آگہی کا نیا سال
مرزا صہیب اکرام
ساری دنیا پلک جھپکنے سے بھی پیشتر ایک صفحہ پر سمٹ آئی .تمام طاقتیں جو عارضی و فانی دنیا میں امر ہونے کے دلفریب خواب دیکھ کر ایک دوسرے کو نوچ اور بھنبھوڑتی رہی تھی ، ایک لمحہ میں ایک دوسرے کی جان بچانے میں جٹ گئیں.آسمان سے زمین تک فضا میں موجود ہر ذرہ انسان کو موت کا پیامبر محسوس ہونے لگا.انسان ان دیکھے موت کے پجاری کے پنجہ سے ایسے بھاگنے لگا کہ دنیا حشر کا سامان لگنے لگی.
نیا سال مبارک ہو کا مسیج پا کر انسان کا کمزور دل دہل جاتا ہے. آنکھیں گریا و زاری کر رہی ہیں۔
365 دن آنسو چیخیں دھاڑیں خوف اور موت کے لمبے کالے سائے ایسے گزرے کہ ایک ایک پل صدیوں جیسا تھا . وقت کی بیمار نبض تھم گئی تھی ہر آہٹ موت کی آہٹ محسوس ہوتی رہی.انسان سے پہلے انسانیت کا جنازہ اٹھا. آہ و بکا ، بے بسی ، لاچاری ، ناتوانی نے ہر نگر میں ڈیرے ڈالے رکھے.
بستیاں ویران ہو گئیں، چمن اجڑ گئے، کھلیان مٹی ہو گئے، شہر قبرستان بن گئے. سنٹاٹے گویائی کے لئے ترستے رہے. خاموشی آوازوں کو پکارتی رہی.
انسان جانور چرند پرند چھوٹے بڑے اونچے نیچے سب انجانے لامتناہی خوف اور بھیانک حال میں جیتے ہوۓ مستقبل کے لئے بلکتے رہے .
انسانوں کی آوازیں پرندوں کی چہچہاہٹ، ہوا کی سرسراہٹ ، فضا کی سرگوشیاں ، صبح کا رقص ، شام کا ترنم ، رات کا راگ ، موسموں کی مستیاں ، اور کائنات کا تمام ظاہری و باطنی حسن و رعنائی ایک لحظہ میں ایک لمحہ میں ایسے کافور ہوا جیسے سب سراب تھا . اور حقیقت میں بس ایک لمبی سیاہ تاریک بے رحم خاموشی تھی . جس نے اپنے دامنِ منحوس میں کائنات کی ہر خوشی چھپا لی تھی.
سال لمحوں میں بیتا مگر ایک ایک لمحہ صدیوں میں گزرا.انسان نے جانا کہ بچا لینا عظیم تر ہے مارنا تو بے معانی ہے .
حقیقت جینے کی آس ہے . موت تو ہر گلی ہر نکڑ ہر لفظ میں منه کھولے دبوچ لینے کو ہے .
کاش نیا سال مبارک ہو یہ آواز بس اس کے لبوں کی نہیں تھی یہ آواز تو کائنات کے ہر ہر انسان کی تھی .
جاگتی آنکھوں نے وہ منظر دیکھے ہیں کہ وہ سونے سے انکاری ہو رہی ہیں . انسان صدمات سے پتھر ہو گیا ہے اور غموں کی طویل رات نے پتھر بھی پگھلا کر موم کر دئیے.
ایک سال کے اندر انسانیت کی جھوٹی معراج پاتال کی گہرائی میں دفن ہو گئی. ذات پات رنگ و نسل مذاہب سب ایک ہی چھری سے ذبح ہوۓ. بیماری وبا آفت اور موت نے سب کو برابری اور مساوات کے ساتھ ایسے نگل لیا کہ کوئی امتیاز باقی نہ رہا.
انسان نے صدیوں کا سفر لمحوں میں پاٹ کر یہ سبق بھی پا لیا کہ ایک انسان کا غم جب تک انسانیت کا کرب نہیں سمجھا جاۓ گا تب تک دکھ بڑھتے جائیں گے.
ہمیں نسل نو کو درس دینا ہوگا کہ تن کے عذاب تب ٹلیں گے جب نفرت کی حدیں پھلانگ کر ایک دوسرے کے دکھ بانٹیں جائیں گے.
مژدہ ء نَو بہار میں ، موسمِ زر نگار میں
حُسنِ وصال ہو کہ ہجر، امن و اماں کی خیر ہو
گزرے ہوئے دنوں کا حبس پھیل رہا ہے چار سُو
اب جو نئ ہوا چلے سالِ رواں کی خیر ہو
نیو ائیر کیوں مناتے ہیں یہ بات مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آئی ۔۔کیلینڈر بدلنے سے کیا زندگی میں بدلاو آتا ہے ؟ اس سے کہیں زیادہ بدلاو توا سکول اور کالج کا نیا سال لے کر آتا ہے لیکن اس بار 2020 کو 2021 میں بدلتے دیکھنے کا کافی انتظار رہا ہے ۔ زندگی میں شائد دوسری بار سال بدلنےکا اس بے چینی سے انتظار ہے اس سے پہلے 2000 میں جب صدی بدلنے کے باعث بہت سے سافٹ وئیر والوں کی نیندیں حرام ہوگئیں تھی اور اب اس سال جب 2020 نے زندگی الٹ پلٹ دی ہے
پچھلے سال نیو ائیر سے پہلے بہت سے جوک بن رہے تھے کہ 2020 سے زیادہ توقع نہ رکھیں بس انیس بیس کا فرق ہوگا ۔۔لیکن 2020 نے بتا دیا کہ کبھی کبھی انیس بیس کا فرق بھی بہت ہوتا ہے۔۔2020 کی شروعات ہی خطرناک انداز سے ہوئی انڈیا میں ہورہے CAA کے احتجاج کے اثرات جو یہاں تک محسوس ہوئے آسٹریلیا کے جنگلوں کی آگ، دہلی فسادات، پھر کرونا جس نے ساری دنیا کو جیسے reset کردیا ۔ایک کے بعد ایک اہم شخصیات کی اموات ،علما، اکابرین، سیلیبریٹی ۔دوست احباب ۔ہر طرف سے آنے والی خبریں ۔سنسان مسجدیں، گھروں میں قید ڈرے سہمے لوگ۔امریکہ میں جارج فلوئڈ کی موت اور اس کے بعد ہونے والے ہنگامہ ،کرونا سے پھیلی معاشی بدحالی، کسانوں کا احتجاج ۔۔ایک طویل لسٹ ہے 2020 میں آنے والی خبروں کی ۔۔کچھ اچھی خبریں بھی رہیں جیسے امریکی الیکشن میں ٹرمپ کی شکست اور اذر بائجان ارمینیا کی صلح اور سال کے آخر میں آنے والی covid vaccine نے یہ امید تو دلادی کہ شائد 2021 پچھلے سال سے کچھ بہتر ہو۔
چلیں اس خوش امیدی کے ساتھ نئے سال کو خوش آمدید کہیں
نیا سال مبارک ہو۔
گزرے ہوئے دنوں کا حبس پھیل رہا ہے چار سُو
اب جو نئ ہوا چلے سالِ رواں کی خیر ہو
اب جو نئ ہوا چلے سالِ رواں کی خیر ہو
Load/Hide Comments