پاکستانی کامیڈی کا آخری ایکٹ ۔عمر شریف
پاکستانی کامیڈی کا آخری ایکٹ ۔عمر شریف
مرزا صہیب اکرام
پہلے چراغ کا دھواں ساغر ابھی ہوا میں تھا
اک اور چراغ بجھ گیا میری نظر کے سامنے
ظرافت ہنسی مذاق قہقہوں کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے یہ وہ زبان ہے جو بِلا رنگ و نسل اور تفریق کے غریب کی کٹیا اور امیر کے محل دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔برصغیر انڈوپاک کے افق پر چند افراد ایسے آئے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں اداس چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں۔غموں اداسیوں پریشانیوں اور مایوسیوں سے اَٹی اس دنیا میں وہ لوگ اپنے فن کی بدولت لوگوں کو تسکین پہنچاتے رہے۔
ہندی فلموں کے پہلے کامیڈی کنگ محمود سے لے کر جگدیپ تک اور جانی واکر سے لے کر جونی لیور تک ایک طویل سلسلہ ان عظیم فنکاروں کا ہے جنہوں نے اپنے فن سے دیکھنے والوں کے لاکھوں پل یادگار بنا دئیے۔
اسی طرح پاکستانی فلم انڈسڑی کے افق پر منور ظریف کو شہنشاہ ظرافت کا خطاب دیا اور پھر ان کے بعد ننھا ،لہری رنگیلا جیسے بے مثال اداکاروں نے خوشیوں کا ایک نگر آباد کیے رکھا۔
اور اسٹینڈ اپ کامیڈی کی بات کی جائے تو اس شعبہ میں امان اللہ ، ببو ببرال , مستانہ،البیلا جیسے عظیم فنکاروں نے اس روایت کو اپنے اپنے انداز میں برقرار رکھا اور آگے بڑھایا ۔
لیکن دو فنکار ایسے تھے جو اردو مزاح نگاری کے حوالے سے کراچی اسٹیج سے اٹھے اور اس کے بعد ان کا نام پوری دنیا میں اردو بولنے اور سننے والوں تک جا پہنچا۔
پہلا معتبر حوالہ معین اختر مرحوم اور دوسرا عظیم نام عمر شریف کا نام تھا۔
فنکاروں کے ساتھ بے حسی ہماری روایات میں شامل ہے ہم ہمیشہ سے ہیرو کُش قوم رہے ہیں۔ہم نے ایسے ایسے ہیروں کو گنوایا ہے جن کا نعم البدل کبھی نہیں آئے گا۔یہ لوگ ہنسی مذاق شگفتگی اور تازگی کی ایسی معطر ہوائیں تھے جنہوں نے اپنے فن سے صرف اپنے ملکوں میں نہیں بلکہ دنیا جہان میں ہر جگہ خوشبوئیں پیدا کیں۔
یہ فن کے اتنے اونچے بُرج تھے جہاں پر کوئی بعد والا نہیں جا سکتا گا بلکہ وہاں تک جانے کا خواب بھی اب خواب رہے گا۔یہ لوگ اپنی اپنی فیلیڈ اور اپنے اپنے ماحول میں سب سے قد آور لوگ تھے۔ایک ایک کر کے چراغ بجھنے لگے ہیں ظالم اور سنگ دل ہواؤں کو یاد نہیں کہ ان کو کبھی یہ لوگ معطر کیا کرتے تھے۔اندھیروں میں انہی کے دم قدم سے اجالے ہوا کرتے تھے۔
یہ کیا دست اجل کو کام سونپا ہے مشیت نے
چمن سے توڑنا پھول اور ویرانے میں رکھ دینا
افسوس صد افسوس عمر شریف بھی ہم سے اسی طرح جدا ہوئے جیسے ہمارے اکثر ہیروز ہوا کرتے تھے۔ان کی برے حال میں حکومتوں سے التجائیہ ویڈیوز پھر ان پر پروگرام اور سوشل میڈیا پر ان کے حق میں آوازوں کا اٹھنا اور بلاخر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کا جاگنا ۔ یہ سب وہی ہے جو مدت سے ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔عمر شریف نے اپنی زندگی فن کے نام کی وہ اسٹیج کے بے تاج بادشاہ بنے۔ان جیسی حاضر دماغ لہجے پر عبور اور تازگی بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔دنیا کو چارلی چیپلن اور مسٹر بین یاد ہیں لیکن افسوس ہم نے اپنے عظیم ترین اداکار ان کو زندگیوں میں ہی بھلا دئیے تھے۔
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا بڑی سعادت کی بات ہوتی ہے اور عمر شریف وہ انسان ہیں جنھوں نے چالیس سال سے زائد عرصہ تک لوگوں میں اتنے قہقوں کو دوام بخشا کہ برصغیر کے کامیڈی کنگ کہلائے جانے لگے۔
عمر شریف 19 اپریل 1960 کو لیاقت آباد کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد عمر تھا۔ابھی کم سن ہی تھے جب والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔اس کے بعد زندگی کا ایک مشکل مرحلہ شروع ہوا اور ان کو اس دور میں کافی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیاقت آباد میں اس وقت مختلف قوالوں کے گھر تھے۔قوالوں کی نقل کرنے سے ان کے شوق کو جلا ملی اور اوائل عمری میں ہی محلہ کے لوگوں سے لے کر فلمی اداکاروں کی نقالی کرنے لگے۔وہ بذلہ سنج اور ہنسنے ہنسانے والے انسان ہونے کی وجہ اپنے علاقہ میں شروع سے مقبول تھے۔
عمر شریف نے 14 سال کی عمر سے اسٹیج پر کیرئر کا آغاز کیا۔کسی آرٹسٹ کو ایمرجنسی درپیش آنے کی صورت میں عمر شریف کو اتفاقا اسٹیج پر جانے کا موقع ملا اور انہوں نے پہلی اینٹری ہی ایسی شاندار دی کہ شو کے آخری دن پانچ ہزار روپے ملے۔یہ ایک عظیم فنکار کے ایسے سفر کا آغاز تھا جس نے آگے چل کر دہائیوں تک مزاح کی دنیا میں ہر ایک کو اپنا اثیر بنائے رکھا۔
عمر شریف اپنے کیرئیر کی ابتداء میں شہنشاہ ظرافت منور ظریف کے بڑے مداح ہوا کرتے تھے اس لئے ابتدائی دنوں میں اپنا نام عمر ظریف رکھا تھا۔ بعد میں لارنس آف عربیہ سے متاثر ہو نام عمر شریف رکھ لیا۔
عمر شریف نے تین شادیاں کی پہلی شادی دیبا عمر سے اور دوسری شکیلہ قریشی سے جو زیادہ عرصہ نہیں چل سکی ۔ان کی تیسری بیوی زریں غزل تھیں جو خود بھی اسٹیج اداکارہ ہیں۔
عمر شریف کافی عرصہ مختلف عارضوں کا شکار رہے لیکن جواں سال بیٹی حرا کی موت نے انھیں بالکل توڑ دیا۔ستمبر کے مہینہ میں ان کی سخت علالت کی خبر کے بعد حکومت نے ان کے لیے امریکی ویزہ کے ساتھ چار کروڑ روپے کی امداد بھی دی اور انھیں ائیر ایمبولینس کے ذریعہ امریکہ بھیجا جارہا تھا جب راستے میں جرمنی کے عارضی قیام کے دوران 2 اکتوبر 2021 کو فن کا چمکتا سورج اپنے مداحوں کو سوگوار کر گیا۔
عمر شریف کے فنی سفر کی بات کی جائے تو انہوں نے اپنی زندگی کے پہلے حادثاتی پلے سے جو عزت شہرت اور کامیابی کا ہما اپنے پر سجایا وہ اس کے بعد کبھی زوال پذیر نہیں ہوا۔
عمر شریف نے پاکستانی اسٹیج کو ایک نیا رنگ دیا۔پاکستانی اسٹیج ڈرامہ کو کراچی میں اس انداز میں سینچا کہ فیملیز ان کا ڈرامہ دھڑا دھڑ دیکھنے آنے لگیں۔وہ ڈرامے جو ایک وقت میں فیملی کے ساتھ دیکھنا شجر ممنوعہ قرار پا رہے تھے ان کو دوبارہ دیکھنے کے قابل بنایا۔اس کے بعد پہلی بار اسٹیج ڈرامہ کو ریکارڈ کرکے اس کو فلمی کیسٹوں کی طرح شہر شہر پہنچایا۔۔
” یس سر عید نو سر عید ” اسٹیج کا پہلا ڈرامہ تھا جو ریکارڈ ہوا اور گھر گھر پہنچا ۔۔لیکن وہ ڈرامہ جس نے عمر شریف کو برصغیر میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا وہ 1989 میں آنے والا ” بکرا قسطوں پر ” تھا۔جس کے ڈائلاگ آج بھی زبانِ زد عام ہیں ۔
ان ڈراموں میں عمر شریف نے صرف اداکاری ہی نہیں کی بلکہ ان کی اسکرپٹ رائٹنگ ،مکالمے اور ہدایت کاری بھی خود دی۔
اس ڈرامہ سے متعلق ایک انٹریو میں انھوں نے بتایا تھا کہ پہلے سے پلان شدہ ڈرامہ کے سنسر ہوجانے کی وجہ راتوں رات یہ ڈرامہ لکھا گیا اور اس کے کئی ڈائلاگ فی البدیہہ کہے گئے عمر شریف نے اپنے اسٹاف کو سمجھایا تھا کہ اگر سین کی تیاری یا دورانِ سین اداکاروں کو کوئی مسئلہ ہو تو فون کی گھنٹی بجا دیں باقی کے ڈائلاگ وہ خود کہ لیں گے ۔۔
عمر شریف نے کل 70 ڈرامہ کئے جن میں اداکاری کے علاؤہ اسکرپٹ اور ہدایت کاری بھی کی ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ مسٹر چارلی ،چاند بابو اور مسٹر 420 جیسی مشہور فلمیں بھی پروڈیوس کی اور بہروپیا ،لاٹ صاحب کندن وغیرہ فلموں میں ادکاری کے جوہر دکھائے ۔
ان مختلف ڈراموں اور فلموں میں 400 سے زائد بہروپ بھر کر دیکھنے والوں کو کچھ پلوں کے لیے ان کی مشکلوں اور پریشانیوں سے بے نیاز کیا اور الگ الگ لب و لہجہ سے کرداروں کو ایک نیا رنگ دیا۔
عمر شریف کے ساتھی اداکاروں کے مطابق ان کے ڈراموں کی کامیابی میں ڈائلاگ کے ساتھ ان کی زبردست ٹائمنگ ، بذلہ سنجی ، حاضر دماغی اور لہجہ کا بہت بڑا ہاتھ تھا ۔
عمر شریف کے ڈراموں نے ٹی وی اور اسٹیج کے بے شمار آرٹسٹوں کے کیریئر کو نئی زندگی دی ۔۔شہزاد رضا، لطیف کپاڈیا، شکیل صدیقی ، اختر شیرانی ، سلمی ظفر ، نعیمہ گرج ، زیبا شہناز ، لہری ، آفتاب عالم ، حنیف راجہ ، خالد عباس سمیت ایک طویل فہرست ان اداکاروں کی ہے جو عمر شریف کے ڈراموں سے لوگوں کے ذہن میں محفوظ رہے۔
اس کے علاؤہ معین اختر اور وسیم عباس ، جمشید انصاری جیسے سینئر اور بڑے نام بھی ایک دور میں عمر شریف کے ڈراموں کا حصہ بنے ۔۔معین اختر کے ساتھ “بکرا قسطوں پہ” اور “بڈھا گھر ہر ہے” عمر شریف کے ٹاپ ڈراموں میں شمار ہوتے ہیں۔
2009 میں جیو ٹی وی پر “عمر شریف شو ” ان کی ایک اور کامیاںی تھی۔
کامیابیاں شہرت اور اعزازات نے عمر بھر جس انسان کا پیچھا کیا وہ بلاشبہ عمر شریف تھے۔ان کی عزت کامیابی کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ صف اول کے فنکاروں کی فہرست کا حصہ بنے اور اس کے ساتھ ساتھ بے شمار ایوارڈز اپنے نام کیے۔
عمر شریف کو 1992 میں ان کی مشہورِ زمانہ فلم ” مسٹر 420 ” کے لئے دو نیشنل ایوارڈ ملے تھے۔اس کے علاؤہ انہوں نے 10 نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے اور انھیں حکومت نے تمغہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔
عمر شریف برصغیر کا ایسا نام تھے جنھیں بولی ووڈ کے بڑے بڑے اسٹارز بھی شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ اور کئی بڑے کامیڈین انھیں اپنا استاد مانتے تھے۔عمر شریف نے زندگی کے 61 سالوں میں سے 45 سال اپنے شوق کو دئیے وہ سراپہ ظرافت انسان تھے۔ان کی زبان کے نشتر سے کبھی کوئی محفوظ نہیں رہا لیکن ان کے گفتگو میں چھپا طنز و مزاح کبھی بھی عامیانہ نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ اپنی زبان و بیان پر بھی گرفت کی ہمیشہ کوشش کرتے رہے ۔
اپنی زندگی میں دو بار اپنی موت کی خبر سن کر وہ ضرور مسکرائے ہوں گے کہ جس قوم کو 4 دہائیوں تک مسحور کیے رکھا اسی نے ان کی زندگی اور موت کو بریکنگ نیوز کا حصہ بنا دیا گیا۔
فن مزاح کا معتبر ترین حوالہ مزاح اور ظرافت کو یتیم کر گیا۔معین اختر اور امان اللہ کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا تھا عمر شریف کی موت نے اسے اتنا بڑھا دیا کہ اس کے پُر ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔لفظوں کا جادوگر، تاثرات کا بادشاہ ، ظرافت کا شہنشاہ ہنسی مسکراہٹ اور قہقہوں کو اداس کر گیا۔
عمر شریف کی رحلت سے کراچی کا تھیٹر تو اجڑ گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ برصغیر میں مزاح کا اس عہد کا سب سے بڑا حوالہ خاموش ہو گیا۔
عمر شریف نے طویل عرصہ تک لاکھوں کروڑوں انسانوں کو ہنسا سکھایا۔اپنے سینئیرز کو اپنا گرو مانا اور جونیرز کو اولاد سمجھا۔
بھاگتی دوڑتی زندگی ، زمانے کی رفتار ، مسائل اور پریشانیوں کی اس آماجگاہ میں جہاں ہر جانب صرف رلانے والے بکھرے رہتے ہیں اس کے مقابل اپنی زبان و بیان سے چہروں پر تبسم لانے والے فنکار قدرت کے تحفے ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی بلکہ محبت خود ایک زبان ہے جو تمام زبانوں سے بلند اس مکمل ہوتی ہے اس طرح خوشیاں بانٹنے والے انسانوں کا کوئی ایک شہر نہیں ہوتا۔یہ دھرتی کے وہ سپوت ہوتے ہیں جو ٹھگوں کی دنیا میں جہاں رشتے بھی تجارت ہوتے ہیں وہاں پر غمزدہ چہروں سے آنسؤں کی چادر پھاڑ کر ہنسی کر فوارے لاتے ہیں۔
عمر شریف موتیوں کی لڑی کے اس آخری دانے کا نام ہے جس کے بعد کوئی عمر شریف نہیں آئے گا۔ہنستے ہنساتے فنکاروں کا یوں چلے جانا غم کی انتہا ہے۔۔ لیکن سبق یہی ہے کہ ایسے لوگ جو زندگیوں میں خوشیوں کے رنگ پیدا کرتے رہے ہیں یہ ہمیشہ اپنے فن اپنی آواز اور اپنی مسکراہٹوں کے ساتھ چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔