جنت کے مسافر

جنت کے مسافر
حمیرا ثاقب

ٹھاہ ٹھاہ کی زوردار آواز میرے چوکنے ہونے کے باوجود اتنی
اعصاب شکن ضرور تھی کہ میں انگلیاں کانوں میں ٹھونس کر جھکی تھی اور گرد و غبار کے اس طوفان میں بھی میں چھ سالہ محمد سے غافل نہ رہ سکی تھی ۔۔۔۔۔۔

مح۔۔
اتنا ہی منہ کھلا تھا کہ گرد میری سانس کی نالی میں اتنی شدت سے بھری تھی کہ میری آواز دب گئی تھی۔۔۔۔۔

کھانستے کھانستے میں نے بے تابی سے سامنے دیکھا تھا۔۔۔۔ دھوئیں اور مٹی کے اس طوفان میں مجھے اپنے فلیٹ کی دوسری دیوار دکھائی نہ دی تھی جہاں قالین پر بیٹھا محمد چند لمحے پہلے کاغذوں کے پلندے سے کھیل رہا تھا اور میں ممتا بھری شفقت لیے ۔۔۔ماحول کی تمام تر کشیدگی کو بھلا کر اسے دیکھ کر مطمئن اور مسرور تھی۔۔۔۔

بے تابی کسے کہتے ہیں اور جناب ہاجرعلیہ السلام کیسے تڑپی ہوں گی پیاس سے بلبلاتے ننھے اسماعیل علیہ السلام کے لیے ۔۔۔ایک لحظے میں ہی میں سمجھ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
اللہ اکبر اللہ اکبر
کلیجے میں کسی نے جیسے بے دردی سے ہاتھ ڈالا تھا اور میں جو رات دن اپنی بلڈنگ میں’ باہر لگے خیمہ نما گھروں میں اور ٹوٹی سڑکوں پر سسکتے تڑپتے لوگوں کو اپنی میٹھی آواز میں حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتی تھی مجھے معلوم ہوا تھا کہ کہنا اوراس کہے کو سہنا کتنا زیادہ مشکل ہے اور کتنا صبر آزما ہے۔۔۔۔
سامنے موجود دیوار جو اب خاک کا ڈھیر بن چکی تھی اس کی جڑ میں بیٹھا میرا محمد۔۔۔۔ کس حال میں تھا۔۔۔۔ ایک ہاتھ سے دکھتا بدن اور دوسرے ہاتھ سے تڑپتی کوکھ کو پکڑے میں نے
انا للہ وانا الیہ راجعون
پڑھا تو تھا
مگر درد اذیت اور بے بسی کی جس انتہا کو چھوا تھا۔۔۔ وہ صرف میرا دل ہی جانتا تھا۔۔۔۔۔۔
” میرے اللہ-!! میرے مالک !! میرا بچہ”

برستی انکھوں سے میں نے دیکھا تھا کہ ریت اور گردوغبار کچھ کم ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ تو میں اپنی حالت کو سنبھالتی محمد کی طرف لپکی تھی ۔۔۔۔۔
وہ چند لمحے میری اب تک کی تمام عمر پر بھاری تھے ۔۔۔

اللہ اکبر!!
مجھے ہوش آیا تو میرا محمد میرے ساتھ لپٹا ہوا تھا ۔۔۔اسے کلیجے سے چمٹائے میں نے اپنی سانسوں کو ہموار کیا تھا
اے اللہ ! مجھے ہمت دے —طاقت دے اپنی کمزور بندی کو۔۔۔۔
أمی أمی کرتا میرےجگر کا ٹکڑا زندہ سلامت رہے اسے کچھ نہ ہو ۔۔۔ میں اس کا دکھ کیسے دیکھ پاؤں گی۔۔۔۔۔
نامعلوم کتنی دیر ہم ماں بیٹا اس حال میں رہے تھے ۔۔۔۔ مجھے ہوش آیاتو عبداللہ مجھ پر جھکے میری خیریت دریافت کر رہے تھے۔۔۔۔
غزہ کے انتہائی کونے میں بحیرہ روم کے قریب قریب واقع ہماری بلڈنگ ابھی تک سے صہیونی دست برد سے محفوظ تھی اور آج کے مختصر سے حملے سے معلوم ہو رہا تھا کہ اب قربانی دینے اور جانیں قربان کر دینے کا وقت انتہائی قریب آچکا ہے۔۔۔
ہر فلسطینی اور غزہ کےرہائشی ہونے کے ناطے بالخصوص ہم بھی اس بے کراں درد اور مہیب اذیت کے دہکتے الاؤ میں گھرے کھڑے تھے ۔۔۔۔اور میں اپنا فرض پہچانتے ہوئے تمام آفت زدہ علاقوں میں روزانہ جا کر ان کی ہمت بندھانے اور ابتدائی طبی امداد دینے کا کام رضاکارانہ بنیادوں پر کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ام محمد” ! آپ کی اپنی حالت کافی خراب رہنے لگی ہے ۔۔۔آپ اب ادھر نہ آیا کیجیے
۔۔۔۔رافعہ خلیلی نے محبت پاش نظروں سے مجھے دیکھا تھا ۔۔۔ میں ان کے نحیف بازو میں انجیکشن دیتے دیتے مسکرائی۔۔۔ ” میرے غزہ کو میری ضرورت ہے” ۔۔۔۔ ” سلمہ بتایا کرتی تھی کہ محمد کے بعد آپ دوباربیمار ہو کر اپنے بچے گنواچکی ہیں اور اب آپ کو کوئی رسک نہ لینا چاہیے “۔۔۔۔۔۔رافعہ نے دوبارہ اصرار کیا تھا۔۔۔۔
سلمہ کو مجھ سے بہت محبت ہے اس لیے وہ میری فکر کرتی ہیں اور بھائی کی اولاد تو ویسے بھی اپنے بچوں کی طرح عزیز ہوتی ہیں نا !!”یہ کہہ کر میرے دل نے ایک دھڑکن مس کی تھی اور
میری نم انکھوں میں نبیلہ اور حسین کے حسین چہرے چمکے تھے ۔۔۔۔۔۔
میرے ماں جائے کےجگر کے ٹکڑے جو صہیونی بربریت کا شکار ہو کر واپس بہشت کو لوٹ چکے تھے۔۔۔۔۔۔۔اور اپنے بھائی کے لیے میرا دل ہر وقت تڑپتا رہتا تھا
سلمہ عبداللہ کی بڑی ہمشیرہ تھی اور اسے محمد اور میرے آنے والے بچے سے بن دیکھے بہت محبت تھی۔۔۔۔۔ سلمہ بیت اللحم میں رہتی تھی۔۔۔۔ پہلے تو پھر بھی اس کا غزہ کا چکر لگ جایا کرتا تھا مگر اب کچھ عرصے سے نہ اسے ہماری خبر تھی اور نہ ہمیں اس کی کوئی خبر مل پا رہی تھی ۔۔۔رافعہ خلیلی بیت اللحم میں سلمہ کی ہمسائی تھیں جو غزہ میں بیٹی کو ملنے آئی تھی پھر جنگ چھڑ جانے کی وجہ سے وہ واپس بیت اللحم نہ جا پا رہی تھیں۔۔۔۔۔پچھلے دنوں ان کی بیٹی کا رہائشی علاقہ بھی صہیونی حملوں کی زد میں آگیا تھا تب سے وہ اس عارضی ہسپتال میں تھی۔۔۔ زخم غیرمعمولی نہ تھے مگر بڑ ھتی عمر کی وجہ سے انہیں کمزوری بہت تھی۔۔۔۔ بیٹی اور داماد تو اس حملے میں بچ گئے تھے۔۔۔۔ مگر اس کے دونوں بچے ابدی جنتوں کے مکین ہو چکے تھے بوڑھی نانی کے لیے یہ جتنا تکلیف دہ ہو سکتا تھا۔۔۔۔ میرا حساس دل اسے محسوس کر کے ان سے اور زیادہ قربت محسوس کرنے لگا تھا۔۔۔۔

آج صبح میری حالت کافی خراب تھی ۔۔۔۔۔۔ میں نے پاس ہی لیٹے عبداللہ کا بازو ہلایا ۔۔ ” رملہ سے کہیں کہ مجھے ہسپتال لے چلیں ۔۔۔۔ مجھے کافی تکلیف ہے ۔۔۔۔” درد برداشت کرنے کی کوشش مجھے اور نڈھال کر رہی تھی۔۔۔۔۔
کہتے ہیں جب درد حد سے بڑھ جائے تو دوا بن جایا کرتا ہے ۔۔۔ اس ننھے منےوجود کے دنیا میں آتے ہی میرے درد کی بھی دوا ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ اتنا تو میں نے دیکھا تھا کہ ( رملہ جو میری دوست ‘ہمسائی اور گائناکالوجسٹ بھی تھی ) مسکراتی ہوئی میری طرف بڑھی تھی ۔۔۔
“مبارک ہو سبریٰ
! محمد کا بھائی آیا ہے ماشاءاللہ ”
راحت سکون اور خوشی ابھی میری رگوں میں اتری ہی تھی کہ دھڑ۔ ڈزز۔۔۔۔۔ دھڑ ڈزز کی تیز آوازوں سے یہ ٹوٹا ہوا ہسپتال گونج اٹھا تھا ۔۔۔۔۔

جب مجھے ہوش آیاتو میں ایک ٹوٹی ادھڑی جگہ پر کھلے آسمان تلے پڑی تھی ۔۔۔رملہ مجھے سہارا دے کر دوا لگا رہی تھی۔۔۔ درد کی بہت سی شدتیں میری دکھتے دل اور جسم پر ایک ساتھ حملہ آورہوئی تھی ۔۔۔۔رملہ کا ہمیشہ مسکراتا چہرہ اس وقت بری طرح ستا ہوا تھا۔۔۔۔
” کیسی ہو سبریٰ ” اس نے اپنےلہجے کو بشاش کرتے ہوئے میرا ماتھا سہلایا تھا۔۔۔۔
” رملہ! میرا بچہ دکھاؤ مجھے ” ۔۔۔ میں نے تمام حاضر و موجود سے نظر چرا کر لہجے میں چاؤ بھر کر فرمائش کی تھی۔۔۔۔۔
” تم کچھ بہتر ہو جاؤ پھر دکھاتی ہوں” اس نے منہ موڑ کر جواب دیا تھا….۔
کچھ دیر بعد مجھے ایک ٹینٹ میں ایک فرشی بستر پر منتقل کر دیا گیا تھا ۔۔ رملہ غائب تھی۔۔۔ عبداللہ بھی نہ جانے کہاں تھے ۔۔۔۔ میں اب بے چین تھی ۔۔ محمد کا بھائی دیکھنے اور اسے سینے سے لگانے کے لئے ۔۔سینے میں ہونے والی اینٹھن نے مجھے جانے پہچانے درد سے آشنا کیا تھا۔۔۔۔ تخلیق کرنے والے نے میرے بچے کی خوراک میرے سینے میں اتار دی تھی۔۔۔ اور اس دودھ کےجوش نے مجھے مزید بے چین کر دیا تھا ۔۔۔۔ابھی میں انہیں کیفیات میں ڈوب ابھر رہی تھی کہ عبداللہ آگئے۔۔۔۔
“مبارک ہو ابو محمد !بیٹا دیکھا آپ نے” میں مسکرائی تھی۔۔۔۔

عبداللہ کی سرخ انکھیں چھلک گئیں ۔۔۔

“کیا ہوا عبداللہ! ” میں نے اٹھنے کی کوشش کی تھی…

کھانا کھا لیں سبریٰ مجھے بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔۔ ہاتھ میں پکڑا لفافہ ہلا کر عبداللہ میرے قریب ہی بیٹھ گئے۔۔۔۔

“؛مجھے نہیں کھانا -!! “میرا بچہ لائیں پہلے ۔۔۔۔۔ میں اسے دیکھے بغیر کچھ نہیں کھاؤں گی ۔۔۔
انجان سے واہمے اور تلخ ترین حالات کے ان دیکھے ناگ مجھے ڈسنے لگے تھے ۔۔۔۔
عبداللہ کے آنسو ٹپاٹپ گرنے لگے۔۔۔۔
” دکھاتا ہوں ۔ ۔۔۔دیکھ سکو گی؟؟؟ ۔۔۔۔
” ہاں !!مجھے دیکھنا ہے۔۔۔۔ میرے جگر کا ٹکڑا “” میں بلبلائی تھی ۔۔۔۔۔۔
میرے کچے درد بھرے جسم میں شدید اینٹھن ہونے لگی تھی ۔۔۔
عبداللہ خاموشی سے اٹھ کر گئے اور کچھ دیر بعد ایک سبز کپڑے میں لپٹا ننھا سا وجود اٹھائے اندر چلے آئے۔۔۔۔۔
” لو دیکھ لو اپنا بچہ ” یہ کہتے ہوئے انہوں نے ملفوف بچے کو میرے پہلو میں لٹا دیا ۔۔۔۔۔۔
اور اگلے ہی لمحے میں جان چکی تھی کہ اس ننھے سے جسم میں زندگی کی کوئی رمق نہیں ہے۔۔۔۔۔۔

اللہ -!! اللہ -!! اللہ -!!
میں نے اس بےجان لاشے کو سینے میں بھینچاتو دودھ بہہ نکلا۔۔۔۔۔۔
اور ساتھ ہی میری انکھوں لہو بہانے لگی ۔۔۔۔
رملہ ٹینٹ کے دروازے پہ کھڑی بے اواز رو رہی تھی ۔۔۔درد حد سے سوا ہو چکا تھا ۔۔۔۔غزہ کی ایک اور ماں نے جناب اسما بنت ابوبکر رضہ اللہ عنہا کی طرح اپنی ممتاکو سولی پر لٹکا پا کر صبر اور ضبط کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔۔۔۔
آنکھیں خون اگل رہی تھی اور لب پر صرف اور صرف ایک ہی لفظ تھا ۔۔۔۔۔
“اللہ -!!اللہ-!!
میرے نومولود کو ابدی جنت کا مسافر بنے پندرہ دن ہو چکے تھے۔۔۔۔ ہسپتال جا کر ماؤں اور ان کے بچوں سے محبت اور خلوص کا اظہار کرتے میرے بے قرار دل کو کسی طور چین نہ تھا ۔۔۔۔ہائے -!! نو ماہ کوکھ میں زندہ پال پال کر میں نے اپنے بچے پر پہلی نظر ڈالی بھی تو اس کا تن مردہ تھا۔۔۔۔۔۔
میں لیبر روم کے باہر کھڑی تھی اندر سے بچے کے رونے کی آواز سن کر میری ساری حسیات ایک دم تیز ہو گئیں ۔۔۔۔رملہ نے مجھے باہر دیکھا تو بولیں
” سبریٰ آجاؤ اندر ”
میں اندر گئی تو منظر بہت ہی دلدوز ہو چکا تھا۔۔۔۔۔

بچہ تو حلق پھاڑ پھاڑ کر اپنے دنیا میں آنےکا واشگاف اعلان کر رہا تھا مگر اس کی ماں کے تن سے جان نکل چکی تھی۔۔۔ نا کافی میڈیکل کی سہولیات کی وجہ سے رملہ اس کی جان نہ بچا پائی تھی ۔۔۔میرے سینے پر ٹنوں بوجھ پڑگیا ۔۔۔۔ دل نے ایک بار سکڑ کر سارا خون روکا تھا اورپھر اسے واپس پھینکا تھا۔ رگوں میں انگارے دوڑے اور میں نے لپک کر اس مسکین کو اٹھا لیااور اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔۔ اس کے زندگی سے بھر پور ننھے لمس سے میرا سینہ دودھ سے بھر گیا ۔۔
” رملہ اسے مجھے دے دو پالنے کے لیے۔۔۔۔” رملہ نے ایک تڑپتی نظر مجھ پر ڈالی۔۔۔۔ اور بولی” ہاں لے جاؤ باپ کل کے حملے میں شہید ہو گیا تھا آج ماں بھی جنت نشین ہوئی ۔۔۔۔ ” !!
میں نے اس کی ہاں سنتے ہی بچہ کو اپنے ساتھ لپٹا لیا تھا ۔۔۔۔۔
مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا دل سکینت سے بھرا جا رہا ہے اور میرے رب نے میرا وہ ننھا مجھے لوٹا دیا ہے جس کے پہلے اورمردہ لمس نے میرے دل کے چیتھڑے اڑا دیے تھے ۔۔۔۔۔۔میرے اس فیصلے پر میرا غزہ بھی مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔