ہیلن کیلر ۔جدوجہد اور عزم کی مثال
ہیلن کیلر ۔جدوجہد اور عزم کی مثال
تبسم حجازی
کہا جاتا ہے کہ جو دیکھتے ہیں وہ کچھ نہیں دیکھتے ۔ انسان روز جس صبح کا آغاز کرتا ہے وہ اس کے آغاز سے آشنا بھی نہیں ہو پاتا ۔ وہ چیزوں کے درمیان سے گزرتا جاتا ہے اس کی زندگی کے ماہ و سال اور ایام، فطرت اور مناظر فطرت کو نظر انداز کے کے آگے بڑھتے ہیں ۔ انسان اپنی زندگی کے مسائل و معاملات میں اتنا کھو جاتا ہے کہ اس کی پہلی سانس سے آخری سانس کب آ جاتی ہے وہ جان ہی نہیں پاتا ۔اسے کبھی معلوم ہی نہیں ہو پاتا ہے کہ اس کے پاس کیا کیا موجود ہے وہ بس اسی سوچ کے دائرے میں زندگی بسر کر دیتا ہے کہ اس کے پاس کیا کیا نہیں ہے ۔
انسان کی اسی فطری بے حسی اور کج فہمی پر ہیلن کیلر کہتی ہیں کہ ” انسان آنکھیں رکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتا کیونکہ انسان کے پاس صرف آنکھیں ہیں ، نگاہ نہیں ہے۔وہ وہی دیکھتا ہے جو ظاہر میں نظر آتا ہے۔”
ہر انسان صبح کی پہلی ہوا ، سورج کی پہلی کرن٫ شبنم کے قطرے ، پھول کی پتی ، کلی کی خوشبو ، باد صبا سے باد نسیم تک ، پرندوں کی چہچہاہٹ ٫ بہار کے دن ، جاڑوں کی راتوں سمیت ہر وہ منظر نہیں دیکھ پاتا جو اسے قدرت نے بنا کسی کوشش و کاوش کے عطیہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہیلن کیلر ان کو اندھا کہتی ہیں ۔
ہیلن کیلر نے مشکل ترین زندگی گزاری لیکن وہ انسان کو ان سبھی چیزوں اور نعمتوں سے روشناس کرواتی ہے جن سے اس کی اپنی شناسائی برسوں میں ہوئی ۔ وہ نہ بول سکتی تھی نہ سکتی تھی لیکن اس نے دنیا کو دیکھنے کا زاویہ ہی بدل دیا۔
وہ بینائی سے محروم ہے اور اس کی سماعت بھی نہیں ہے لیکن وہ اسے اپنی کمزوری نہیں بناتی بلکہ وہ اس حالت میں انسان کو احساس دلاتی ہے کہ ان نعمتوں کو پا کر انسان کیا کیا دیکھ سکتا تھا اور کیا کیا اس نے آنکھوں کے باوجود دیکھا ہی نہیں ۔
ہیلر کیلن کی زندگی کے بارے میں جان کر یہ احساس ہوتا ہے کہ انسان بہت ناشکرا ہوتا ہے خود کو ملی نعمتوں کی اسے قدر نہیں ہوتی۔ اس جہاں رنگ و بو میں پھیلی خوبصورتی کو دیکھنا چاند ستارے پھول اور اپنے پیاروں کی شکل صورت کو دیکھ پانا اور ان کی آوازوں کو سننا کتنی بڑی نعمت یے یہ صرف وہ شخص جان سکتا ہے جس نے زندگی میں صرف اندھیرے ہی دیکھیں ہوں اور خاموشی ہی سنی ہو۔
ان نعمتوں سے محروم انسان عموما عام انسانوں کی طرح زندگی نہیں گزار پاتے لیکن ہیلن کیلر جیسے کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ان محرومیوں نہ صرف لڑتے ہیں بلکہ انھیں شکست دے کر عام آدمیوں سے کہیں زیادہ کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔بینائی اور سماعت سے محروم کیلر نے جدوجہد اور عزم کی ایسی مثال قائم کی جو بہت کم نظر اتی ہیں۔
ہیلن کیلر نے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے جو کچھ سیکھا اس کو ایسے بیان کر دیا کہ آنکھوں والے حیران و پریشاں ہو گئے کہ ہم سب کیا کیا دیکھ کر بھی ان دیکھا کرتے رہے کیونکہ ہمیں قدرت سے ملے تحفوں کی کبھی قدر نہیں ہوتی ۔ ان نعمتوں کا احساس انسان کو ان کے چھن جانے پر ہوتا ہے۔
ہیلن کیلر کی زندگی کا صرف یہی ایک رخ نہیں تھا اس نے اپنی مشکل زندگی کو دوسروں کے لیے ایک روشن مثال بنا دیا تھا وہ اپنے عہد اور اس کے بعد ہر عہد کی ایک بے مثال شخصیت بن کر ابھری تھی۔اس نے اپنی فطری کمزوریوں ، بینائی اور سماعت کی کمی کو شکوے اور شکایات کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ اس نے یہ ثابت کیا کہ انسان اگر عزم و استقلال اور مصمم ارادے کو مالک ہو تو اسے دنیا کی کوئی طاقت اپنے مقصد کے حصول سے روک نہیں سکتی ۔
ہیلر کیلن نے زندگی کو الگ ڈھنگ سے جیا اور زندگی کے رنگوں کو بنا دیکھے بھی ایسے محسوس کیا اور دوسروں کو کروایا ہے کہ دیکھنے والوں میں یہ احساس جاگ اٹھتا ہے کہ وہ قدرت کی کیسی کیسی نعمتوں اور عظمتوں سے غافل رہے ہیں ۔انسان اگر ہمت باندھ لے تو کائنات کے حسن و جمال اور خوبصورتی کو اپنے اندر سمو سکتا ہے وہ بنا آنکھوں کے وہ دیکھ سکتا ہے جو آنکھوں والے نہیں دیکھتے ۔
ہیلن کیلر امریکن رائٹر ، معذوروں کے حقوقِ کی علمبردار اور سوشل ورکر تھیں ۔ان کی پیدائش 27 جون 1880 کو الباما کے شہر ٹسکمبیا کے ایک متمول اور معزز گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد آرتھر کیلر اخبار کے ایڈیٹر تھے ۔ہیلن کے چار بھائی بہن تھے۔ تقریبا دو سال کی عمر میں ہیلن برین فیور کا شکار ہوگئی جس نے اس کی بینائی اور سماعت پر اثر کیا اور وہ ان دونوں حسوں سے صدا کے لئے محروم ہوگئی۔۔
بچپن کے ابتدائی سال ہیلن نے اپنی خادمہ سے اشاروں کی زبان سیکھنے میں گذارے لیکن اس دور میں اس کی تربیت ٹھیک نہیں ہوپارہی تھی۔ معذوری نے اس کے مزاج پر بہت اثر کردیا تھا اور وہ ایک چیخنے چلانے والی غصیلی اور بدماغ بچی بن گئی تھی جس سے سب گھبرانے لگے تھے لیکن اس کے والدین نے ہمت نہیں ہاری ۔اس کی والدہ ہیلن کی تعلیم اور تربیت کے مختلف لوگوں سے ملتے رہے اور مختلف شہروں کا سفر کرتے رہے ۔ایسے ہی ایک ڈاکٹر جولین چشلوم تھے جنہوں نے ہیلن کو گراہم بیل کے پاس بھیجا جو فون کے موجد ہیں وہ اس وقت بہرے بچوں کے ساتھ کام کررہے تھے لیکن ہیلن کی معذوری دہری تھی اس لئے گراہم بیل نے ہیلن سے ملنے کے بعد انھیں بوسٹن کے پرکنز انسٹیوٹ میں بھیجا جو نابیناوں کے لئے تھا ۔انسٹیٹوٹ کے ڈائیریکٹر نے ہیلن کے والدین کو ہیلن کے لئے ایک مستقل ٹیچر رکھنے کا مشورہ دیا اور یہیں سے ہیلن کی زندگی کا ایک انتہائی موڑ شروع ہوا۔
7 مارچ 1887 کو این سلوین الباما میں ہیلن کے گھر آئی اور اس نے پیلن کی تعلیم و تربیت شروع کی ۔یہ ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا کیونکہ ہیلن جیسی ضدی اور ہٹ دھرم بچی کو جو سماعت اور بینائی دونوں سے محروم ہو، دنیا سے متعارف کرانا کوئئ اسان کام نہ تھا لیکن دنیا میں کچھ لوگ این سلوین جیسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی زندگی دوسروں کے لئے وقف کردیتے ہیں ۔سلوین نے بھی اپنی زندگی کے 49 سال ہیلن کو دے دئے ۔ابتدا میں ہیلن نے اشاروں کی زبان سیکھنے میں دلچسپی ظاہر کی لیکن وہ سیکھے گئے الفاظ اور چیزوں میں تعلق قائم نہیں کرپارہی تھی۔اس لئے سلوین اسے گھر والوں سے دور اپنے ساتھ لے کر فارم ہاوس پر بنے کاٹیج شفٹ ہوگئی ۔وہاں ہیلن نے اپنی زندگی کا پہلا لفظ پانی سیکھا ۔ سلوین نے اسے ٹھنڈا پانی محسوس کروا کر اس کے پاتھوں پر پانی لفظ لکھا۔ یہ تجربہ ہیلن کے لئے اتنا انوکھا تھا اور خوش کن تھا کہ اس دن کا سورج غروب ہونے تک اس نے تیس الفاظ سیکھ لئے یہ سیکھنے کے ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کا اغاز تھا جس میں ہیلن نے بہت سے کارہائے نمایاں انجام دئے اور اپنا نام تاریخ میں درج کروالیا ۔۔
1988 میں ہیلن نے پرکنز انسٹیٹیوٹ اٹینڈ کرنا شروع کردیا ۔اس کے بعد نیویارک اور میساچیوسٹس کے معذوروں کے لئے بنے مختلف اداروں سے اپنی تعلیم مکمل کرکے آخر کار ہاورڈ جیسے معزز ادارہ میں داخلہ لیا ۔کالج کے دوران سلوین اس کے ساتھ ہر لیکچر اٹینڈ کرتی تاکہ وہ یہ ساری معلومات ہیلن تک پہنچا سکے۔ یہاں انھیں مارک ٹوئن جیسے مشہور رائٹر کا تعاون ملا اور 1904 میں بائیس سال کی عمر میں ہیلن نے پہلی بہری اور نابینا شخص کے طور پر ہاروڈ جیسے بڑے اور نامور ادارے سے بیچلرز کی ڈگری لی یہ اپنے آپ میں بہت بڑی کامیابی ہے لیکن ہیلن کیلر کے لئے یہ صرف ابتدا تھی۔
کالج کے دوران ہیلن نے مواصلات کے کئی طریقے سیکھے جن میں بریل ، ہونٹوں کو چھو کر الفاظ پہچاننا ، ٹائپنگ اور فنگر اسپیلنگ وغیرہ شامل تھے۔ان سب طریقوں سے ہیلن دوسروں کی بات تو سمجھنے لگی تھی لیکن وہ لوگوں تک اپنے خیال اور اپنی بات پہچانا چاہتی تھی اور اسی لئے سخت محنت اور جدوجہد کرکے اس نے بولنا سیکھا اور اس نعمت کا استعمال کرکے زندگی کے باقی سال اپنے الفاظ سے لوگوں کو حوصلے بڑھانے میں گذارے ۔
ہیلن کیلر نے کل بارہ کتابیں اور کئی آرٹیکل لکھے ۔1903 میں ان کی پہلی کتاب شائع ہوئی تھی “دی اسٹوری آف مائی لائف” جو سلوین اور اس کے شوہر کی مدد سے لکھی ہے۔ اس کتاب میں ہیلن نے اپنے بچپن سے 21 سال کی عمر تک کے حالات بیان کئے تھے۔ اس کے علاوہ ہیلن کے قلم کا اگلا کارنامہ 1907 میں ظاپر ہوا جب اس نے بچوں کو اندھے پن سے بچانے کے اقدام پر آرٹیکل لکھ کر لوگوں اور میڈیکل فیلڈ کو اس کا احساس دلایا۔ ہیلن کے اس ارٹیکل نے انے والوں سالوں میں نہ جانے کتنے بچوں کے زندگی اندھیری ہونے سے بچالی۔ اس کے بعد ان کا قلمی سفر مسلسل چلتا ریا جس میں The World I live. ان کے دنیا کے متعلق تجربات پر لکھی گئی ہے۔ سوشلزم پر لکھی ان کی آؤٹ اف ڈارک سیریز اور لائٹ ان ڈارکنیس جو ان کے روحانی سفر کا بیان ہے وہ بھی مشہور کتابیں ہیں۔
کالج ختم کرتے ہی ہیلن کیلر دنیا کو سمجھنے اور لوگوں کے کچھ کرنے کے عزم کو لے کر نکل پڑیں ۔۔انھوں نے سوشلسٹ پارٹی جوائن کرلی اور 1909 سے 1921 تک اس پارٹی کے لئے بہت کچھ کیا آرٹیکلز لکھے ، تقاریر کیں اور اسی دوران ان کی معذوری کو نشانہ بھی بنایا گیا لیکن ہیلن نے اپنی ثابت قدمی سے یہ دنیا کو دکھا دیا کہ جسمانی معذوری کے باوجود وہ ایک مضبوط سیاسی نظریہ رکھتی ہیں اور اس کے لئے کھڑے ہوسکتی ہیں ۔
سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ ہیلن نے معاشرے میں عورتوں کے مسائل اور نابینا لوگوں کے لئے بھی بہت کچھ کیا ۔کچھ ہی عرصہ میں وہ اپنی تقاریر اور تحریر کے باعث سارے امریکہ میں مشہور ہوگئی ۔۔جارج کیسلر کے ساتھ مل کر 1924 میں ہیلن نے امریکن سول لبرٹی یونین کی بنیاد رکھی۔ بینائی سے محروم لوگوں کے مسائل اور بچوں کو اس سے بچانے کے لئے جو اقدامت کئے گئے انھیں ممکن بنانے میں ہیلن کی کوششیں قابل داد ہیں۔
1946 میں ہیلن انٹرنیشنل فاؤنڈیشن آف بلائنڈ کی کاونسلر بنی اور دنیا کے پانچ براعظموں کا سفر کیا۔ 35 ملکوں میں جاکر لیکچر دئے۔ لوگوں کی حوصلہ افزائی اور انھیں اپنی معذوری سے ابھرکر آگے بڑھنے کا مشن لے کر ہیلن کی کوششیں عمر کے آخری دور تک جاری رہیں ۔75 کی عمر میں سارے ایشیا کا تقریبا 40 ہزار میل کا سفر کیا اور جگہ جگہ رک کر اپنے الفاظ کے جادو سے لوگوں کو زندگی سے معذوری سے لڑنے کی ہمت دلائی۔
ہیلن کیلر کو احساس تھا کہ انھیں اپنی معذوری کے باوجود زندگی میں آ گے بڑھنے کا موقع اس لئے ملا کیوں کہ وہ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ہر کوئی اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا اسی لئے وہ غریب بچوں کے حقوق کے لئے لڑتی رہیں کہ ہر بچہ کو زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے برابر کے مواقع ملنے چاہیں۔ چاہے وہ کسی بھی معاشی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو۔
ہیلن کیلر کو ملنے والے اعزازات کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سر فہرست دی پزیڈنٹ میڈل آف فریڈم ہے۔ اس کے علاوہ تھیوڈور روزویلٹ سروس میڈل حاصل کیا اور ویمنز ہال آف فیم میں بھی منتخب ہوئیں ۔انھیں دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں نے اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا جن میں ہاورڈ یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف گلاسگو ، اسکاٹ لینڈ ،برلن ، جرمنی ، دہلی اور جوہانسبرگ شامل ہیں۔امریکہ ،سوئزر لینڈ، اسپین ،فرانس ، اسرائیل اور پرتگال جیسے کئی ملکوں میں سڑکیں ہیلن کے نام پر رکھی گئی ہیں۔ گیلپ اور ٹائمز کے پول میں بیسوی صدی کے سو اہم لوگوں کی لسٹ میں ہیلن بھی شامل تھی ۔
ایسے شاندار کیریئر کی مالک ہیلن کا انتقال 88 سال کی عمر میں 1 جون 1968 کو ہوا۔
اپنی مسلسل جدو جہد ، سوشل ورک اور کامیابیوں سے ہیلن کیلر نے دنیا کو دکھایا کہ انسان کس طرح اپنی کمزوریوں سے اوپر اٹھ کر خود کو ثابت کرسکتا ہے ۔جب انسان میں حوصلہ ہو ، اگے بڑھنے کی لگن ہو ،دوسروں کے لئے کچھ کرنے کی خواہش ہو تو کوئی معذوری آپ کو نہیں روک سکتی ۔ایک نابینا اور سماعت سے محروم خاتون نے دنیا میں وہ کچھ کر دکھایا جو بہت کم لوگ کر پاتے ہیں۔ہیلن کیلر کی زندگی کا ایک پہلو ان کا بینائی سے محروم ہو جانا ہے دوسرا پہلو ان کا اس عارضے ہو قبول کرنا ہے ، اسی طرح سماعت کو کھو دینا اور اس کو بھی قبول کرنا ہے ۔
تیسرا پہلو ان مسائل میں گم ہونے کی جگہ ان سے مئی راہیں پیدا کرنا ہے اور سب سے اہم پہلو انسانیت کو یہ سبق دینا ہے کہ انسان کیا کیا کر سکتا ہے وہ لوگ جو اپنی زندگی کہ ناکامیوں ، ناہمواریوں ، مسائل ، پریشانیوں کے جواز تلاش کرتے ہیں جو حقیقت سے آنکھ چرا کر سچ کا سامنا کرنے گھبراتے ہیں جو اپنی کمزوری کا ذمہ دار زمانے کو ٹھہراتے ہیں۔ ان کے لیے بڑا سبق ہے کہ اگر انسان کوشش کرنے کی ٹھان لے تو باقی جواز ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں ۔ انسان کو کوئی جسمانی عارضہ اس کے مقصد کے حصول سے محروم نہیں کر سکتا اگر انسان خود ہی اپنے آپ کو دھوکا نہ دے ۔
ہیلر کیلن نے زندگی کی محرومیاں برداشت کر کے کائنات اور اس کے حسن کے ساتھ ایک عجیب سی محبت کی اور اس کو اپنے الفاظ سے امر کر دیا۔