھ کتاب دوست اور علم و ادب سے محبت رکھنے والے افراد کے لئے کتابوں کا مختصر سا تعارف کرواؤں۔ تب مجھے اندازہ نہیں تھا، کہ میری فہرست میں ابن ہشام کی لکھی سیرت کی کتاب کے فوراً بعد گمنام گاؤں کا آخری مزار کتاب ہو گی۔

جب میں نے یہ کتاب پڑھی تو میرے پاس کوئی آپشن نہیں بچا کہ میں اس کا ذکر فوراً آپ کے ساتھ نہ کروں۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اگر میں نے اس کتاب سے محبت نہ کی تو جیسل کلاسرا کا ایک کمہار چاچا میرو مجھ سے ناراض ہو جاۓ گا۔ میں اس کمہار کو ناراض ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ کلاسرا صاحب نے تو صرف اس کتاب کو اپنے گاؤں کے کمہار چاچا میرو کے نام کیا ہے۔ میرا دل کر رہا میں اس کمہار کو اپنے کسی راجپوت بادشاہ کے ساتھ تخت پر بٹھا دوں۔

تیسری بات۔۔۔ سوال یہ ہے آخر اس کتاب میں ہے کیا، اس کا جواب رؤف کلاسرا سے لیتے ہیں۔ ” اس کتاب میں سب عام کہانیاں ہیں۔ آپ اگر بڑے لوگوں کی کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو پھر یہ کتاب آپ کے کام کی نہیں ہے۔ اس کتاب میں، مَیں نے عام انسانوں کے دُکھوں اور غموں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرے ہیرو عام لوگ ہیں، وہی میرے رول ماڈل ہیں۔ میں نے خود اپنے ماں باپ کو ایک دُور دراز گاؤں میں اسی طرح مشکلات اور دُکھوں میں گھرے دیکھا۔ انہیں ساری عمر جدوجہد اور محنت کرتے دیکھا، انہیں مسلسل آزمائشوں کا شکار دیکھا، اس لیے شروع سے ہی میرے ہیرو وہی لوگ تھے۔ میں کسی بڑے آدمی سے متاثر نہ ہو سکا یا یوں کہہ لیں کہ ذلتوں کے مارے لوگ ہی میری انسپائریشن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا انتساب میں نے گاؤں کے ایک کمہار چاچا میرو کے نام کیا ہے جس پر لکھی گئی ایک طویل کہانی آپ کو کئی دن چین سے نہیں سونے دے گی۔
یہ کہانی میری زندگی میں اتنی اہم ہے کہ اسی پہ کتاب کا نام رکھ دیا ہے۔ اس کتاب میں شامل ہر کہانی سچی ہے، یہ انسانی المیوں، دُکھوں اور غموں کی ایسی داستانیں ہیں جو ضرور آپ کے دِل کو گُداز کر دیں گی اور ہو سکتا ہے کہ کئی بار آپ کی آنکھیں بھی بھیگ جائیں”۔

اپنا تبصرہ بھیجیں