داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
حمیرا ثاقب
اماں نے ایک زور دار ٹھڈا جب مجھے رسید کیا تو میں گہری نیند سے ہڑبڑاکر اٹھی۔۔۔۔۔۔ اور اس ٹھڈے کی وجہ نزول “فقط” اتنی تھی کہ میں حسبِ معمول نچلے ہونٹ کو کس کر دانتوں میں دبائے سو رہی تھی۔۔ میں کیا کرتی مجھے ہونٹ دانتوں میں پھنسائے بنا نیند نہ آتی تھی اور اماں کی نیند ویسے ہی کچی تھی جب جب وہ مجھے یوں ہونٹ دبا کر سویا پاتیں تو ضرور ہی کچھ نہ کچھ رسید فرماتیں اور ساتھ کوسنے الگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میری اماں کے ساتھ ضد کی کہانی ایسی ہی بے شمار وجوہات سے جڑ کر رفتہ رفتہ بہت سی complications کا شکار ہو چکی تھی۔۔۔ مجھے چڑ ہوتی کہ کیسی ماں ہیں کہ مجھے سوئی ہوئی کو ٹھڈے مار مار کے جگا دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔ یوں بار بار ٹوٹتی نیند کے ساتھ میری نیند بھی بہت کچی اور ہلکی ہوگئی تھی ۔۔۔کم سونے اور جاگنے کی وجہ سے میری ذہنی اور جسمانی صحت دونوں متاثر ہونے لگیں۔۔۔۔۔جس سب کا الزام میں صرف اور صرف اماں کو دیتی تھی اور وہ مجھے ماں کی بجائے ایک فریقِ مقابل محسوس ہونے لگیں۔۔۔۔۔ بچپنے میں تو مجھے اس بات کا ادراک بہت کم ہی تھا مگر پھر رفتہ رفتہ مجھے محسوس ہوا کہ اماں کو دکھ دے کر مجھے ایک کمینی سی تسلی اور سکون ملتا ہے اور میں جان جان بوجھ کر وہی کام کرتی اور بار بار کرتی جس جس سے اماں مجھے منع کرتیں۔۔۔۔۔۔۔اپنی انہیں ڈوبتی ابھرتی کشمکش میں مجھے اس بات کا احساس کم ہی ہوتا کہ میری حرکتوں سے میری ماں کو کیسے کیسے تکلیف ہوتی ہو گی اور چار پانچ بچوں کی ماں جو معاشی اور سسرالی دونوں طرح کے سخت دباؤ میں ہو وہ کیسے کیسے دکھی ہوتی ہو گی میرے لیے اور میری وجہ سے۔۔۔۔۔۔
مجھے یاد ہے کہ جب مجھ سے چھوٹی بہن پیدا ہوئی تو میں ساڑھے پانچ سال کی تھی اتنی مدت گھر پر چھوٹا بچہ رہ کر میں نے بہت لاڈ بھرے دن گزارے تھے اور خصوصاً بابا جان تو مجھے ننھی گڑیا کی طرح ٹریٹ کرتے جو کہ مجھے بہت پسند تھا۔۔۔۔۔ہم ہسپتال پہنچے تو اماں بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اور چھوٹی بہن دادی امی کی گود میں تھی۔۔ سب یوں واری جا رہے تھے ۔۔۔۔ اس کے چہرے ، ہاتھ پاؤں پر تبصرے کر رہے تھے ۔۔۔ مجھے تو وہ ایک آنکھ نہ بھائی۔۔۔۔۔ میں اماں کے پاس جا کھڑی ہوئی۔۔۔۔ اماں نے ہاتھ سے میرے چہرے کو پیار کیا اور نحیف آواز میں بولیں۔۔۔۔۔
“اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہن دی ہے ۔۔آپ نے دیکھی؟؟”
میں ٹھنک کر بولی
” مجھے نہیں دیکھنی۔۔۔۔ آپ گھر کب آئیں گی؟؟”
بابا جان ہنس کر بولے۔۔۔۔ ” رات کو آپ کی اماں گھر آ جائیں گی ” میں نے اماں کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔ ” اماں ! گھر آتے ہوئے اس کو نہ لے کر آئیے گا”۔۔۔۔۔ اماں نے مجھے چمکارا
” نہیں بیٹے ! ایسے نہیں کہتے۔۔۔۔۔ جیسےآپ میری بیٹی ہیں ۔۔۔۔۔ اسی طرح یہ بھی میری بیٹی ہے۔۔۔۔ اس کو لینے ہی تو ہسپتال آئے تھے ہم۔۔۔۔”
میں نے اماں کا ہاتھ جھٹک کر منہ پھلا لیا اور پیچھے ہو گئی۔۔۔ اماں مجھے اس کا خیال رکھتی زرا نہ اچھی لگیں اور میرے معصوم دل پر ٹنوں بوجھ بڑھ گیا۔۔۔۔
ایک اور واقعہ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ہم دو بھائی بہن نے ایک بار اپنی غلطی ماننے سے انکار کر دیا۔۔۔ اماں نے بار بار پوچھا مگر ہم انکاری رہے اور اماں نے جھوٹ بولنے کی سزا کے طور پر ہم دونوں کے منہ میں سرخ مرچیں ڈال کر ہمیں سزا دی ۔۔۔۔اب سوچتی ہوں تو یہی لگتا ہے کہ اماں اصل میں یہ چاہتی تھی کہ ہم جھوٹ بولنے سے اتنا ڈریں کہ آئندہ جھوٹ بولنے کا سوچ کر بھی کانپ جائیں مگر چونکہ میری غلطی نہ تھی اس لیے مجھے یہی لگا کہ اماں نے اپنی دانست میں بھلے انصاف کیا ہو مگر میرے ساتھ زیادتی کی تھی ۔۔۔۔۔۔ یہ بھی میرے دل کی گرہوں میں ایسا اضافہ کر گیا کہ میں نے اپنے اس تجزیئے کو ایک دم درست سمجھا کہ اماں ہر بات میں مجھ سے ناانصافی کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔
عفاف میری منجھلی بیٹی جس کے ابتدائی بچپن سے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ عام بچوں سے بہت مختلف ہے ۔۔۔۔ ایک محبت کرنے والی ماں کی طرح میرے دل کی گہرائیوں سے یہی دعا نکلتی تھی کہ میری یہ بچی بہت حساس اور منفرد ہے تو اس کو زندگی میں کوئی مسائل نہ ہوں ۔۔ میں سوچتی تھی کہ ایک اچھی ماں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اسے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہیے ۔۔ اپنے بچوں کو بتانا چاہئے کہ وہ ان سے بہت محبت کرتی ہے ، اولاد اس کی زندگی کی سب سے بڑی متاع ہے۔۔۔۔ اور اپنی اس قیمتی ترین چیز کاوہ بے انتہا خیال کرتی ہے۔۔۔۔۔
اس لئےمیں نے ہمیشہ اپنے بچوں سے بار بار اپنی محبت کا اظہار کیا مگر ان کے ظاہری رویوں سے لگتا تھا کہ میرے اظہار محبت نے الٹا اثر کیا ہے اور بظاہر میرے بچوں کی نظر میں اس بات کی کوئی خاص اہمیت نہیں کہ ہماری ماں ہم سے کتنا پیار کرتی ہے۔۔۔۔
خصوصاً گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ عفاف کا یہ رویہ تقویت پکڑ رہا تھا کہ ہر بات کی اور ہر عمل کی ، خوامخواہ ہاہا کریں یا بھائی بہن ، شکایت صرف اور صرف مجھ سے ہوتی ۔۔۔۔۔۔میری محبت اسے بناوٹ لگتی اور میری صلح جویانہ
کوششیں میرا مزید جرم بنتی جاتی تھیں۔۔۔۔۔۔
ان حالات میں عفاف کے والد نے یہی سوچا کہ اس کو ماہر نفسیات کو چیک کروانا چاہئے ۔۔۔۔ پہلے تو وہ ہتھے سے اکھڑ گئی اور وہی عام معاشرتی سوچ کہ کیا میں پاگل ہوں یاآپ لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں ۔۔۔مگر آہستہ آہستہ اس کے والد نے اسے ٹھنڈا کیا اور اس کو سمجھایا کہ ماہر نفسیات کے پاس ہم اس لئے جاتے ہیں کہ اپنی ذہنی الجھنوں کا حل نکال سکیں اور زندگی کو بہتر انداز میں جی سکیں ۔۔۔۔۔
ماہر نفسیات جواں سال اورحلیم طبیعت کی حامل خاتون تھی ۔۔۔۔۔جس نے بہت پیار سے چمکار چمکار کر عفاف کو بات کرنے پر مجبور کیا۔۔۔۔ عفاف بہت زیادہ کم گو اور جھجکنے والی بچی تھی ۔۔۔۔ مگر ماہر نفسیات کے انتہائی ہمدردانہ اور محبت بھرے رویے کی بنا پر وہ اس کے ساتھ بات پر آمادہ ہوگئ۔۔۔۔۔
ماہر نفسیات کا طریقہ یہ تھا کہ وہ مجھے لازماً ساتھ بلاتی اور ویسے بھی ہر وقت مجھ سے چڑنے والی عفاف کہیں بھی جانے کے لئے میرے دم چھلے پر اتنا اصرار کرتی کہ مجھے جانا ہی پڑتا۔۔۔۔۔۔
پہلے وہ عفاف کو باہر بٹھاتی اور مجھ سے پوچھتی ۔۔۔۔ کہ عفاف کے ایب نارمل رویے کی کیا وجوہات ہیں ۔۔۔۔۔ پھر عفاف سے اکیلے میں گفتگو کرتی ۔۔۔۔۔ آخر میں ہم دونوں کو ساتھ بٹھا کر بات کرتی ۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی لگتا کہ یہ سیشن مفید ثابت ہو رہے ہیں اور کبھی کبھی بالکل بیکار لگتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
پڑھائی میں عفاف بہت اچھی تھی۔۔۔۔ پڑھتی بھی پاگلوں کی طرح تھی اور اچھے نمبر لیتی تھی۔۔۔۔ امت مسلم کے حالات ہوں یا پاکستان کے داخلی خارجی مسائل۔۔۔۔ سب پر اس کی ایک مظبوط رائے ہوتی اور بہر حال یہ رائے کافی درست اور سلجھی ہوئی ہوتی۔۔۔۔۔اس لئے شخصیت کے مختلف اور کافی عجیب پہلو ہونے کے باوجود اس کی ذہانت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا تھا ۔۔۔۔
اب کچھ عرصے سے عفاف کا مزاج بہت تکلیف دہ ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔ مروت میں برداشت کرنا اور چھوٹے بڑے کا لحاظ کرنا سب ختم ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ اس کے نتیجے میں پہلے اس نے اپنے سے بڑی بہن کو بلانا چھوڑا اور پھر اس کے بعد اپنے سے چھوٹی سے بھی بات چیت ترک کر دی۔۔۔بطور ماں میں نے حتی الامکان کوشش کی کہ معاملات بہتری کی طرف گامزن ہوں۔۔۔۔ اس کی بہنوں کو سمجھا بجھا کر آمادہ کرتی ۔۔۔۔وہ کوشش بھی کرتیں مگر عفاف کا حوصلہ شکن رویہ دیکھ کر کچھ دنوں کے اندر اندر وہ دوبارہ پیچھے ہٹ جاتیں اور صورتحال بہتری کی طرف جاتے جاتے دوبارہ خراب ہو جاتی۔۔۔۔ اس سب کا گھر کے ماحول پر بھی برا اثر پڑتا ۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھار میرا وہ غصہ ابال کی طرح باہرآتا تو ماحول میں تناؤ بھی بڑھ جاتا۔۔۔۔ جس میں بہرحال زیادہ ہاتھ عفاف ہی کا تھا۔۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں تھا کہ مجھے اپنی غلطی نظر نہیں آتی تھی یا مجھے اس بات کی تکلیف نہیں تھی کہ میری وجہ سے میرے ماں باپ اور بھائی بہن اذیت محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔۔ میرا دل اس سارے حالات پر شدید کڑھتا تھا اور میں چاہتی تھی کہ میں آگے بڑھ کر حالات کو بہتر کروں یا کم از کم جب دوسرے بہتری کی کوشش کریں تو تبھی میں اچھا ردعمل دوں۔۔۔۔۔۔مگر میرے اندر کی جھجک اور آگے بڑھ کر کوشش نہ کرنے کا عجیب سا رویہ مجھے بہتری کی کوئی کوشش نہ کرنے دیتا ۔۔۔۔ اور یوں سب مجھ سے دور ہوتے جاتے ۔۔۔۔ اجنبیت کی اس دیوار کو توڑنا مشکل تھا نہیں مگر میرے لئے عجیب طرح سے دشوار تر ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ میں محسوس کرتی تھی کہ اماں کو میرے اس رویے سے بہت تکلیف ہے اور وہ بہت کڑھتی ہیں اس پر ۔۔۔۔ اور مجھے برا بھی لگتا تھا کہ میری ماں میری وجہ سے پریشان ہو مگر میں کوئی کوشش کرنے سے اپنے آپ کو معذور پاتی اور حالات بہتری کی بجائے ابتر ہو جاتے ۔۔۔۔۔
جب جب اماں جذباتی ہو جاتیں تو تب تب وہ راگ الاپتیں ویسے مجھے یہ کہنا نہیں چاہئے کیونکہ یہ بد تمیزی کے الفاظ ہیں مگر میں کیا کروں میرے دماغ میں ان کی ایک ہی طرح کی باتیں بے سرے راگ بن کر ہی کی زور زور سے بجتیں۔۔۔۔۔ اور میرے ذہن کی سوچنے سمجھنے کی قوتیں بالکل ماؤف ہو جاتیں۔۔۔۔۔
اماں کی ٹیپ بند شاعری یہ تھی کہ جب میں مر جاؤں گی تب تمہیں پتا چلے گا۔۔۔۔۔اس وقت تمہیں کوئی سہارا نہ دے گا۔۔۔۔ تب تم سمجھو گی سارے عیش ، آسانیاں اور نخرے ماں کی زندگی کے ساتھ ہی تھے۔۔۔۔ اماں کی اس بات کو مسلسل سنتے سنتے کان پکنے لگے تھے۔۔۔۔ پاس سے بابا جان بھی ہنس کر کہہ دیتے کہ ” تم نہیں مرنے والی اتنی جلدی ” تو بات کا رخ پلٹ جاتا اور میں جان چھٹنے پر شکر ادا کرتی۔۔۔۔
ایسا نہیں تھا کہ مجھے اماں کی ضروت نہیں تھی یا میں ان کی اہمیت کو سمجھتی نہیں تھی یا میں چاہتی تھی کہ وہ مر جائیں ۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔ پھر ایک دن ایسا آگیا ۔۔۔۔۔
بابا جان کی گھبرائی ہوئی آواز سن کر میری آنکھ کھلی تھی اور دل زور سے دھڑکا تھا ۔۔۔۔بابا جان نے اپیا کو آواز دی تھی ۔۔۔۔ گھڑی پر نظر پڑی تو تہجد کا وقت تھا۔۔۔۔ ” ولیجہ بیٹا! نیچے ائیں” ۔۔۔۔۔ بابا جان نے دوبارہ آواز دی تھی۔۔۔ اپیا گھبرا کر اٹھی اور نیچے جانے کے لیے سلیپر ڈھونڈنے لگی ۔۔۔۔اب اپیا نیچے گئی تو میرے دل کو کسی طور سکون نہ تھا کیونکہ بابا جان کا اتنی رات کو گھبرا کر آواز دینا ان ہونی تھی۔۔۔۔ اب جھجک آڑے آرہی تھی ۔۔۔۔کیا کروں اسی شش و پنج میں تھی کہ اپیاکے رونے کی آواز آنے لگی ۔۔۔ اب میں نہ رک سکی بنا جوتی کے ہی دوڑی۔۔۔اپیا بابا جان سے لپٹی روئے جارہی تھی اور ہمدان بھائی کسی آدمی کو باہر کے گیٹ سے لے جا رہے تھے۔۔۔۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب دیکھے گئ۔۔۔۔ سامنے بیڈ پر اماں لیٹی ہوئی تھی اور ان کا چہرہ کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔۔۔۔۔ ” کیا ہوا باباجان ” عجیب پھٹی پھٹی سی آواز میرے حلق سے نکلی تھی۔۔۔ بابا جان رو رہے تھے ۔۔۔۔ یا اللہ۔۔۔!! بابا جان بھی رو رہے ہیں ؟؟ کیا اماں _؟؟ ۔۔۔ اس سوچ کے آتے ہی میرے سینے میں دل کو کسی نے مسل کے رکھ دیا اتنے میں ہمدان بھائی اوپر سے شعیب اور ثمرہ کو اٹھا کر لے آئے ۔۔۔ سبھی رو رہے تھے اور میں ٹکر ٹکر سب کودیکھ رہی تھی۔۔۔۔
“تم نہیں مرنے والی اتنی جلدی “۔۔۔۔۔ ”
بے فکر رہو تم ہمیں مار کر مروں گی”۔۔۔۔۔۔ جب جب بابا جانی اماں کے ڈائیلاگ پر ہنستے اور ایسے ہی فقرے اچھالتے تو کرب کی لہریں اماں کے چہرے پر لرزنے لگتیں۔۔۔۔ “اماں !!” میرے حلق سے چیخ برآمد ہوئی تھی اور میں آگے بڑھ کر اماں کے بے جان جسم سے لپٹ گئی تھی۔۔۔۔ “اماں میں بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی”۔۔۔۔۔
” اماں ! آپ جو کہیں گی میں وہی کروں گی ”
“اماں ! مجھے معاف کر دیں ۔۔۔۔ساری غلطی میری تھی”
ہمدان بھائی نے آگے ںڑھ کر مجھے سہارا دیا تو تھا مگر میں ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چکی تھی۔۔۔۔۔۔
ہائے !! اب رونے کا معافی تلافی کا وقت گزر گیا تھا ۔۔۔ داغ داغ دل کے ساتھ اب جب تک ذندہ رہنا تھا ۔۔۔۔ یونہی رونا ہی تھا ۔۔۔۔ ہائے !! کیا ہی اچھا ہوتا جو اماں کی زندگی میں میں اپنی غلطیاں سدھار لیتی۔۔۔۔۔