فریدیت بمقابلہ عمرانیت
فریدیت بمقابلہ عمرانیت اور ہماری ذمہ داری
تاریخ انسانی اپنے آغاز کے ساتھ ہی مختلف قسم کی مذہبی ، سیاسی ، معاشرتی ، تہذیبی تقسیم کا شکار ہے.کہیں ہڑپہ تہذیب کا مقابلہ موسو پوٹامیہ سے رہا.کہیں موہنجوداڑو کا سامنا گندھارا سے رہا.مگر ہر دفعہ تحقیق بحث اور علم کی ترقی نے ان تمام مسائل کو حل کر لیا.بحث شروع ہوتی رہی مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کا اختتام بھی ہوتا رہا.
اسی طرح ادبی دنیا میں بھی کامیابی و ناکامی کی بحث ہمیشہ ہر عہد کے خاتمے کے ساتھ دم توڑتی رہی ہے.جیسے میر و غالب کی بحث غالب کے غالب آنے کہ بعد ختم ہو گئی.
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ایک طرف دنیا امن کے خواب دیکھ رہی تھی .تو دوسری طرف ایک ایسا سانحہ ہونے کو تھا جس کے بعد انسان تو انسان چرند و پرند بھی تقسیم ہونے جا رہے تھے.امریکا اور روس عالمی جنگ کے بعد دنیا میں اپنے اپنے بلاکس بنا کر سرد جنگ کا آغاز کر چکے تھے.مگر سبھی جانتے تھے یہ اتحاد اور اختلاف دیر پا نہیں .نا ہی کسی طرح سویت یونین کو ہمیشہ رہنا تھا نا ہی امریکا کے دفاعی محاذ قائم رہنے کے لیے بنے تھے.
مگر ایک ایسی دشمنی کی بازگشت ہڑپہ سے مصر تک سنائی دے رہی تھی.جو شاید رہتی دنیا تک گونجتی.دنیا کی مٹتی ہوئی تہذیبوں کے امین اور نئی پھوٹ رہی سائنسی دنیا کے انسان یکساں ایسے گم سم کھڑے تھے.جیسے اکیسویں صدی کا انسان کسی اندھیری رات کو کسی سنسان سڑک پر چلتا چلتا راستہ بھول جاۓ اور ایسے راستے پر جا نکلے جہاں انسانیت خاموش ہوتی دکھائی دے رہی ہو .انسان ایسی دنیا میں جا نکلے جس کا وجود کتابوں میں بھی مفقود ہو چکا ہو.ایسا لگے جیسے ابو الہول کے مجسموں میں سوئی ہزاروں روحیں جاگ اٹھی ہوں.
مگر ہونی کو کون ٹال سکتا تھا.
دنیا کے دو حصوں کی ایسی لافانی تقسیم کا حصہ بننے کا آغاز 1952 کی جنوری میں ہوا تب کسی کے وہم و خیال میں بھی نہیں تھا.کہ ایک نوجوان کی لگن جس کو بہت سوں نے دماغی فتور اور دیوانے کی بھڑک کہا تھا رنگ لانے کے سفر پر ہے.
دلیر مجرم کا کردار فریدی جو بعد میں کرنل فریدی بنا اس تقسیم کا روح رواں بنا . جاسوسی دنیا کے آغاز میں ایسا لگا جیسے ادب و جاسوسی کی دنیا جو بیابان و ویران تھی.جس باغ کے پھولوں پر پیار محبت امن سکون پاکیزگی کے پھول توڑ کر فحش نگاری اور چربہ سازی پروان چڑھ چکی تھی. اب اس کو نیا آب و دانہ مل گیا ہے.ادب پر طاری جمود ختم ہو گیا تھا.فریدی کی شہرت چار سو پھولوں کی مہک کی مانند پھیل کر ماحول کو مسحور و معطر کر رہی تھی.بے جان جسموں اور بند دماغوں کی بے چینی کو ختم کرنے ادب کا شہزادہ جنم لے چکا تھا.
فریدی نے قانون انصاف ، مساوات نفسیات فلسفہ کے ایسے پھول کھلائے جس نے چمن کی تمام بوسیدگی کو نیست و نابود کر کے تازہ ہواؤں کے رخ گلشن کی طرف کر دیے. ایک دنیا فریدی و حمید کی دیوانی ہو چکی تھی.
مگر کہتے ہیں کہ خوشی کی عمر کم نا بھی ہو وہ امتحان کافی لاتی ہے .فریدی جو بام عروج پر تھا .جو ادبی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن چکا تھا.جس کی سلطنت اتنی مضبوط ہو چکی تھی.کہ وہاں کوئی دراڑ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا.مگر مصنف ابن صفی صاحب کے ذہن میں آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا سرپرائز تھا.جس کے خواب تو بہت سوں نے دیکھے مگر عملی شکل صرف ابن صفی صاحب نے دی.
1955 کا وہ دن انسانی تاریخ میں بڑی ہی اہمیت کا حامل تھا .اس دن کوچہ و بازار فریدی فریدی کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہے تھے .مگر تب اچانک تاریخ کا دھارا بدلنے کے لئے علی عمران ایم ایس سی پی ایچ ڈی صفحہ قرطاس پر ابھرا.
خوفناک عمارت کیا ادب کو ملی ایسا لگا جیسے دنیا ادب کی ادھوری عمارت مکمل ہو گئی .عمران معصومیت حماقت ، شرارت و ذہانت کا ایک انمول نمونہ تھا جس نے دنیائے ادب کے ہر زندہ دل کو چھو لیا.عمران دشمن پر کبھی شیر کبھی عقاب کبھی لومڑی اور کبھی موت کا عفریت بن کر ٹوٹ رہا تھا. عمران میدان میں کیا آیا گویا بہار آگئی .گل و گلزار جوان ہو گئے.عمران خود دیوانہ تھا.لاپروا تھا.مگر اس نے ادب و ادب پرور لوگوں کو اپنا دیوانہ بنا لیا.عمران کی کہانی آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی.کچھ کردار صرف اس لئے لکھے جاتے ہیں تاکہ ان سے ادب کو زندگی عطا ہو .جو ادب کو بے مثال بنا دیں.جن کی بدولت کتاب شیلفوں سے نکل کر سرہانے آجاۓ.ایسا ہی سب عمران کے آنے کی خوشی میں ہوا.
ایک طرف فریدی اپنی عظمت و کردار کی بلندی پر براجمان تھا.اس کا سنگھاسن مضبوط تر تھا .ادبی دنیا میں صرف جاسوسی دنیا کا راج تھا.دوسری طرف چنگیزی خون اپنی لازوال سلطنت کی بنیاد رکھ رہا تھا.
ادب پرور سخن کے دلدادہ افراد سوچ رہے تھے.کہ جلد فریدی و عمران ایک دوسرے کا دست و بازو بن کر امن فروشوں ، انسانیت کے دشمنوں پر قہر بن کر ٹوٹیں گے.ایسا بھی ہوا جب زمین کے یہ دو عجوبے ، آسمان ادب کے دو سورج جب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر امن عالم بچانے نکلے.
بظاہر وبال کا آغاز زمین کے بادل میں شروع ہوا. مگر یہ تو ایک بہانہ بنا ، بہت عرصہ سے دنیا بٹ چکی تھی.بس یہ آخری ضرب تھی.جس کے بعد عمرانیت اور فریدیت کے پیروکار سر عام ایک دوسرے کے خلاف میدان ادب میں لاؤلشکر کے ہمراہ آنے لگے.زبان و قلم کے نشتر ایک دوسرے کو چبھونے لگے.فریدی و عمران کی عظمت و کردار پر لکھ لکھ کر صفحات کالے کیے جانے لگے.ہر فریق پاگل پن کی حدوں کو عبور کر چکا تھا.مگر مقابلہ کہاں ختم ہونے کو تھا . ایک دوسرے پر دھوپ میں چھاؤں کرنے والے ،پیاس بجھانے والے ، جان قربان کرنے والے ایک دوسرے کی شکل کے روادار نا رہے.
دنیا میں ہر گزری دہائی کے ساتھ دنیا کے انداز بدل رہے تھے.دنیا میں روز دوستی دشمنی کے پیمانے تبدیل ہو رہے تھے.سرد جنگوں کا بھی خاتمہ ہو رہا تھا.کہیں امن اور کہیں جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے. دنیا میں فیشن رنگ ، ادب ، کتاب ، کہانی ، ڈرامہ ، فلم ہر چیز تغیر پذیر ہو رہی تھی.مگر کچھ نہیں بدل رہا تھا.وہ تھا عمرانیت و فریدیت کا جنون.
آج فریدی و عمران کو ادب کے آسمان پر ساٹھ سال سے اوپر کا عرصہ بیت چکا ہے .مگر ان کے چاہنے والے جو نسل در نسل اپنی دوستی اور مخالفت آگے بڑھا رہے ہیں .آج بھی پہلے دن کی طرح ان کے خیالات کئی شکلوں میں تازہ ہیں .
فریدی اور عمران تاریخ کا وہ عجیب لمحہ ہیں ، وہ حسین حادثہ ہیں ،وہ دل فریب واقعہ ہیں ، وہ جان لیوا قصہ ہیں ،جو انسان کو دو حصوں میں ایسے کاٹ گیا جیسے چھرے سے مکھن کاٹ دیا جاتا ہے .
ہر دور کی بحث کا خاتمہ کہیں نا کہیں ،کسی نا کسی نہج پر ضرور ہوتا ہے .علم و ادب کے سمندر میں غوطہ زن بہت سے کتابی تیراک ایسے ثبوت اور نا قابل تردید شواہد نکال لاتے ہیں کہ کسی ایک فریق اور نظریے کو پسپا ہونا پڑتا ہے .مگر یہاں معاملہ ہی الٹ ہے .عمران کے چاہنے والے عمران کی کھوج میں نکل کر واپس لوٹتے ہیں تو وہ فریدیت کے چند محاسن بھی تراش لاتے ہیں .اور بتاتے ہیں کہ اس دشمنی کا بھی ایک معیار ہے .اسی طرح فریدی کے چاہنے والے جب زمانوں کی خاک چھان کر موتی ڈھونڈتے ہیں وہ ساتھ ہی ساتھ عمرانیت کے ایسے پوشیدہ پہلو بیان کر جاتے ہیں کہ قارئین انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں .
مگر یہ خلیج تو خلیج فارس کی طرح بڑھتی چلی جا رہی ہے .یہ فاصلہ جو پڑھنے والوں کے مابین علمی طور پر در آیا ہے یہ صحرائے صحارا سے بھی زیادہ لمبا ،ایمیزون کے جنگلوں سے گھنا، سمندروں سے زیادہ گہرا اور آکاش سے بھی بلند ہو چکا ہے .
انسان اپنے آغاز سے قبیلوں علاقوں میں تقسیم رہا.مگر وقت کی رفتار نے اس تقسیم کو ختم نہ سہی ،کمزور ضرور کیا.مگر فریدی و عمران کی تقسیم نے ادب پرور افراد کو ایسا بانٹا ہے جو کسی طرح جڑنے کا نام نہیں لے رہے ، عمران و فریدی ایک دوسرے کی نا ضد ہیں نا دشمن ، نا مخالف ، مگر بعد والوں نے ان کو اپنی حد تک جدا کر دیا.
وہ دونوں تو انسانیت کے لئے قربان ہو جانے والے دو ایسے انسان ہیں کہہ اگر کبھی وقت آن کھڑا ہوتا تو ایک دوسرے پر قربان ہو جاتے.فریدی و عمران ایک دوسرے کی تکمیل ہیں.فریدی پھول ہے تو عمران اس کی خوشبو ، فریدی باغ ہے تو عمران بہار فریدی بادل ہے تو عمران برسات ، فریدی پیاس ہے تو عمران آب ، فریدی نغمہ ہے تو عمران سرور ،فریدی ساقی ہے تو عمران مے خانہ ، فریدی سورج ہے تو عمران روشنی ، فریدی شمع ہے تو عمران پروانہ ، فریدی سحر ہے تو عمران طلسم ،
فریدی و عمران دو نام ضرور ہیں ،دو مکمل کردار ضرور ہیں.مگر یہ دونوں مل کر ادب کو معنی عطا کرتے ہیں .
چند لوگ کسی ایک کردار کی محبت و عظمت کی خاطر دوسرے کو گرا کر نا ادب کی خدمت کر رہے ہیں نا ہی ابن صفی صاحب کے قلم کا قرض اتار رہے ہیں.جس کردار سے محبت ہو اس کے فنی محاسن ضرور بیان کریں مگر دوسرے کو نیچ ثابت کرنے کی کوشش میں مبتلا لوگ ابن صفی صاحب کو سمجھ ہی نہیں پائے ، آج بھی یہ بحث جاری ہے مگر آج علم سے زیادہ ضد آڑے آ رہی ہے.ابن صفی صاحب اگر اردو ادب کے بے تاج بادشاہ ہیں یا وہ سری ادب کے بانی ہیں یا ان کا قلم ان کو تمام لکھنے والوں میں ممتاز کرتا ہے تو اس کے پیچھے ان کا ایک کردار نہیں ہے .بلکہ فریدی و عمران دونوں مل کر ان کو عظمت عطا کرتے ہیں.جب کسی ایک کو گرانے کی جسارت کی جاتی ہے تب اصل میں ابن صفی صاحب کے قلم کو جھکانے کی کوشش کی جاتی ہے .
ابن صفی صاحب کے سچے لوورز ان کے ناولز میں چھپے خزانے تلاش کرنے والے اگر اتنے سطحی ہوتے چلے جائیں گے تو ابن صفی صاحب کا عظیم مقصد ادھورا رہ جاۓ گا .
عمران سے محبت ہو یا فریدی سے عقیدت یہ دونوں ایک ہی انسان کی تخلیق ہیں .ان میں سے کسی ایک سے زیادہ قریب ہونا لازم ہے مگر دوسرے کا بغض کم علمی اور ذہنی پستی کی علامت ہے .
اس لئے اگر علم سے محبت ہے تو ابن صفی صاحب کے قلم سے کچھ سیکھا ہے تو اپنی توانائی کسی کو گرانے کی بجائے اٹھانے میں صرف کریں.
یہی فریدیت اور عمرانیت کا درس ہے .عمران و فریدی قانون کی حکمرانی ،انسان اور انسانیت سے محبت ،نفسانی کمزوریوں سے جنگ کا دوسرا نام ہے.یہ انصاف و عدل بھائی چارے اور مساوات کے دیوتا ہیں.یہ کسی ایک کے نہیں سب کے ہیں.اردو زبان کا ہر طالب علم عمران و فریدی کی تقسیم کا شکار ہمیشہ رہے گا مگر کوئی مشکل نہیں کہ اس تقسیم کو مثبت رنگ نا دیا جاۓ.
ہر فریدی پسند کا فرض ہے وہ عمران کے ایسے پہلو تلاش کرئے جس کو ابھی تک عمرانیات کے طالب علم ڈھونڈ نہیں پاۓ ،اسی طرح عمران پسندوں کے ذمے ہے کہ فریدی کے ان محاسن کو کھوجا جاۓ جن پر آج تک فریدیت کے سرکردہ افراد روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں.
بحث کریں مگر اسکی وجہ مقصد حصول علم ہو .فریدیت و عمرانیت تو کم نہیں ہوگی نا ان سے محبت کے دعوے مگر یہ جنگ جو قریب 67 سال سے جاری ہے اور ابھی تو جوان ہو رہی ہے .جس کو ابھی مزید بڑھنا ہے .اس جنگ کو اتنا خوب صورت اور دل فریب بنا دینا چاہیے کہ ہر فوجی ہاتھ میں پھول ، لبوں پر محبت کے بول گاتا اپنے محاذ پر ڈٹا نظر آئے..
عمران کے محب ضرور محبت کریں مگر جولیا سے دور رہیں ورنہ تنویر ابھی زندہ ہے .
فریدی کو چاہیں، اس کے گیت گائیں مگر یلایلیاں اور فل فلوٹیوں کو بھول جائیں ،یہاں حمیدیت کا فلسفہ عشق و محبت کافی ہے .پھر عمران کا کھالہ جاد قاسم موجود ہے .لہٰذا جب تک فریدیت و عمرانیت آپس میں دست و گریبان ہے تب تک یہ کام ہم سمبھال لیتے ہیں.جولیا کو سہارا چاہیے ، روشی کو ہمدرد کی ضرورت ہے .پھر غزالہ بھی تو کسی سے راز و نیاز چاہتی ہے .انور سے تنگ آئی رشیدہ بھی اندر سے ویران ہے .پھر قاسم و حمید کو بھی ایک پارٹنر کی ضرورت ہے . جب تھک جائیں اس لفظی جنگ سے تب آجائیں سب شکر گڑھ چلیں گے. شکرال کی تلاش میں نکلیں گے.اپنے اندر چھپے کسی ایڈلاوا کسی بوغا کسی ہمبنگ کسی سنگ ہی کسی شاستری کسی تھریسیا کسی بنتھال کسی تیاگی سے جنگ کریں گے ،تاکہ ہم سب انسان بن سکیں.فریدیت و عمرانیت دونوں ہی انسانیت کا سبق ہیں.یہی ابن صفی صاحب کا درس ہے .
Load/Hide Comments