زندگی ایک سفر ہے سہانا
زندگی ایک سفر ہے سہانا ۔ راجیش کھنہ
مرزا صہیب اکرام
100 سال سے زائد عمر کے ہندی سینما نے بہت عروج و زوال دیکھے بہت سے ستارے فلموں میں آئے اور گئے . بہت سے ہیروز نے فلمی افق پر اتنی کامیابی حاصل کی کہ لڑکیاں ان کے نام کی قسمیں کھایا کرتی تھیں . لوگ اپنے ہیروز کی آنے والی فلموں اور جھلک کے لئے بیتاب رہتے . فلمی پردے پر شہرت کا ہما سر سجانے والوں کو ہیرو ، اسٹار جیسے القابات دئیے جاتے . لیکن یہ سلسلہ 1966 تک چلا . کیوں کہ تب تک دور بھی سٹارز کا تھا. تب سٹار ہونا ہی بڑی بات سمجھی تھی.
دارجلنگ کی بل کھاتی پہاڑیوں پر ایک گذرتی ٹرین میں خوب صورت لڑکی انگریزی ناول پڑھ رہی ہوتی ہے اور ٹرین کے ساتھ چلتی کھلی جیپ میں گورکھا کیپ پہنے ہیرو جب گنگناتا یے “میرے سپنوں کی رانی کب آو گی تم” تو یہ آواز سارے ملک کے نوجوان لڑکے ، لڑکیوں کی آواز بن جاتی ہے اور پورے ملک میں ایک سٹار نہیں سپر سٹار کا جنم ہوتا ہے جس کو ہندی فلموں کا پہلا اور حقیقی سپر سٹار کہا ہے .
راجیش کھنہ فلم آرادھنا سے شہرت کامیابی اور مقبولیت کے اس مقام پر جا پہنچے جس کا تصور نہ اس سے قبل کسی نے کیا تھا نہ اس کے بعد کبھی ممکن ہوا. ہندی فلم انڈسٹری کو راجیش کھنہ کی صورت میں پہلی بار ایک چمکتا دمکتا فلمی سورج ملا جو اس کے بعد کبھی اس کا مقدر نہ بن سکا. وہ بس ایک بار تھا جب شہرت کی دیوی نے اپنا سب کچھ کسی انسان کو دان کر دیا تھا .
29 دسمبر 1942 کو مغربی پنجاب کے شہر بورے والا میں ایک اسکول ہیڈ ماسٹر ہیرا لال کھنہ کے گھر جتن کھنہ کی پیدائش ہوئی .جسے ان کے رشتہ دار چنی لال کھنہ اور لیلاوتی کھنہ نے گود لیا جو ریلوے کانٹریکٹر تھے.وہ لاہور سے ممبئی آکر بس گئے . جتن نے ممبئی کے سینٹ سیباسٹن گوون ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں ان کے کلاس میٹ جتندر تھے ۔جتن کھنہ نے ممبئی کے KC کالج سے اپنا بیچلرز مکمل کیا ۔اسکول و کالج کے دوران ہی جتن نے اسٹیج ڈراموں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا اور کئی ایوارڈز جیت کر نام کمایا۔
ایک ایسے ہی ڈرامہ میں جتن کو دیکھ کر کسی نے فلموں کا مشورہ دیا۔ اور اپنے انکل کے مشورہ پر جتن نے اپنا نام راجیش کھنہ رکھا ۔
انہی دنوں آل انڈیا ٹیلنٹ کے مقابلہ میں حصہ لے کر اور دس ہزار امیدواروں کے بیچ جیت کر فلمی دنیا میں اپنے داخلہ کو یقینی بنالیا ۔یہ جیت آنے والے دنوں میں ہندی فلم کا اتہاس بدلنے والے تھی.
اس مقابلہ کے ججز میں بی آر چوپڑا ،بمل رائے ، جی پی سپی، شکتی سامنتا جیسے لوگ شامل تھے ۔ راجیش کھنہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اس مقابلہ میں حصہ لینے کے لئے اپنی اسپورٹس کار میں آئے تھے .
راجیش کھنہ نے 1973 میں ڈمپل کپاڈیا سے شادی کی.ان کی دو بیٹیاں ٹوئنکل کھنہ اور رنکی کھنہ ہیں.
راجیش کھنہ نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز ” آخری خط” نامی فلم سے 1966 میں شروع کیا ۔ اس سال “آخری خط” آسکر میں فارن فلم کیٹگری میں انڈیا کی طرف سے داخل کی گئی تھی ۔ راجیش کھنہ نے کل 168 فلمیں کی جس میں سے 106 فلمیں سولو ہیرو کے طور پر کی تھی صرف 22 فلمیں ملٹی اسٹارر تھیں اور 127 فلموں جن میں لیڈ رول راجیش کھنہ نے کیا اور اس میں سے 82 ایسی فلمیں ہیں جنہیں تنقید نگاروں اور فلمی مبصروں نے 5 میں سے 4 کی ریٹنگ دی۔۔
آخری خط اور راز بہت زیادہ کامیابی حاصل نہ کرسکی. لیکن فلم بینوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ نیا سٹار آ چکا ہے. تب آئی ناصر حسین کی “بہاروں کے سپنے”، جس میں ناظرین نے راجیش کھنہ کی موت کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور شدید عوامی ردعمل نے بعد پروڈیوسر کو اسے دوسرے ہفتہ تبدیل کرنا پڑا۔۔
اس کے بعد وہ فلم آئی جس نے ہندی فلم انڈسٹری کو پہلا اور حقیقی سپر اسٹار دیا۔ “آرادھنا” شکتی سامنتا کی وہ بلاک بسٹر فلم تھی جس نے راجیش کھنہ کو ہندی فلموں میں مقبولیت کے ایک ایسے مقام پر پہنچادیا جہاں کبھی کوئی نہیں پہنچ سکا.
اس فلم کے بعد راجیش کھنہ نے صرف دو سال کے قلیل عرصہ میں 17 سپر ہٹ فلمیں بطور ہیرو کرنے کا جو ریکارڈ قائم کیا وہ اب بھی قائم ہے . اسی وقت کشور کمار اور راجیش کھنہ کا جو ساتھ جڑا وہ کشور کمار کی موت تک جڑا رہا ۔
ارادھنا کے بعد ڈولی،بندھن۔ اتفاق، دو راستے، خاموشی ، سفر، دی ٹرین، کٹی پتنگ، سچا جھوٹا ،آن ملو سجنا، محبوب کی مہندی ،چھوٹی بہو، آنند، اور ہاتھی میرے ساتھی یہ ساری سولو ہٹ تھیں
۔۔ہاتھی میرے ساتھی نہ صرف 1970 کی سب بڑی گروسر تھی بلکہ اس وقت تک کی سب سے بڑی فلم تھی ۔اس فلم نے سویت یونین میں بہت شہرت حاصل کی تھی .
1971 میں یوں تو کئی سپر ہٹ فلمیں آئیں لیکن آنند فلم سے راجیش کھنہ نے خود کو پاپولر کے ساتھ سنجیدہ اور منجھا ہوا اداکار بھی ثابت کیا . ریٹنگ کے اعتبار سے آج بھی آنند انڈین سینما میں پہلے نمبر پر ہے .
1972 میں امر پریم، اپنا دیش ، میرے جیون ساتھی نے بے مثال کامیابی حاصل کی.
اس کے علاوہ دل دولت دنیا، باورچی، جورو کا غلام ،دشمن اور شہزادہ سے بھی راجیش کھنہ عوامی امنگوں کے ترجمان بن کر ابھرے. شہرت دولت کامیابی عزت ان کے آگے پیچھے بھاگ رہی تھی . لوگ ان کے دیوانے ہو چکے تھے .
1973 میں بی بی سی نے راجیش کھنہ پر Bombay superstar کے نام سے ایک ڈاکیومینٹری بنائی.یہ اس بات کا عملی ثبوت تھا کہ ہندوستان کے افق کا کوئی ستارہ دنیا کو اپنی اور انڈین انڈسٹری کی جانب کھینچ چکا تھا.
1973 میں داغ ،نمک حرام اور راجا رانی آنے کے بعد راجیش کھنہ کی کامیاب فلموں میں مذید اضافہ ہوا.
1974 میں آپ کی قسم ، پریم نگر، اجنبی ، اویشکار، روٹی اور ہم شکل دے کر راجیش کھنہ نے بطور اداکار خود کو مزید مستحکم کیا.
1975 کے بعد سے راجیش کی کئی فلمیں باکس آفس پر کچھ کمزور رہیں اکرمن، مہاچور، بنڈل باز،کرم۔ پلکوں کی چھاوں میں اور جنتا حولدار کامیابی کے اس معیار کو نہ چھو سکیں جو راجیش کھنہ کا خاصا تھی.
لیکن 1977 میں آنے والی انورودھ اور چھیلا بابو نے راجیش کھنہ کے کردار کو دوبارہ زندگی دی اور فلمی پنڈتوں کے تمام اندازے غلط ثابت کر کے کامیابی کے دوسرے فیز میں قدم رکھ دیا.
اس کے بعد امردیپ ، پھر وہی رات، بندش آئیں لیکن “تھوڑی سی بے وفائی” راجیش کھنہ کی حقیقی کم بیک فلم سمجھی جاتی ہے ۔درد ، قدرت، دھنوان ،اوتار جیسی فلموں نے پھر راجیش کھنہ کی اداکاری کی دھاک بٹھا دی.
یہ سفر اگلے کئی سالوں تک پوری آب و تاب سے جاری رہا۔۔۔شبانہ اعظمی سمیتا پاٹل سے سری دیوی ،جیا پردا اور ٹینا منیم تک ایک لمبی لسٹ ہے جن کے ساتھ راجیش کھنہ نے اسکرین کو شئیر کیا .
سیاست میں جانے سے پہلے آنے والی آخری چند فلمیں جیسے امرت اور سورگ میں راجیش کھنہ نے کیریکٹر رول کئے لیکن در حقیقت وہ فلمیں آج بھی راجیش کھنہ کے حوالے سے یاد رکھی جاتی ہیں . ان تمام ادوار میں کاکا کے کام نام عزت شہرت اور اداکاری کو ہمیشہ چاہنے والوں سے پیار عزت احترام ہی ملا . محبت کرنے والے نوجوان سے ایک بوڑھے تک کے تمام کرداروں میں راجیش کھنہ نے فلم بینوں کو ہمیشہ درس محبت دیا.وہ فادمولا موویز سے تب بھی دور رہے جب ہر ہیرو وہ فلمیں کر کے وقتی کامیابی اور شہرت سمیٹ رہا تھا.جب ہر فلم ملٹی سٹارر بن رہی تھی اور آگ خون اور غنڈہ گردی فلمی کلچر بنتی جا رہی تھی تب صرف راجیش کھنہ پوری طاقت کے ساتھ با معنی اور معیاری فلمیں اس بیہودگی کے طوفان کے بیچ لوگوں تک پہنچا رہے تھے .
راجیش کھنہ نے اپنے کیرئیر کے آغاز میں ہی شہرت کی جس بلندی کو چھوا اور جس طرح لوگ ان کے لئے دیوانہ ہوا کرتے تھے وہ چیز کسی اور انڈین اسٹار نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔۔
جہاں نوجوان ان کے ہئیر اسٹائل اور کپڑوں اور انداز کی نقل کیا کرتے تھے وہیں لڑکیاں ان کی تصویر سے شادی کرتیں ۔انھیں دیکھنے کے لئے گھنٹوں انتظار کیا جاتا ۔ ان کی سفید امپالہ کو چوم چوم کر سرخ کر دیا جاتا.کہا جاتا ہے کہ ایک بار کاکا جب بیمار ہوۓ ایک گرلز ہوسٹل کی لڑکیاں ساری رات ان کی تصویر پر ٹھنڈی پٹیاں کرتی رہیں . ان کی شادی پورے ملک میں جہاں خوشی کا باعث تھی وہیں نوجوان دل ٹوٹ گئے. ہزاروں کی تعداد میں خطوط تو ان کو موصول ہوۓ اس کے ساتھ ساتھ خون سے لکھی محبت بھری چیٹھاں بھی ان کو ملیں. یہ اپنے ہیرو اپنے سپر سٹار کے لئے عوامی محبت کا سیل رواں تھا یہ محبت یہ عشق یہ پاگل پن شاید دوبارہ کسی فلمی ستارے کا مقدر نہ بنے.
کمل ہاسن بتاتے ہیں کہ 1985 میں راجیش کھنہ پہلی بار تھیٹر میں فلم دیکھنے گئے اور جس طرح لوگ ان پر ٹوٹ پڑے وہ ایک دیکھنے والا منظر تھا ۔
ودھوونود چوپڑا بتاتے ہیں کہ وہ راجیش کھنہ کی ایک جھلک کے لئے ان کے بنگلہ کے باہر انتظار کرتے تھے.اور صرف وہی نہیں ہزاروں فینز ان کی گاڑی کی جھلک کے لئے بیتاب رہا کرتے تھے.
سلیم خان اور عرفان خان کہتے ہیں کہ راجیش کھنہ جیسی اسٹارڈم شاید ہی کسی کو نصیب ہوئی ہو۔۔
امر پریم کی شوٹنگ کے دوران بنگال حکومت نے راجیش کھنہ کو ہاوڑا برج پر شوٹنگ کی اس خوف سے اجازت نہیں دی کہ اگر پبلک کو راجیش کھنہ کی موجودگی کا پتہ چلا تو ایسی بھیڑ اکٹھا ہوجائے گی کہ برج کے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو جاۓ گا.
راجیش کھنہ کی فلموں کی سب سے اہم خوبی یہ تھی کہ یہ فلمیں صرف ہندی بولنے والے علاقوں میں ہی نہیں سارے ہندوستان میں اپنا سکہ جماتی تھیں ۔۔راجیش کھنہ کی تین فلموں کی ری میک میں ان کے اچھے دوست کمل ہاسن نے کام کیا ہے ۔اس کے علاوہ ان کی فلموں میں اس طرح توازن ہوتا کہ وہ عوام اور خواص دونوں میں مقبولیت کی سند حاصل کرتیں۔
ایک طرف جہاں راجیش کھنہ نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑے وہیں اپنی منفرد اور بہترین پرفارمنس کی بدولت نقادوں کے بھی چہیتے رہے ۔
راجیش کھنہ نے کبھی بھی چلتے ٹرینڈ کے پیچھے بھاگنے یا وقتی کامیابی کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی. بلکہ معیار کو مقدم رکھا اور وقت کی رفتار کا سامنا کیا. ہر دور میں ایسی جاندار فلمیں کیں جن میں سماجی ، معاشرتی، معاشی ، گھریلو اور عوامی ایشوز اٹھائے. جیسے کٹی پتنگ میں بیوہ کی شادی ، خاموشی میں نرسوں کے مسائل اس کے علاوہ داغ ، آخر کیوں، اوتار ، امرت جیسی کئی فلمیں کسی نہ کسی معاشرتی مسائل پر سوال اٹھاتی رہیں
راجیش کھنہ اپنے کیرئیر کی شروعات میں بطور رومانٹک ہیرو مقبول ہوۓ. ان کی ایک مسکراہٹ پر پردے کے دونوں اطراف دل ڈھیر ہو جایا کرتے تھےلیکن ان کے کیرئر کا جب بغور جائزہ لیا جائے تو سب سے نمایاں چیز جو نظر آتی ہے وہ ان کے ادا کیے کرداروں میں تنوع ہے . ان کے تمام کردار دوسرے سے جدا ہوتے تھے.
ارادھنا کا ملٹری آفیسر، آنند کا کینسر کا مریض، سچا جھوٹا کا بھولا ،ریڈ روز کا سیریل کلر، پلکوں کی چھاوں کا ڈاکیا بابو جیسے کئی رنگ نظر آتے ہیں اتفاق کا مفرور مجرم ہو یا پریم کہانی کا انقلابی یا دشمن فلم کا ٹرک ڈرائیور، باورچی فلم کا خاکی کپڑوں والا رگھو یا سفید دھوتی کرتے میں ملبوس آنند بابو ہر رول میں راجیش کھنہ کا چارم ویسا ہی تھا ۔تجربات کا یہ سلسلہ اسی کی دہائی میں بھی چلتا ہی رہا دھنوان ، آج کا ایم ایل اے ،اوتار، آخر کیوں اور امرت جیسے مختلف کردار اور فلمیں راجیش کھنہ کی اداکاری کا لوہا منوائی رہیں.
کردار الگ الگ انداز الگ لباس الگ مزاج الگ لیکن ان سب کے باوجود کچھ چیزیں کبھی الگ نہ رہیں . راجیش کھنہ کی شہرت کامیابی، چارم ہر دور میں بام عروج پر رہا .80 کی دهائی میں جب تمام روایتی کردار ملٹی سٹارر موویز کر کر کے بار بار ایک ہی جیسے رول کر رہے تھے راجیش کھنہ تب بھی مکمل ورائٹی ہندی سینما کو دے رہے تھے.
راجیش کھنہ نے اپنے کیرئر میں فریدہ جلال سے لے کر پونم ڈھلون تک اور مالا سنہا سے لے کر جیا پردا تک بہت سی ہیروئنز کے ساتھ کام کیا لیکن چند ایسی ہیں جن کے ساتھ ان کی جوڑی یادگار سمجھی جاتی ہیں
جیسے آشاپاریکھ۔۔ان۔ملو سجنا، بہاروں کے سینے، کٹی پتنگ جیسی مشہور فلموں میں ساتھ رہیں تو شرمیلا ٹیگور نے ارادھنا ، امر پریم، داغ، اویشکار اور چھوٹی بہو جیسی کلاسک فلمیں دیں ۔70 کی مشہور ہیروئن ممتاز راجیش کھنہ کی قریبی دوست تھیں جن کے ساتھ راجیش کھنہ کی کیمسٹری سب سے زیادہ فلم بینوں کو پسند آئی.آئینہ، دو راستے ، دشمن، پریم کہانی ، اپنا دیش ،روٹی اور آپ کی قسم جیسی فلمیں اور ان کے انتہائی مشہور گانے اس کا ثبوت ہیں ۔اس کے علاوہ ھیمامالنی اور زینت امان کے ساتھ بھی راجیش کھنہ کی کئی فلمیں ہیں لیکن 80 کی دہائی میں جن دو اداکاراوں کے ساتھ راجیش کھنہ کی اداکاری کے جوہر کھل کر سامنے آئے وہ شبانہ اعظمی اور سمیتا پاٹل ہیں ۔۔اوتار ،تھوڑی سی بےوفائی ، امردیپ ہو یا امرت، دل نادان اور “آخر کیوں” ساری ہی فلموں میں، ان زبردست اداکاراوں کے ساتھ راجیش کھنہ نے کامیاب جوڑی بنائی. نوجوان کھنہ سے بڑی اور میچور عمر تک کاکا جس کے بھی ساتھ آئے ان کا پیئر اسکرین پر سج گیا.
راجیش کھنہ نے اپنے بعض کردار اس قدر باریکی سے ادا کئے کہ وہ کئی دہائیوں بعد بھی لوگ بھلا نہیں سکتے کیوں کہ وہ صرف اداکاری نہیں تھی بلکہ ان کا انداز اتنا حقیقی تھا کہ دیکھنے والے اس میں کھو جاتے.
آنند بلاشبہ راجیش کھنہ کی ٹاپ فلموں میں سے ایک ہے. ایک کینسر پیشنٹ کے کردار میں وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے آخری سانس تک ہر چہرہ شاداب رکھنا چاہتا ہے. اور مرتے مرتے بھی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا چاہتا ہے اور جب اسے بیماری کو سنجیدگی سے لینے کہا جاتا ہے تو کہتا ہے
“بابو مشائے زندگی بڑی ہونی چاہیے لمبی نہیں ۔موت کے ڈر سے اگر زندہ رہنا چھوڑ دوں تو موت کسے کہتے ہیں ۔بابو مشائے جب تک زندہ ہوں تب تک مرا نہیں جب مرگیا سالا میں ہی نہیں”
زندگی اور موت کے درمیانی چند لمحات کی ایسی خوب صورت عکاسی ہے جو انسان کا دل موہ لیتی ہے.
سفید دھوتی میں لڑکھڑاتے قدم ، ریڈ لائٹ ایریا اور بیک گراونڈ میں گونجتی موسیقی سے “امر پریم” میں آنند بابو کا تعارف ہوتا ہے اور ایک انوکھی اور یادگار پریم کہانی کی شروعات ہوتی ہے جس میں راجیش کھنہ کے یہ ڈائلاگ فلم ناظرین کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو سکتے۔۔
“میں نے تم سے کتنی بار کہا پشپا کہ مجھ سے یہ آنسو دیکھے نہیں جاتے ۔۔آئی ہیٹ ٹیئرز” آنند بابو اپنا سب لٹا کر چند آنسو سمیٹ کر خالی ہاتھ ہو کر بھی خوش ہے. کیوں کہ زندگی کا اصلی سبق اور مقصد بانٹنا ہی تو ہے .
رگھو ایک پراسرار اور ہرفن مولا باورچی جو صرف مزے دار کھانے ہی نہیں بناتا بلکہ لوگوں کو رشتوں کی نزاکتیں سکھاتے ہوئے کہتا ہے
“کسی بڑی خوشی کے انتظار میں ہم چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے منہ موڑ لیتے ہیں”
نمک حرام امیتابھ اور راجیش کھنہ کی ساتھ کی گئی آخری فلم ہے ۔دوستی فرض اور انسانیت کی کشمکش میں پھنسا سومناتھ چندر موت کے بارے کہتا ہے۔
“میں نے موت کو دیکھا تو نہیں پر شاید وہ بہت خوب صورت ہے ۔کمبخت جو بھی اس سے ملتا ہے جینا چھوڑ دیتا ہے”
روٹی راجیش کھنہ کی پروڈیوس کی چند فلموں میں سے ایک یے جو ایک پھانسی کے مجرم منگل کی کہانی ہے جسے روٹی مجرم بنا دیتی ہے اور جسے زندگی سدھرنے کی مہلت نہیں دیتی ۔
“انسان کو دل دے جسم دے ،دماغ دے لیکن یہ کمبخت پیٹ مت دے”
راجیش کھنہ پر ایوارڈز کی مورتی بھی ہمیشہ مہربان رہی.
1966 سے 1991 تک 25 سالہ فلمی کیرئیر میں راجیش کھنہ کو 14 بار فلم فیئر ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا .25 بار بنگال فلم ایسوسی ایشن ایوارڈز کے لئے اور 10 بار آل انڈیا کریٹکس ایوارڈ کے لئے نامزدگی ملی .
ان میں سے تین بار بہترین اداکار کا فلم فیئر ، 4 بار بنگال فلم ایسوسی ایشن ایوارڈ اور 7 بار آل انڈیا کریٹکس ایوارڈ کاکا نے اپنے نام کیا . بطور اداکار کسی بھی ہندی سینما میں اپنے دور میں سب سے زیادہ بہترین اداکار کے ایوارڈ راجیش کھنہ کے پاس تھے.
پچس سالہ فلمی کیرئیر میں راجیش کھنہ نے ہر طرح کے رول باخوبی نبھائے. انڈسٹری میں مقبولیت اور معیار کے نئے پیمانے مقرر کیے اور اپنے کام کے زریعے اتنی ورائٹی فلم بینوں اور اداکاروں کو دی جو آج ہر نئے آنے والے کے لئے چیلنج ہے.آج کوئی مقبول و مشہور ہونے کا خواب دیکھتا ہے تو اس کے ذہن کی پرواز راجیش کھنہ تک جاتی ہے. فلم انڈسٹری کے اس پہلے حقیقی اور اکلوتے سپر سٹار کے بعد کبھی بھی کوئی ان جیسا نہیں آیا.وہ اپنے کرداروں کے زریعے ہمیشہ فلم بینوں کے دلوں میں زندہ و مقبول رہیں گے۔ کامیابی عزت اور شہرت کا ہما کاکا کے بعد اب کبھی کسی سر پر ان کی طرح نہیں بیٹھے گا
اب کوئی اواز “میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو” کہہ کر کروڑں محبت کرنے والے دل جھنجھوڑ نہیں سکے گی.