جب برسے بارش آنکھوں سے

جب برسے بارش آنکھوں سے ”
حمیرا ثاقب

غزہ میں ہوتی صہیونی بربریت نے جب سے زور پکڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ غزہ کے رہائشیوں نے بڑی بڑی اذیت ناک راتیں دیکھیں تھیں اور درد کی رات میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ زلف محبوب کی طرح دراز ہوتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔۔

مگر آج کی رات ان سب سے بڑھ کر قیامت خیز تھی ۔۔۔۔۔ پچھلے کچھ دنوں سے سردی بڑھ گئی تھی۔۔ سمندر کی طرف سے چلتی برفیلی ہواؤں نے انیسہ کے جسم پر کپکپی طاری کی تو اس نے پانچ سالہ سعد اور سات سالہ ضحی کو کل امداد میں ملنے والے جیکٹس کے ہڈ بھی سروں پر اوڑھا دیئے ۔۔۔۔۔
” جو ملے الحمدللہ” کے تحت دودھ بریڈ بچوں کو کھلا کر لٹا دیا تھا اور خود اپنے خیمے کی درزیں جوڑ جوڑ کر ان میں سے آتی کٹیلی ٹھنڈک کو روکنے لگی تھی ۔۔۔
موٹے کمبلوں کو زیادہ حرارت خیز بنانے کے لئے اس نے آدھا کمبل بچوں کے نیچے بچھایا تھا اور باقی آدھے سے ان کو مکمل طور پر ڈھانپ دیا تھا ۔۔۔۔۔ گو کہ یہ تمام انتظامات خیمے میں ہونے کی وجہ سے ناکافی تھے مگر پھر بھی اس کی ممتا نے حتی المقدور اپنے بچوں کو موسم کی سختی سے بچانے کی سعی کی تھی۔۔۔۔۔

بچے سو چکے تھے۔۔۔۔۔ انیسہ نے اپنے حجاب کو اچھی طرح لپیٹ کر کمبل کو اردگرد کسا تھا اور آنکھیں بند کر لیں تھیں ۔۔۔۔۔
اپنے رب کے لئے جیتے اور اس کے دین کے نام پر روز مرتے ان عظیم انسانوں پر نیند جلد مہربان ہو جایا کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چہرے پر ٹپ ٹپ پڑتی ان بوندوں نے انیسہ کو ہڑبڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا تھا۔

اللّٰہ اکبر۔۔۔۔۔ اللّٰہ اکبر

جس زمانے میں ساری دنیا گلوبل وارمنگ کے راگ الاپ رہی تھی ۔۔۔۔۔ اور بارشیں اپنے من چاہے ماحول سے روٹھ روٹھ جا رہی تھیں۔۔۔۔۔ انہی دنوں غزہ میں رحمت الہی کا جوش میں آنا اہل غزہ کی ایسی سخت آزمائش تھی جس نے شہادتیں پا پا کر جانے والوں کا دکھ بھی ہلکا کروا لیا تھا ۔۔۔۔۔
پھٹی ادھڑی مٹیالی زمین پر لگے نامناسب سے خیمے کہاں موسم کی شدت سے لڑ سکتے تھے۔۔۔۔

انیسہ کے چہرے پر خیمے کے درز میں سے برستی بوندیں اب تیز سے تیز تر ہو رہی تھیں۔۔۔۔ باہر سے آتی گرج چمک اور طوفان کی مہیب آوازیں بتا رہی تھی کہ بارش قیامت خیز ہونے والی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ابھی صرف دو ہفتے ہی تو ہوئے تھے جب انیسہ کا رہائشی علاقہ صیہونی حملے کا شکار ہوا تھا اور اس کا دو کمروں کا فلیٹ ملیا میٹ ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔اس حملے میں انیسہ کا شوہر ناصر بھی شہید ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔

عدت کے پر آزمائش دنوں میں یہ بارش آزمائشوں کے طوفان کی صورت اتری تھی اور “اب کیا ہوگا ” کی سوچ کے آگے بڑا سا تالا انیسہ کو مزید سہما رہا تھا۔۔۔۔۔۔

گزرے چند دنوں میں ادھر ادھر کی بھاگ دوڑ اور موسم کی شدتوں سے لڑتے معصوم بچے نیند کی وادیوں میں یوں کھوئے ہوئے تھے کہ برستی بارش بھی ان کی نیند کو نہ توڑ سکی اور وہ ہنوز سو رہے تھے۔۔۔۔۔۔انیسہ کی برستی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے خیمے کا فرش بارش کے پانی کے ساتھ مل کر کیچڑ میں تبدیل ہو گیا اور انیسہ کچھ بھی نہ کر سکی۔۔۔۔۔۔۔ برستی بارش کے حالات معلوم کرنے کے لیے وہ خیمے کے دروازے پر جا کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔۔ بجلی سے محروم علاقہ کڑکتی بجلیوں اور بارش کی شدت میں اتنا خوفناک منظر پیش کر رہا تھا کہ وہ چند فٹ کا خیمہ اسے ایک جائے پناہ محسوس ہوا۔۔۔۔۔
بارش لگاتار برستی رہی ۔۔۔۔ انیسہ کی آنکھیں بھی ساتھ ساتھ برستی رہیں اور بچے بے خبر سوتے رہے ۔۔۔۔۔

کیا نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے ۔۔۔۔اکڑے سرد جسم کے ساتھ انیسہ نے سوچا تھا اور پٹ سے اس کی انکھ کھل گئی تھی۔۔۔۔۔ صبح ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔اور بارش رک گئی تھی۔۔۔۔۔۔ باہر سے کبھی رونے کی آواز آتی تو کبھی گھسیٹنے کی ۔۔۔۔انیسہ نے اٹھ کر خیمہ ہٹا دیا اور رسی تلاش کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔جس پر تمام گیلے کپڑے ڈال کر نچوڑ سکے۔۔۔۔۔۔دونوں بچے سردی سے کانپ رہے تھے ۔۔۔۔۔اس نے ان کی جیکٹ اور اوپری موئے کپڑے اتار دیے اور کوئی نہ کوئی حیلہ وسیلہ کر کے ان کو سوکھنے کے لیے ڈال دیا مگر بچے تو اب بھی گیلے کپڑوں میں ہی تھے۔۔۔۔۔ ان کو خشک کپڑے فراہم کرنا بہت ضروری تھا۔۔۔۔۔۔ اس نے پاس سے گزرتی آئمہ سے پوچھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
” کیا کہیں سے سوکھے گرم کپڑے مل سکیں گے “؟؟؟ اس کے لہجے کی کپکپاہٹ نے آئمہ کو مزید دلگیر کر دیا تھا۔۔۔۔۔ ” آؤ _! میں بھی اسی تلاش میں ہوں۔۔۔۔ ابو علی کہہ کر گئے ہیں کہ مصر کی طرف سے کچھ امداد آئی ہے۔۔۔۔۔ مگر سامان کہاں ملے گا یہ معلوم نہیں”۔۔۔۔۔۔

بصد مشکل وہ اپنے اور بچوں کے لیے چند کپڑے حاصل کر پائی اور ایک مسکراتے چہرے والے نوجوان نے اسے دو مالٹے پکڑاتے ہوئے کہا ” یہ آپ کی جنت کے پھولوں کے لیے ” ان کے دادا کے مثل ایک مصری چچا کی طرف سے۔۔۔۔۔

یہ مالٹے انیسہ کے چہرے پر مسکراہٹ لے آئے اور اسے یاد آیاکہ کتنے ہی دن گزرے اس نے اور اس کے بچوں نے پھل چکھاتک نہیں ۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے خیمے تک جا پہنچی تو اس نے دیکھا ایک آدمی اس کی سردی سے کانپتی بیٹی سے پوچھ رہا تھا کہ “اتنے باریک کپڑوں میں اسے سردی نہیں لگتی
” لگ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ ضحی نے سسکی بھری تھی ۔۔۔۔۔
” جب بھی سردی زیادہ لگتی ہے میں بابا کو یاد کر لیتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔”

اتنا کہہ کر وہ ہچکیاں لے کر رونے لگی اور اس کے تاثرات جانتا وہ کیمرہ بردار شخص بھی آبدیدہ ہو گیا ۔۔۔۔۔۔
“امی گئی ہیں ہمارے لیے گرم کپڑے لینے۔۔۔۔۔ لیکن ہم کبھی نہیں بھولیں گے یہ سب جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔۔۔۔۔” سات سالہ ضحی فصیح عربی میں بولتی بالکل اپنے باپ جیسی لگی۔۔۔۔۔
” میں اپنے اللہ اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کروں گی کہ ہم بچوں پر اتنے ظلم ہوئے اور ہمارے مسلمان بہن بھائی اپنے گھروں میں آرام کرتےرہے۔۔۔۔۔۔ ہچکیوں بھری گریہ زاری اتنی تکلیف دہ تھی کہ وہ شخص وہاں سے ہٹ گیا اور انیسہ نے روتے روتے ضحی کو اپنے ساتھ چپکا لیا۔۔۔۔۔۔۔
آئمہ نے انیسہ سے کہا کہ اج کی رات تو ان خیموں میں نہ گزاری جا سکے گی کیونکہ نیچے مٹیالافرش کیچڑمیں تبدیل ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔

” ابو علی کے دوست کا ایک پولٹری فارم ہے۔۔۔۔ وہاں پر کچھ سوکھی جگہ ہے کیونکہ چھت پکی ہے اس کی ۔۔۔۔۔آج کی رات وہاں گزار لیتے ہیں۔۔۔۔”
انیسہ نے سعد کو کپڑے پہناتے ہوئے مڑ کر آئمہ کو دیکھا اور عجیب سے انداز میں مسکرا دی۔۔۔۔۔۔۔ ” شکریہ آئمہ ! جب جانے لگو تو مجھے بھی ساتھ لے جانا۔۔۔۔۔۔۔ ”
دونوں بچے جو امن کے زمانے میں خوب خوب جھگڑا کرتے تھے آج بڑی شرافت سے بیٹھے مل بانٹ کر وہ مالٹے کھا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ دونوں نے کچھ پھانکیں ماں کو بھی دیں ۔۔۔۔۔۔۔
نہ جانے کیوں انیسہ ان کو کھاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔۔۔
شام ڈھلے وہ لوگ چھوٹا سا قافلہ بنا کر پولٹری فارم جا پہنچے ۔۔۔۔۔ جنگی حالات کے سبب پولٹری فارمنگ تو بند ہو چکی تھی مگر مرغیوں کی بیٹوں اور ان کی بدبو سے بھرا یہ پولٹری فارم انسانوں کے رہنے کے لائق تو ہرگز نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔
دو تین گھنٹے کی محنت کے بعد خواتین نے اس جگہ کو رات گزارنے کے قابل کر لیا تھا۔۔۔۔۔
ابو علی بصد کوشش بھی ان کے لیے کچھ کھانے کا انتظام نہ کر پایا تھا۔۔۔۔ سو جب بھوکے بچے مرغیوں کے خانوں پہ ادھ سوکھے کمبل اوڑھ کر سو گئے تو مائیں کچھ پرسکون ہو گئی تھیں۔۔۔۔۔۔اچانک انیسہ کو کھچ کھچ کی آواز آئی تو اس نے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔وہی صبح والا شخص سوئےہوئے بچوں کی تصویریں لے رہا تھا۔۔۔۔۔ انیسہ کے صبر کا پیمانہ چھلکا تھا اور اس نے تیز آواز میں کہا ” کن کے لیے تصویریں بنا رہے ہو۔۔۔۔ ہماری بے بسی کا تماشہ دیکھ کر اسے نظر انداز کرنے والوں کے لیے۔۔۔۔۔؟؟ تم ان کو تصویر دکھا بھی دو گے تو اس سب سے ہمیں کیا ملنے والا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟ وہ مسلمان جن کی غیرت مسجد اقصی کے لیے نہ جاگی ان کو ہمارے مرغی فارم میں سوئے بچوں کی بے بسی سے کیا لینا دینا ؟؟۔ جونہی انیسہ کی آنکھیں چھلکیں۔۔۔۔ ساتھ ہی باہر سے بادل گرجنے اور بوچھاڑ کی مانند بارش گرنے کی آوازیں آنے لگی ۔۔۔۔۔۔
یہ وہ بارش تھی جو غزہ میں روز برس رہی تھی اور غزہ کی رہائشوں کی آنکھوں سے جو لہورنگ بارشیں برس رہی تھیں۔۔۔۔ وہ اصل میں ساری دنیا کے طول و عرض میں پھیلے مسلمانوں کی بے حمیتی اور بے غیرتی کا ماتم تھیں۔۔۔۔۔۔
” ہم جان پر کھیل کر یہ تصویر کشی کر رہے ہیں شاید سوئے ضمیروں کو بیدار کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔۔۔۔۔۔”

پر نور چہرے والا وہ فوٹوگرافر یقینا کوئی پروفیشنل نہیں تھا بلکہ اس کا درد دل اسے غزہ کھینچ لایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
انیسہ نے اپنے آنسو پونچھے تھے اور گلوگیر آواز میں بولی تھی۔۔۔۔
“ہمارا پیغام دے دیں سب مسلمانوں کو اور سارے انسانوں کو –ہم اس بے حسی کو کبھی نہیں بھولیں گے۔۔۔۔۔ دیکھیے گا ہم روز محشر جب سوال کریں گے تو کسی کے پاس جواب نہ ہوگا ۔۔۔۔۔ہم پر ہونے والے ظلم کا۔۔۔۔۔۔ ”

باہر بارش گرج گرج کر برس رہی تھی اور پولٹری فارم کے اندر آنکھیں بارش برسا رہی تھی۔۔۔۔۔