خواتین نے آرٹ سائنس میڈیکل سمیت تمام شعبوں میں ہمیشہ کردار ادا کیا ہے لیکن عام تاثر یہی رہا ہے کہ خواتین کا جنگ و جدل سے واسطہ نہیں ہوتا لیکن جب ذکر جوائن آف آرک کا ہو تو یہ تمام مفروضے غلط ہو جاتے ہیں اور انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ ایک کم سن لڑکی نے کیسے کیسے معرکے سرانجام دئیے ہیں جن کی بدولت آج دنیا کی ایک بڑی طاقت فرانس اس کی مقروض ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔ اس اکیلی لڑکی نے اپنے وطن کے کمزوروں کو طاقتوروں کے سامنے لا کھڑا کیا اور ان کو آزادی اور غلامی کے معنی سمجھائے تاکہ وہ عزت سے جی سکیں اور غیرت سے مر سکیں۔
جوائن آف آرک کو عرف عام میں “میڈ آف اورلین” کہا جاتا ہے اور اسے تاریخ کی ایک بڑی سینٹ اور فرانس کی قومی یک جہتی کا سمبل مانا جاتا ہے۔
جوائن قرون وسطی کے فرانس میں ایک معمولی گھرانے میں 6 جنوری 1412 میں فرانس کے علاقہ دوم رومے میں پیدا ہوئیں ۔۔یہ وہ دور تھا جب فرانس میں تخت کی وراثت کو لے کر صد سالہ جنگ چھڑ چکی تھی۔ریاست کمزور ہورہی تھی اور ملک میں افراتفری کا سماں تھا۔۔برٹش حملوں نے فرانس کی معاشیات کو تباہ کردیا تھا ۔۔اور آپسی لڑائی سے فائدہ اٹھا کر برطانیہ فرانس پر اپنا تسلط جما چکا تھا ۔۔برطانوی استعمار فرانس کو بری طرح کچل رہا تھا۔
جوائن اور اس کی فیملی فرانس کے تخت اور شاہی خاندان کے وفادار تھے لیکن ان کا علاقہ برٹش کے حامی برگیڈوں کے اثر والا تھا اس لئے انھیں کئی بار عتاب جھیلنا پڑا ان کے گھروں کو جلایا گیا ۔ ظلم و تشدد اور غیر انسانی ماحول میں پل کر جوائن کو انگریز سرکار سے شدید نفرت ہو چکی تھی اور ساتھ ہی ساتھ وہ فرانس سے بے انتہا محبت رکھتی تھی۔محبت و نفرت کے یہ جذبات اس کے لاشعور کا حصہ بنتے چلے گئے اور وہ کم سنی میں ہی اپنے ملک کی آزادی کے لیے کچھ کرنے کا سوچنے لگی۔
تیرہ سال کی عمر سے جوائن کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اسے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ فرانس کو بچائے اس لئے اس نے شادی سے انکار کردیا ۔۔وطن کے لیے لگن تھی یا اس کا جنون وہ ابھی سولہ سال کی تھی جب اس نے بہت مشکل سے مجسٹریٹ کو یقین دلا کر بادشاہ تک جانے کی اجازت حاصل کی۔۔محل تک پہچنے کے لئے اسے دشمنوں کے علاقوں سے گذرنا تھا جس کے لئے اس نے اپنے بال کٹوا کر مردانہ بھیس بدلا اور تخت کے وارث چارلس ہفتم تک جا پہنچی اور چارلس کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ اسے فوج کا ایک دستہ سونپ دے جسے لے کر وہ اورلین کو برٹش کے قبضے سے چھڑا لے ۔۔چارلس نے اپنے وزراء کی مخالفت کے باوجود یہ بات مان لی ۔جوائن نے خود اس آرمی کی قیادت کی اور انگریزوں کے حامیوں کو شکست دی ۔جولائی 1429میں وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کنگ چارلس ہفتم کو ریم تک لے آئی اور اس کی تاج پوشی کروائی۔لیکن ابھی اس کا سفر ختم نہیں ہوا تھا بلکہ کئی معرکے اس کے سامنے تھے۔
1430 میں جواین نے دوسری جنگ لڑی اور خون ریز معرکے کے بعد کیمپیین نامی شہر میں گرفتار ہوگئی۔
برٹش کے حامی برگینڈین نے جوائن پر عجیب وغریب الزامات لگائے جیسے جادو ٹونا اور مردوں کی طرح بھیس بدلنا وغیرہ ۔۔سال بھر تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد جوائن کو بھرے بازار میں جادوگرنی قرار دے کر جلا دیا گیا ۔
لیکن یہ الزامات اور ایسی موت بھی جوائن کی مقبولیت کو کم نہیں کر سکے ۔اس کی موت کے بیس سال بعد چارلس ہفتم نے اس کے کیس کو دوبارہ شروع کروا کر سارے الزام غلط ثابت کردئیے۔ اس کے بعد اس کا نام فرانس میں عزت احترام اور آزادی کی علامت کے طور پر لیا جانے لگا۔
جوائن آف ارک اپنی موت کے بعد ایک اساطیری کردار بن گئی لیکن حقیقت میں وہ ایک بہادر ، نڈر اور کسی حد تک نادان لڑکی تھی جس نے اتنی کم عمری میں ہی تاریخ میں اپنا نام لکھا لیا۔
آج فرانس میں جوائن کی یاد میں 30 مئی کا دن قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لوگ جوائن آف آرک کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ان کو آزادی جیسی نعمت سے روشناس کرایا اور فرانس غلامی کی لعنت سے باہر آیا۔ تاریخ میں بڑے بڑے جنگجو آئے اور انہوں نے اپنے ملکوں اور قوموں کے لیے گراں قدر کارنامے سرانجام دئیے لیکن اس 19 سال کی لڑکی نے آزادی خودداری اور عزت و وقار کے لیے جو جدوجہد کی وہ تاریخ کے سینے میں محفوظ ہے اور اسے ہمیشہ تکریم کے ساتھ دیکھا جاتا رہے گا
حالیہ تبصرے