ٹرین ٹو پاکستان (خشونت سنگھ)
ٹرین ٹو پاکستان (خشونت سنگھ)
محسن علی خاں
ننانوے سالہ ڈرٹی اولڈ مین۔۔ نروس نائنٹی کا شکار ہوا۔ سنچری کا خواہش مند تھا، لیکن پوری نہ ہوئی۔۔۔ 20 مارچ 2014 ء کو دہلی میں تقدیر کے یارکر کو روک نہ سکا، آؤٹ ہو گیا۔ رسم و رواج کے مطابق چِتا کو آگ لگائی جانی تھی۔ لیکن اولڈ مین چاہتا تھا کہ اس کی لاش کو دفنایا جاۓ۔۔ لیکن یہ تو دھرم کے خلاف جاۓ گا، تم اپنی لاش آگ ہی لگواؤ، جو صدیوں سے چلتا آرہا، ناصح نے نصیحت کرنے کے انداز میں سمجھایا۔۔
” لیکن میں دفن ہونا چاہتا ہوں۔۔ تاکہ زمین کو وہ لوٹا دیں جو ہم نے زمین سے لیا ہے۔۔ اولڈ مین نے زمین کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔”۔۔کئی مہینے بحث چلی۔۔ بالآخر اولڈ مین کو ہار ماننی پڑی۔۔۔۔ ٹھیک ہے میری چِتا کو رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا دینا۔ لیکن میرے سینے میں دھڑکتے دل والی جگہ جب آگ میں جل کر راکھ ہو جاۓ تو یہ راکھ میرے گاؤں ” ہڈالی ” لے جانا۔۔ جہاں راکھ سِرکنی شروع ہو وہیں مٹی کھرچ کر میری راکھ دفنا دینا۔۔ کیونکہ میرا دل پہلی بار وہیں دھڑکا تھا۔۔۔۔
بوڑھا ننانوے سال کی عمر میں بھی شراب کے نشے میں دُھت ہو کر بہکی باتیں کر رہا ہے۔۔۔ کہتا ہے دشمن ملک پاکستان کے خوشاب کے علاقہ میں جو گاؤں ہڈالی ہے وہاں میری راکھ لے جانا۔۔۔۔ سٹھیا گیا ہے مر کر ہی چین پاۓ گا۔۔ ایک دھیمی آواز آئی۔
خشونت سنگھ۔۔۔مصنف، کالم نگار، ناول نگار، افسانہ نگار، تنقید نگار، قانون دان، تاریخ دان، سیاست دان، ایک خوبصورت انسان۔۔80 کتابوں کو اپنے قلم سے نوازا۔ ان میں سے ایک ناول ” ٹرین ٹو پاکستان “۔۔ 1947ء کی تقسیم کا ایک پہلو۔۔ خون کی دھاریوں سے بُنا ہوا۔ دونوں اطراف کے جذبات کا احاطہ کئے ہوۓ۔ تقسیم کے وقت خشونت سنگھ کی عمر 32 سال تھی۔ اس طوفان میں خشونت سنگھ نے آنکھیں بند نہیں کیں۔ اپنی آنکھوں سے خونی جھکڑ چلتے دیکھے۔ پھر ان زرد ہواؤں کا تذکرہ اپنے اس ناول میں کیا۔
” میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم نے کرنا کیا ہے۔“ لڑکے نے اپنے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر کہا:
اگر تم میں حوصلہ ہے تو کل ایک مسلمانوں سے بھری ہوئی گاڑی پاکستان جانے کے لیے پُل پر سے گزرے گی۔ اگر تم مرد ہو تو اس گاڑی میں بھی اتنی لاشیں پاکستان بھجواؤ، جتنی تم نے اس طرف سے آتی دیکھی ہیں۔ ”
کیا یہ ٹرین پاکستان پہنچ پائی؟ کتنے مسافر تھے، کیا بیتی؟ کیا ٹرین کی پٹری سرخ ہوئی؟
آپ کو ایک مسافر بن کر اس ٹرین میں سوار ہونا پڑے گا۔ ناول کے اختتام پر آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ آخری بچ جانے والے مسافر تھے یا کسی نیزے کی نوک پر اپنا سر چڑھا کر، ٹرین کو جاتا دیکھ رہے تھے۔