سراب
سراب
میں چاہ کر بھی کبھی تمھارا ہاتھ نہیں تھام سکتی۔۔۔
کہ تم ایک جگہ ٹھہر نہیں سکتے۔۔۔
مجھے معلوم ہے۔۔۔
تم مجھے تھام کر نہیں چل سکتے۔۔۔
مجھے ڈر لگتا ہے اس وقت سے۔۔۔
جب تمھارا ہاتھ چھوٹ جائے گا۔۔۔
میں تمھارے ساتھ کا سپنا نہیں بُن سکتی۔۔۔
تم تو سراب ہو۔۔۔
اورسراب کے پیچھے بھلا کون بھاگتا ہے؟؟؟
عقل خبط ہوگئی تھی بھلا۔۔۔
اور اب مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔
میرا سپنا ٹوٹ جائے گا۔۔۔
میں نہیں مناتی دل کو بہانوں سے۔۔۔
مجھے ڈر ہے جب اسے حقیقت سے دور کروں گی۔۔۔
یہ حقیقت سے دور رہنے لگ جائے گا۔۔۔
خوابوں میں جیئے گا۔۔۔
زمین پہ اس کے پاؤں نا لگیں گے۔۔۔
آسمانوں میں جا بسے گا۔۔۔
جب خواب ٹوٹ جائینگے۔۔۔
اور پھر جب ساری حقیقت اس کے سامنے کھل کر آئے گی۔۔۔
تو یہ مجھ سے ہمیشہ کے لئے روٹھ جائے گا۔۔۔
ابھی درد کم ہے۔۔۔
اسی کی دوا کروں۔۔۔
اسی کی دعا کروں۔۔۔
کہ اگر مزید آگے بڑھی۔۔۔
کسی کی نا سنی۔۔۔
یہ مرض مضر کہلائے گا۔۔۔
بستر مرگ پہ پہنچائے گا۔۔۔
شانیہ چوہدری