بسم اللہ
بسم اللہ
حمیرا ثاقب
” انتخاب “
روئی سے زیادہ نرم و گداز بستر پر بچھی مخملیں دبیز چادر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ نورِ جہاں کچھ سوچے جا رہی تھی ۔۔۔
سفید نورانی سے ماحول میں ایک خوشگوار سی ٹھنڈ تھی ۔۔۔ اور اِس میٹھے سے ماحول میں نورِ جہاں کی پلکیں بوجھل ہو رہی تھیں۔۔آنکھیں بند ہوتے ہی نورِ جہاں کو احساس ہوا کہ اُس کی ازحد گھنیری پلکیں اُس کے ریشمی پپوٹوں سے مِل رہی تھیں ۔۔اُسے یاد آیا کے کہ کبھی زیتون کا تیل تو کبھی کیسٹرآئل لگا لگا کر وہ کتنے جتن کرتی تھی کہ اُس کی پلکیں لمبی اور گھنی ہو جائیں ۔۔ اِس دیرینہ خواہش کا یوں پورے حُسن و خوبی سے مکمل ہونا اُسے ایک الوہی سی تسکین دے رہا تھا ۔۔
” نورِجہاں ” ایک بہت ہی میٹھی اور نرم آواز میں جب اُسے پُکارا گیا تو اُس نے انکھیں کھول دیں ۔۔ سامنے پھیلا ہوا نور کا ہالہ اُس کی نظروں کو خیرہ کرنےلگا ۔۔۔ ” جی ۔۔! ” بے اختیار اُس کے تیز گلابی لب ہلے تھے ۔۔
” آپ جانتی ہیں نا ۔۔! آپ اکثر کہا کرتی تھیں ۔۔ کہ زندگی کا ساتھی چُننے کا حق مجھے کیوں نہ ملا اور جو آدھا ادھورا حق ملا بھی تو پھر ماں باپ ۔ سماج ۔ خاندان کاایک ان دیکھا سا دباؤ بھی ساتھ تھا کہ یہ شریکِ زندگی بُرا ۔۔ بھلا ۔۔ جیسا بھی ہے اب اسی کے ساتھ نباہ کرنا ہے ۔ یاد ہے نا !! نورِ جہاں جب آپ کو یہ کہا جاتا تھا کہ “شریف لڑکیاں ماں باپ کے فیصلے اور عزت کی ہمیشہ لاج رکھتی ہیں”
نورِجہاں اِس نرم رسیلی آواز کے سحر میں کھوسی گئی تھی ۔۔ اُسے وہ سب تلخ و تند لمحے یاد آنے لگے ۔۔ جب جب اُس نے جذبات کی شدت کے ہاتھوں یہ سوچا تھا کہ وہ بغاوت کر دے ۔۔ ماں باپ سے ۔۔ سماج سے ۔۔ خاندان کی عزت و وقار یہاں تک کہ اولاد سے بھی ۔۔
اُن سب لمحوں کی اذیت کو محسوس کرتے ہوۓ نورِجہاں کا دل بوجھل ہوا ہی تھا کہ وہی نرم ، کومل اور میٹھی آواز اُس کی سماعتوں میں رس گھولنے لگی
” نورِجہاں۔۔! یاد ہے جب زندگی کے بہت سے نشیب و فراز سے گزر کر آپ کے اندر پختگی آئی تو بہت بار آپ نے کئی متضاد دُعائیں مانگیں تھیں
کبھی اپنے شریکِ زندگی کی صحت،سلامتی،عافیت اور کبھی اس کے ساتھ دائمی زندگی گزارنے کی دعائیں۔۔۔
نورِ جہاں کے نرم دل پر محبت کی پھوار برسنے لگی ۔۔۔اسے یاد آنے لگا کہ کیسے راحت کے لمحوں میں اور اپنے شریکِ زندگی کی اعلی خوبیوں پر نظر رکھتے ہوئے اس نے ایسی ہی تمام دعائیں مانگی تھیں ۔۔۔
“یاد آیا نورِ جہاں!!”اس آواز کی تاثیر سے نور جہاں سکون کے اتھاہ سمندر میں ڈوبتی جا رہی تھی
ساری زندگی۔۔۔۔اس کے تمام ادوار۔۔بچپن ۔۔۔جوانی۔۔۔ادھیڑ عمر۔۔۔بڑھاپا۔۔موت
سب کے سب اس کے سامنے تھے
“اور ہاں نورِ جہاں!!اب یاد کریں ان دلی تمناؤں کو ۔۔۔ جن کو اندر ہی اندر آپ نے پالا۔۔وہ جذبات جن میں گرمی ،شدت اور حدت تھی اور اتنی حدت کہ آپ خود ان سے نظر چراتی تھیں ۔۔۔آپ وہ سب چاہتی تو تھیں مگر نارسائی کے تکلیف سے روح وبدن پر جو بھی گھاؤ لگتے،ان کو اندر ہی اندر گھوٹ دیتیں ۔۔۔یاد ہے نا۔!!!
“کتنا دل چاہتا تھا آپ کا کہ کوئی ہو جو بس آپ کو سراہے۔۔۔آپ پر سے اس کی نظر نہ ہٹے ۔۔آپ کے لیے اس کی وارفتگی میں کوئی کمی نہ آئے ۔۔ہروقت۔۔ اس کی محبت کی شدت یکساں رہے۔۔۔ آپ کے کہے بغیر وہ آپ کی دلی تمناؤں کو جان لے ،سمجھ لے اور آپ کی خوشی کے آگے اسے کچھ بھی نظر نہ آئے۔۔۔
اس آواز میں شوخی ،شرارت اور نغمگی رچنے لگی تھی ۔۔نور جہاں کو ایک دم عجیب سے ڈر نے آن گھیرا۔۔۔
ارررے ے!!میرے دل کے نہاں خانوں میں چھپے میرے یہ نا آسودہ جذبے بھی یہاں کھول کھول کر مجھے بتائے جا رہے ہیں ۔۔۔ہائے!! اب کیا ہو گا ۔۔ کیا میں نے یہ سب چاہ کر گناہ کیا تھا؟؟جن کا اب مجھے حساب دینا ہو گا۔۔”نورِ جہاں کی نبضیں ڈھیلی ہونے لگیں اور تنفس تیز ہو گیا ۔۔دل دھڑ دھڑ بجنے لگا
“ڈریئے مت میری پیاری نورِ جہاں!!! وہ نرم آواز شہد آگیں ہو گئی “وہ سب جذبے اور چاہتیں جن کو آپ نے اندر ہی اندر پیدا ہونے پر دبایا،گھوٹا۔۔۔اور اپنی راہِ سلیم کو کھوٹا نہ ہونے دیا۔۔ان پر یہاں کوئی مواخذہ نہیں ہو گا ۔۔۔بلکہ ان کو قابو پالینے پر انعام ملنے کا وقت اب آچکا ہے ۔۔۔خوش ہو جائیے۔۔۔یہاں سب وعدے پورے کئے جائیں گے۔”
نورِ جہاں کے دل کی دھڑکنیں مدہم سروں میں بجنے لگیں۔۔۔مزید انعام کی نوید سن کر اس کی روح وجد کرنے لگی۔۔۔مگر وہ یہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ وہ انعام ہو گا کیا؟؟
“ہم جانتے ہیں کہ اب آپ اُس انعام کے بارے میں جاننے کو بے چین ہیں ۔”آواز میں اب خوشی کی کھنک تھی ۔۔۔نور جہاں کے تیز گلابی لب مسکرائے اور اس دلفریب مسکراہٹ سے ان کا کندنی رنگ اور دمک اٹھا۔۔۔نور جہاں کا جاودانی حسن دوآتشہ ہو کر چمکنے لگا تھا۔۔۔
“جی!!مجھے جاننا ہے کہ اِس ریاضت پر میرے لئے کیا انعام سوچا گیا ہے ۔۔۔”وہ کھلکھلائی تھی۔۔
“وہ انعام یہ ہے کہ آپ کو انتخاب کی مکمل اور غیر مشروط آزادی دی جارہی ہے “۔۔۔وہ رسیلی آواز،اس کے کانوں میں الوہی سا نغمہ چھیڑتے ہوئے گویا تھی۔۔۔
“آپ کو مکمل اختیار ہے کہ آپ اپنے شریکِ زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چن لیں ۔۔۔یا اپنی تمام دلی آرزوؤں کو پورا کرتے ہوئے اُس ساتھی کو چن لیں ،جس کے آپ نے خواب دیکھے تھے ۔۔۔تنہائی میں اسے پاس پایا تھا ۔۔اس کے حقیقت ہو جانے کی دعائیں مانگی تھیں”
نورِ جہاں ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی،کچی نیند کے گلابی ڈورے اس کی سنہری آنکھوں کو ایسا کامل حسن عطا کر رہے تھے کہ جس پر شاعروں کی ساری شاعری قربان کی جا سکتی تھی ۔۔۔وہ بستر سے اٹھ کر اپنی خوابگاہ سے باہر نکل آئی تھی ۔۔۔ہیروں سے بھی زیادہ چمک لئے اس کےسفید نورانی محل کی رعنائیاں اس کی آنکھوں کو چکا چوندکرنے لگی۔۔نرم ہاتھوں سے بیرونی دروازہ کھول کر وہ باہر نکل آئی تھی ۔۔نہایت حسین باغات اس کی نظروں کے سامنے تھے ۔۔حدِ نظر تک سدا بہار سبزہ اس کی آنکھوں کو سکون پہنچانے لگا ۔۔۔
وہ نرم روی سے چلتی ہوئی تھوڑا آگے بڑھی تو ایک مدھم رفتار میں بہتی نہر کے کنارے یاقوتی مسند پر بیٹھا ایک جوان اسے دیکھ کر مسکرایا ۔۔۔نورِ جہاں کے دل کے نہاں خانوں میں چھپی،اس کی من چاہی شکل والا وہ جوان بلاشبہ اُس کے خوابوں سے بھی زیادہ خوبصورت اور اکمل شکل میں اس کے سامنے تھا ۔۔۔دل کی بے ترتیب ہوتی دھڑکنیں اسے ہمکانےلگیں کہ آگے بڑھ کر اپنے نا آسودہ جذبوں اور سپنوں کو تکمیل کی شکل دے دے
کہ۔۔۔
اچانک ہی اسے سامنے سے اپنی زندگی کا ہم سفر آتا دکھائی دیا۔۔۔ایسے جوانِ رعنا کی صورت کہ جس پر پہلی ہی نظر ٹھہر جائے ۔۔اسے خوشگوار حیرت نے آ گھیرا۔۔اس کا شریکِ زندگی اس کے سامنے آکر رک گیا ۔۔۔
“ارے ے ے آپ کہاں تھیں بھئی؟؟کب سے تلاش کر رہا ہوں آپ کو ۔”اس کی گھمبیر آواز نے نورِ جہاں کی سماعتوں کو گدگدایا تو نور جہاں نے نظر بھر کر اسے دیکھا ۔۔گہری گہری شربتی آنکھیں وارفتگی سے نورِ جہاں کو تک رہی تھیں ۔۔۔وہ مسکرائی تھی اور ان بھنورا سی وا رفتہ نظروں سے شرما سی گئی۔۔۔یہی نظر تو اسے درکار تھی جو دل کے ہر تار کو چھیڑ کر اس کی روح تک کو سرشار کر دے۔ابھی وہ اس سرشاری کے عالم سے ابھری نہ تھی کہ وہی نرم و کومل اور رسیلی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔
“نورِ جہاں!! انتخاب آپ کی ہی صوابدید پر ہو گا ۔۔چاہے تو من چاہا ساتھی ابدی طور پر چن لیں اور چاہے تو اپنے زندگی کے ساتھ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کر لیں ۔
نور جہاں نے سامنے کھڑے اپنے شریکِ زندگی کو دیکھا تھا اور پھر دور نہر کنارے بیٹھے من چاہے ساتھی کو سوچا تھا ۔۔۔ دل کی دھڑکنوں نے ایک ہی راگ الاپا تھا۔۔انتخاب کی مکمل آزادی نے نورجہاں کی تمام نا آسودہ تمناؤں کو یوں مٹا دیا تھا کہ دل کی آواز دبانا اس کے لئے ممکن ہی نہ رہا تھا۔۔۔
وہ جان گئی تھی کہ اس کی نا آسودہ تمناؤں اور کچلے ہوئے جذبات نے ہی اس کی ریاضت کو اتنا معتبر بنایا تھا کہ اس ہمیشہ کی زندگی میں اس پر کوئی پابندی نہ تھی اور سب کچھ اس کے اپنے انتخاب پر منحصر تھا ۔۔
ریاضتوں اور صبر و توکل کے اس حسین انعام پر اس کے دل کی ساری کلفتیں دھل سی گئی تھیں ۔۔۔اس نے مسکرا کر اپنے زندگی کے ساتھی کو دیکھا تھا اور پھر اُس کے پھیلے ہوئے ہاتھ کو ۔۔۔اور پھر اس نے اپنا طلائی اور نقرئی انگوٹھیوں اور کنگن سے سجا مر مریں ہاتھ اس مضبوط ہاتھ میں دیا ہی تھا کہ دونوں اطراف سے ان کے بچے ہنستے ہوئے ان کے پاس آ کھڑے ہوئے ۔۔۔
نور جہاں کو اپنے انتخاب پر تو فخر ہوا ہی ،وہیں اپنی اولاد کی ہمراہی پر ایسا مکمل سکون ملا تھا کہ جس پر وہ دنیا و مافیھا کو قربان کر سکتی تھی۔۔۔
اس کی زندگی مکمل تھی اور اس کی تمام محنتوں اور ریاضتوں کا ثمر اس کی توقعات سے بھی بڑھ کر اسے دے دیا گیا تھا ۔۔۔۔