ہراسمنٹ
ہراسمنٹ
عندلیب زہرا
آج کل خواتین جس مسلے سے سب سے زیادہ دوچار ہیں وہ ہے ہراسمنٹ۔۔۔
ہر عمر اور ہر کلاس کی عورت اس کا سامنا کرتی ہے۔ ہراسمنٹ سے مراد ہے کسی کو خوف زدہ کرنا،ذہنی جسمانی،اخلاقی لحاظ سے پریشان کرنا۔۔۔
اس کا دائرہ گھریلو سطح پر بھی ہے اور باہر کی دنیا سے بھی۔اس رویے کا محرک خواتین یا بچے ہوتے ہیں۔ناپسندیدہ ،معنی خیز گفتگو اور اشارے ،کالز، تصاویر، کے ذریعے ہراساں کرناشامل ہے
یہ بات بہت افسوس ناک ہے کہ جو عورت گھر سے باہر قدم رکھتی ہے اسے ایسے رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور یہ اذیت صرف وہ خواتین ہی محسوس کر سکتی ہیں جو ان مراحل سے گزر رہی ہوں۔۔مرد ہر عورت کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے۔مشکوک،بدگمان،احترام سے عاری نظر،۔ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا جتنا بھی دعویٰ کریں ،عورتوں کے حقوق کے بل پاس نہ کروالیں،ہم مردوں کی فطرت کو مہذب بنانے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔۔
ہراسمنٹ کا سب سے بڑا سبب مردوں کا احساس برتری ہے مذہبی تعلیم سے دوری،اخلاقی اقدار سے چشم پوشی۔۔۔۔یاد رکھیں کہ ظالم اس وقت تک ظلم کرتا ہے جب تک مظلوم اس کے خلاف کھڑا نہ ہو جائے۔۔۔۔مرد کو یقین ہوتا ہے کہ عورت اس کے خلاف کبھی کھڑی نہیں ہو گی۔۔۔۔
خوف و جبر ،کمتر مقام،معاشرتی و خاندانی دباؤ،،،یہ عناصر انھیں سر نہیں اٹھانے دیتے،خواتین کو مراعات سے زیادہ احترام اور نسوانی تحفظ کی یقین دہانیوں کی ضرورت ہے،۔ہراسمنٹ کے خلاف آواز اٹھانا سیکھیں۔۔۔۔اور اس جرم کے مرتکب کو سزا دی جائے,،،،،،
اس موضوع کو حساس سمجھ کر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ غلط سوچ ہے،،
خواتین کو ایسے معاملات میں گھر والوں کی جانب سے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے،ایک طالبہ جو اعلیٰ تعلیم کی خواہش مند ہے۔ایک عورت جو گھر والوں کی کفالت کرنا چاہتی ہے اگر وہ ہراسمنٹ سے گزرے گی تو اس کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں،۔
ایک ہراسمنٹ گھر کے اندر ہے۔ساس نند کے رویے،شوہر کا ہتک آمیز رویہ، شک ۔۔۔۔عورت کو نفسیاتی مریضہ بنا دیتے ہیں،۔۔۔ لڑکیوں کو دبا کر دھمکا کر یا ان کے حقوق سلب کر کے اپنے تابع نہیں کر سکتے۔آپ ہراسمنٹ کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو حق کا ساتھ دینا سیکھ لیں،خواتین کو کسی بھی ایوارڈ بل ،یا قانون کے نافذ العمل ہونے سے زیادہ تحفظ اور اس احترام کی ضرورت ہے جو مرد حضرات دینے کے پابند ہوتے ہیں۔