افسانہ ہجر و وصال از مولانا آزاد
افسانہ ہجر و وصال
مولانا ابوالکلام آزاد
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی نیند اگر موت کی نیند نہ ہو تو کبھی نہ کبھی ضرور ختم ہو جاتی ہے اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ سونے والا کبھی نہ جاگے۔ پھر بعضوں کی نیند ایسی ہوتی ہے کہ اک ذرا سی آواز ان کو جگا دینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ بعض کی ان سے سخت ہوتی ہے تو ان کے لیے چیخنے اور شور مچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض ان سے بھی زیادہ غفلت کی نیند سونے والے ہوتے ہیں تو ان کو جھنجھوڑنے اور ہلانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر سونے والے کے جاگ اٹھنے کے لیے یہ بھی بیکار ہو تو پھر ایسا تو کبھی بھی نہیں ہو سکتا کہ بھونچال آجاۓ، آتش فشاں پہاڑ پھٹ اٹھیں پہاڑوں کے ٹکرانے کے دھماکوں سے کان کے پردے ریزہ ریزہ ہو جائیں اور پھر بھی نیند کے متوالے آنکھیں نہ کھولیں۔
سو یقین کرو کہ خدا کا بھی اپنے بندوں کے ساتھ ایسا ہی حال ہے۔ اس کی صدائیں اٹھتی ہیں تاکہ غفلت کے سرشار آنکھیں کھولیں۔ اگر اس پر بھی وہ کروٹ نہیں بدلتے، تو ہر طرف شوروغل مچنے لگتا ہے تاکہ سونے والوں کی نیند ٹوٹے۔ اگر اس پر بھی نیند نہیں ٹوٹتی تو ہاتھ نمودار ہوتے ہیں اور جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اٹھاتے ہیں کہ صبح آگئی اور آفتاب کی کرنیں دیواروں سے اتر کر صحنوں اور میدانوں میں پھیل گئیں۔ اب بھی اٹھ جاؤ اور اب بھی اس دن کو اپنے ہاتھ سے نہ کھو دو جو جاکر پھر واپس نہیں آئے گا لیکن آہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس جھنجھوڑنے پر بھی آنکھیں نہیں کھلتیں ۔۔
نیند کے متوالے کروٹ نہیں بدلتے تو پھر دھماکے ہوتے ہیں، زلزلے آتے ہیں۔ زمینیں پھٹنے لگتی ہیں اور صداؤں اور آوازوں کی ہولناکیوں سے تمام دنیا بھر جاتی ہے۔ سو یہ بھی سب کچھ اس لیے ہوتا ہے تاکہ کسی طرح انسان جاگے اور اب بھی آنکھیں کھول اور اس پر بھی آنکھیں نہیں کھلتیں تو پھر خدا کا فرشتہ پکار اٹھتا ہے کہ
”یہ زندوں کی آبادی نہیں بلکہ مردوں کی بستی ہے۔ وہ
اٹھنے اور اٹھائے جانے کی گھڑی سے بالکل غافل پڑے ہیں“۔
پس تنبیہہ اور ہوشیاری کی تمام تدبیریں ہو چکیں اور ایک سوۓ ہوۓ کو جگانے کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہ سب کچھ کیا جا چکا پر افسوس کہ تمہاری آنکھیں بند ہیں، تمہاری غفلت کا نشہ کسی طرح نہیں اترتا اور تمہاری موت کی نیند کسی طرح بھی نہیں ٹوٹتی، دنیا میں انسان کے لیے عقل و بصیرت ہے، عقلاء کی دانائیاں ہیں ، ہادیوں کی ہدایتیں ہیں واعظوں کے وعظ ہیں، خدا کے مقدس فرشتے ہیں اور رسولوں کی بتلائی ہوئی تعلیمات ہیں، پھر حوادث و تغیرات ہیں، انقلابات و تبدلات ہیں، آثار و علائم ہیں۔
استنباط و استشہاد ہے، لیکن آہ وہ قوم جس کی غفلت کے لیے یہ سب کچھ بیکار ہے نہ دنیا کے گذرے ہوئے واقعات میں اس کے لیے کوئی اثر ہے۔ نہ حال کے حوادث و تغیرات میں اسکے لیے کوئی پیغام ہے نہ اللہ کے کلام سے ڈرتی اور کانپتی ہے۔ اور نہ بندوں کی ہدایتوں سے عبرت پکڑتی ہے۔۔
”اللہ کی نشانیوں میں کوئی نشانی بھی ایسی نہ آئی جس کو دیکھ کر انہوں نے عبرت پکڑی ہو اور غفلت و سرکشی سے باز آگئے ہوں بلکہ بساوقات ایسا نظر آتا ہے کہ جس قدر عبرت کی صدائیں جگانا چاہتی ہیں اتنی ہی اس کی نیند زیادہ گہری ہوتی جاتی ہے۔۔