جب یاد کا آ نگن کھولوں تو
جب یاد کا آ نگن کھولوں تو
عندلیب زہرا
جب یاد کا آ نگن کھولوں تو کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں۔۔
یہ شعر کسی نے میرے دل کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے۔۔۔
ہر گزرتا دن،لمحے ،پل ہمارے دامن میں کچھ نہ کچھ دان کرتے ہیں۔کبھی آنسو،کبھی مسکراہٹ،کبھی آنکھوں میں نمی اور کبھی محبت کی چمک۔۔۔۔گزرا وقت ایک ڈائری ہے جس پر ہم کچھ نہ کچھ رقم کرتے رہتے ہیں۔دو ہزار تئیس میرے لیے بڑا مختلف سا سال تھا۔۔۔۔۔کچھ رشتے اپنی اصلیت کیساتھ سامنے آ گئے اور کچھ نئے رشتے بہت محبت نرمی اور عزت کیساتھ زندگی کا حصہ بن گئے۔
کہیں ٹھوکر لگی تو کہیں سنبھل گئے۔۔۔یہ سال میرے سے وابستہ رشتوں کے لیے خوشی لیکر آیا۔اور میری عادت ہے کہ میں خود سے وابستہ رشتوں کی خوشی پر خوش ہوتی ہوں،ان کی کامیابی کو اپنا فخر سمجھ کر مسکراتی ہوں اور جب وہ آنسو بہانے کے لیے کسی کندھے پر سر رکھنا چاہتے ہیں تو اپنا کندھا محبت کیساتھ پیش کرتی ہوں اس بھروسہ کیساتھ کہ جو آنسو میرے سامنے بہائے گئے ہیں وہ میرے اندر دفن ہو گئے ہیں۔۔۔۔
یہ سال میری بہت سی دعاؤں کی قبولیت کا سال تھا بہت سی گرہیں کھل گئیں۔۔۔۔
اس سال ۔میں نے نئے جہان تلاش کیے۔ان پلیٹ فارم پر اپنے ہنر کو پیش کیا۔مثبت بات یہ رہی کہ مجھے زندگی نے مثبت ردعمل دیا خواہ اس کی صورت کوئی بھی ہو۔
کہیں منفی رویے دل شکنی کا سبب بنے تو کہیں چھوٹی سی بات نے حوصلہ بھی دیا۔۔۔میں نے ایک ادبی گروپ میں خط نویسی کے مقابلے میں حصہ لیا اور ایک خوبصورت انعام ملا ۔۔۔یہ کامیابی، اس حوالے سے سب کی عزت،محبت ،خوبصورت یاد ہے میری یادوں کی ڈائری میں۔۔۔
۔زندگی آپ کو کیا دیتی ہےیہ اہم نہیں۔۔۔بلکہ یہ آپکی سوچ پر منحصر ہے کہ آپ اس سے کیا لیتے ہیں اور اس سال مجھے اس کا بھی تجربہ ہوا۔
میں نے بہت کم عمری میں اپنے والد کی وفات دیکھی ہے سو اپنے پاس رشتوں کی قدر کرتی ہوں۔۔اچھی بات یہ ہے کہ وہ رشتے عافیت کیساتھ موجود ہیں اور میں ان کے ہمراہ زندگی کا لطف اٹھا رہی ہوں۔
اس سال نے مجھے سبق دیا ہے کہ آپ کسی سے اس کی خوشی چھین سکتے ہیں خوش قسمتی نہیں۔۔۔دعائیں ،اللہ کی نظر حالات بدل سکتی ہے۔۔۔بس یقین کامل کو تھام لیں۔۔۔
دل ٹوٹنے کے عمل سے بھی گزری ہوں جب بہت قریبی احباب کو بدلتے دیکھا۔۔
“کیا اب انکے ہمراہ وہ بے تکلفی محبت کی فضا قائم ہو سکے گی؟”یہ میرا خود سے سوال ہے جس کا جواب نفی میں ملتا ہے۔۔۔۔
زندگی رواں رہتی ہے ۔آپ گرتے ہیں۔۔۔اٹھتے ہیں۔۔۔۔بس یہ آپ پر منحصر ہے کہ حوصلہ کتنا رکھتے ہیں۔آنسو پونچھ لیے یا انھیں اپنا رفیق بنا لیا ۔۔۔بہ حیثیت مجموعی یہ سال مثبت رہا ۔۔۔۔۔جو خواب ادھورے ہیں انکی تکمیل کا انتظار ہے ۔۔۔۔گزرے برس نے میرا دعاؤں پر یقین مضبوط تر کر دیا ہے۔۔۔۔قلم نے میرا ساتھ دیا ہے اور میں نے اسے بطور مسیحا استعمال کیا ہے کیونکہ میرا اعتقاد ہے کہ الفاظ مرہم بھی بن سکتے ہیں اور زخم بھی۔تو مجھے اپنے ہنر یا صلاحیت کو مسیحا بنانا ہے۔
تبصرے بند ہیں