ندا فاضلی
ندا فاضلی
12 اکتوبر 1938 – 8 فروری 2016
ندا فاضلی کے نام سے اردو اور ہندی شاعری جاننے والے ہر انسان واقف ہے کیونکہ انہوں نے اپنی شاعری میں جدا گانہ اسلوب سے اپنا ایک الگ مقام بنایا ہے۔ہندی فلموں کے شائقین بھی ندا فاضلی سے انجان نہیں ہیں۔
ندا فاضلی کا فنی کیریئر کئی دہائیوں پر محیط ہے ۔وہ مختلف جہتوں سے گزرتے رہے۔ادبی مجلوں سے جو سفر شروع ہوا وہ بعد ازاں ان کو فلموں میں لے گیا اور ان کو وہاں پر بھی کامیابی اور عزت حاصل ہوئی لیکن معیار اور مقدار کو مد نظر رکھنے والے بڑے شاعر نے فلموں میں بہت ہی کم لکھا کیونکہ وہ قلم کی عزت کے خواہاں تھے۔جس وقت شہرت اور کامیابی کا ہما ان کے سر پر براجمان ہوا اس وقت وہ بے شمار فلموں میں لکھ سکتے تھے لیکن انہوں نے پھر بھی بے حد کم کام کیا اور اپنے معیار کی حفاظت کی۔
ادبی مجلوں سے فلموں اور پھر کتابوں تک ندا فاضلی نے تمام سفر شاندار انداز میں کیا۔کئی کتابوں کے مصنف نے فلموں میں بھی ان مٹ نقوش چھوڑے ۔اسی طرح اپنی شاعری میں منفرد اور جداگانہ طرز کی وجہ سے وہ عام انسان کو اپنے ترجمان محسوس ہوئے ان کی شاعری میں مشکل اور ثقیل الفاظ کی جگہ سادہ ترین انداز کو روا رکھا گیا اسی وجہ سے ان کے چاہنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی گہرے خیال جو سادہ انداز میں بیان کرنا بھی ایک ہنر ہے اور ندا فاضلی اس ہنر میں بے مثال تھے ۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسمان نہیں ملتا
بیک گراؤنڈ :
مقتدا حسان ندا فاضلی کی پیدائش 12 اکتوبر کو برٹش انڈیا کے دہلی میں ہوئی ان کی فیملی کا تعلق کشمیر سے تھا۔خاندان نے۔ ہجرتوں کے کئی دکھ جھیلے ۔ یہ خانوادہ شعر و ادب سے ہمیشہ وابستہ رہا۔
ان کے والد مرتضی حسان بھی شاعر تھے ۔اور ان کے دونوں بھائی تسلیم فاضلی اور صبا فاضلی بھی برصغیر کی جانی مانی شخصیت رہے ۔۔ندا فاضلی نے ابتدائی تعلیم گوالیار میں حاصل کی پھر اجین کی وکرم یونیورسٹی سے اردو اور ہندی میں اہم اے کیا ۔
گھریلو ماحول نے شروع سے شاعری میں دلچسپی پیدا کردی تھی ۔
اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا
اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے
روشنی ختم نہ کر آگے اندھیرا ہوگا
پیاس جس نہر سے ٹکرائی وہ بنجر نکلی
جس کو پیچھے کہیں چھوڑ آئے وہ دریا ہوگا
مرے بارے میں کوئی رائے تو ہوگی اس کی
اس نے مجھ کو بھی کبھی توڑ کے دیکھا ہوگا
ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک
جس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا
1965 کا سال ندا فاضلی کی زندگی میں فیصلہ کن موڑ تھا جب ان کے پورے خاندان نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا ۔ندا فاضلی کے سامنے ایک طرف اپنے اصول و نظریات اور دوسری جانب اپنے اعیال تھے۔ندا فاضلی نے اپنے خاندان سے جدائی کو برداشت کرنے کا مشکل فیصلہ کیا۔اور آخرکار جب ان کی فیملی نے پاکستان ہجرت کی اس وقت ندا فاضلی ان کے ساتھ جانے کے بجائے ممبئی جا کر قسمت آزمائی کرنے لگے ۔
ابتدائی دنوں میں “دھرم یگ ” اور “بلٹز” نامی اخباروں میں لکھنا شروع کیا ۔اخبارات میں چھپنے کے ساتھ ہی اپنی شاعری اور منفرد انداز کے باعث ادبی حلقوں میں مقبولیت بھی حاصل کی ۔1971 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ “لفظوں کا پل” آیا جسے لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔اس کے بعد ان کے کئی مجموعہ آئے ۔جن میں چند کے نام یہ ہیں ۔
مور ناچ
آنکھ اور خواب کے درمیاں
شہر میرے ساتھ چل
دنیا جسے کہتے ہیں
سب کا ہے مہتاب
شہر میں گاؤں
زندگی کی طرف
کھویا ہوا سا کچھ
آنکھوں بھرا آکاش
اجلا اجلا پورا چاند
موسم آتے جاتے
سفر میں دھوپ تو ہوگی
ندا فاضلی کے اندر ایک مکمل شاعر کے ساتھ ساتھ ایک بہترین نثر نگار بھی موجود تھا ۔ بطورِ فنکار ان کے اندر کے کلاکار کا سفر جاری تھا اسی وجہ سے شاعری میں بہت جلد کامیابی اور شہرت کے باجود انہوں نے نثر میں طبع آزمائی کا فیصلہ کیا اور شاعری میں غزل و نظم کے بعد نثر کے میدان میں بھی ندا فاضلی نے خاطر خواہ کامیابی سمیٹی۔ان کے تخیل کی پرواز ان کو جہاں جہاں لے کر جاتی رہی وہ اپنے فن کی تسکین کی خاطر اس میدان میں جاتے رہے ۔ اور دو سوانحی ناول لکھے ۔
دیواروں کے بیچ
دیواروں کے باہر
اس کے علاوہ ان کے لکھے شعرا کے خاکوں کا مجموعہ “ملاقاتیں” کے نام سے شائع ہوا تھا
شاعری کے بعد سوانحی ناولوں کہ کامیابی کے بعد انہوں نے نثری مجموعے بھی تحریر کر ڈالے۔ جو “چہرے “، “دنیا میرے آگے ” کے نام سے شائع ہوئے۔ لیکن ان کا ادبی سفر ابھی شروع ہوا تھا۔ نوجوان ندا فاضلی کی رفتار اور قسمت دونوں بہترین تھیں اسی وجہ سے وہ جو بھی میدان کا رخ کر رہے تھے اس میں کامیابی ان کے قدم چوم رہی تھی ۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
وقت کا بڑا شاعر اور عمدہ نثر نگار لوگوں کی نظروں میں آ چکا تھا اسی وجہ سے ان پر اگلی نظر کرم بالی ووڈ کی ہونے والی تھی کیونکہ اس دور میں فلموں میں اسکرپٹ ڈائلاگ اور گیت گار سبھی بڑے بڑے نامور اور معتبر نام ہوا کرتے تھے ۔ جان نثار اختر سے خواجہ احمد عباس اور ساحر سے گلزار تک تمام لوگ ہی ادبی طور پر مستحکم اور بھیڑ چال سے ہٹ کر عمدہ کام کرنے والے تھے ۔اسی وجہ سے ندا فاضلی کو بھی فلموں کے لیے لکھنا ہی تھا ۔
ندا فاضلی کو فلموں میں متعارف کرانے کا سہرا کمال امروہی کے سر ہے جنہوں نے اپنی فلم “رضیہ سلطان ” میں ندا فاضلی سے گیت لکھوائے۔ اس کے بعد ندا فاضلی نے کئی فلموں میں گیت اور ڈائلاگ لکھے۔ رضیہ سلطان نے بننے میں کافی وقت لیا اور ان کی پہلا ریلیز فلمی گیت “آپ تو ایسے نہ تھے” سے تھا جو انتہائی مشہور ہوا۔
تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
پہلی ہی فلم میں کامیابی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ندا فاضلی کا نام ہر دوسری فلم سے جڑ جاتا لیکن وہ شاعر اور تخلیق کار تھے ۔اپنے فن کی تسکین کرنے والے ندا فاضلی نے چند گنی چنی فلموں میں لکھنے کا فیصلہ کیا اور بطور گیت کار انہوں نے صرف گیارہ فلمیں کیں اور دو فلموں کے ڈائلاگ بھی لکھے ۔
(1980) آپ تو ایسے نہ تھے
(1980)ریڈ روز
(1981) ناخُدا
(1981) ہر جائی
(1982) انوکھا بندھن
(1983) رضیہ سُلطان
(1988) وِجے
(1996) اِس رات کی صُبح نہیں
(1997) تمنا
(1999) سرفروش
(2002)ْسٌر
(2004)دیو
(2006) یاترہ
بطور ڈائلاگ رائٹر
2004)دیو
(2006) یاترہ
فلموں میں ان کے مدھر گیت تو لوگوں تک پہنچ ہی رہے تھے لیکن ان کی شاعری کو بڑے بڑے غزل گائیکوں نے گا کر ان کی شاعری کو ہر خاص و عام تک پہنچا دیا ۔جگجیت سنگھ کے ساتھ 1994 ان کا ایک مکمل البم insight کے نام سے ریلیز ہوا تھا۔جگجیت سنگھ کی آواز میں گائی یہ خوبصورت غزل اس بات کی مظہر ہے کہ ندا فاضلی سادہ انداز میں کتنی گہری بات کہ جاتے ہیں ۔
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے
اچھا سا کوئی موسم تنہا سا کوئی عالم
ہر وقت کا رونا تو بے کار کا رونا ہے
برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے
کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے
غم ہو کہ خوشی دونوں کچھ دور کے ساتھی ہیں
پھر رستہ ہی رستہ ہے ہنسنا ہے نہ رونا ہے
ندا فاضلی نے غزلیں، نظمیں ، دوہے اور فلمی گیت سبھی کچھ لکھا ۔نثر میں خوب طبع آزمائی کی انھوں نے بی بی سی کے لئے کالمز بھی لکھے ۔
انہوں نے اردو ہندی اور گجراتی میں کل 24 کتابیں لکھیں جن میں کچھ اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان کی کتاب “کھویا ہوا سا کچھ ” کے لئے 1998 میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا۔2013 میں انھیں حکومت نے پدم شری سے نوازا ۔ اس کے علاؤہ قومی یک جہتی کے فروغ کے لئے انہیں نیشنل ہارمونی ایوارڈ بھی ملا ۔
ندا فاضلی کی پہلی شادی عشرت نامی خاتون سے ہوئی جو زیادہ عرصہ نہیں چل سکی ان کی دوسری بیوی مالتی جوشی ہیں ۔ فروری 2016 میں ہارٹ اٹیک سے ندا فاضلی کا انتقال ہوا۔ ان کی ایک بیٹی ہے جس کا نام تحریر ہے۔
کام کا تجزیہ
ندا فاضلی نے جہاں غالب اور میر کے انداز کو اپنے اندر جذب کیا وہیں، امیر خسرو ، میرا اور کبیر کی روایت کو بھی اپنایا ۔انھوں نے Eliot اور Gogol سے بھی سیکھا۔ لیکن ان سب سے متاثر ہوکر بھی ندا فاضلی نے کسی کے انداز کی نقل نہیں کی بلکہ اپنا ایک نیا انداز اپنایا.جس نے نئی نسل کو کافی متاثر کیا۔
انھیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ اردو شاعری میں انفرادی جذبوں کو بیان نہیں کیا جاتا ۔ان کا انداز بیان سادہ اور صوفیانہ تھا ساتھ ہی اس میں لوک گیتوں جیسی مٹھاس بھی تھی ۔اپنی شاعری کے بارے میں خود ندا فاضلی کہتے ہیں کہ
“میری شاعری نہ صرف ادب اور اس کے قارئین کے رشتہ کو اہم مانتی ہے بلکہ اس کے سماجی سیاق کو اپنا معیار بناتی ہے ۔میری شاعری بند کمروں سے باہر نکل کر چلتی پھرتی زندگی کا ساتھ نبھاتی ہے ”
ان کی شاعری میں گل و بلبل کے قصہ اور خیالی محبوب کی جفاؤں کے گلے کی جگہ گلی میں میں شور مچاتے بچے ، کوئی سانولی سی لڑکی اور کبھی گھریلو ملازمہ جیسے حقیقی دنیا کے کردار ملتے ہیں ۔۔
غزل
کبھی کبھی یوں بھی ہم نے اپنے جی کو بہلایا ہے
جن باتوں کو خود نہیں سمجھے اوروں کو سمجھایا ہے
ہم سے پوچھو عزت والوں کی عزت کا حال کبھی
ہم نے بھی اک شہر میں رہ کر تھوڑا نام کمایا ہے
اس کو بھولے برسوں گزرے لیکن آج نہ جانے کیوں
آنگن میں ہنستے بچوں کو بے کارن دھمکایا ہے
کوئی ملا تو ہاتھ ملایا کہیں گئے تو باتیں کیں
گھر سے باہر جب بھی نکلے دن بھر بوجھ اٹھایا ہے
وہ کبیر کے فلسفہ سے متاثر تھے اور انسانیت اور مذہبی رواداری پر یقین رکھتے تھے ۔وہ دنیا کو ایک خاندان کی طرف سرحدوں سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے ۔ جہاں نہ صرف انسان کا انسان سے بلکہ انسان کا فطرت سے بھی رشتہ جڑا رہے اور وہ مانتے تھے کہ آج کے فنکار کا فرض ہے کہ ان ٹوٹتے رشتوں کو بحال کرے۔
سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو
کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں
تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
24 کتابوں کے خالق ، 11 فلموں میں بطور گیت کار شامل ہونے والے اور دو فلموں کے ڈائلاگ لکھنے والے عظیم شاعر اور نثر نگار ندا فاضلی نے 77 سال کی عمر پائی وہ ہمیشہ بھیڑ چال سے ہٹ کر رہے اور اپنے کام کے دوران معیار کو مقدم رکھا اسی وجہ سے تمام شعبوں میں انہوں نے مناسب کام کیا ۔ لیکن ان کا تمام کام ایسا ہے جو مدتوں تک فراموش نہیں ہوگا۔
ہندی فلموں میں گلزار کی شاعری اور سلیس زبان کی طرح شاعری میں ندا فاضلی کا سادہ اسلوب بھی ہمیشہ لوگوں کے ذہنوں میں تازہ رہے گا ۔