دھوبی پٹخا
دھوبی پٹخا
ربیعہ سلیم
لوگوں کو مشکل میں نانی یاد آتی ہے، مجھے امی یاد آئیں۔جو اس وقت تین سو کلومیٹر دور گوجرانوالے تھیں، مشکل میرے سامنے بیٹھی تھی۔
اس نے اپنا نام صدف بتایا ۔
بچے صحن میں اُدھم مچارہے تھے ،مگر سمجھ رہے تھے کہ ماں کتنی اُتھل پتھل بیٹھی ہے ۔
صدف نے برانڈڈ سوٹ پہنا ہوا تھا ،ایسا لگتا تھا جیسے پارلر سے سیدھی میرےپاس آئی ہو ؟
بچوں کے شور میں پریشر ککر بھی شامل ہوگیا ۔سفید چنوں کو اسٹیم کے لیئے رکھا تھا، سوچا تھا ، رات کے بچے چکن کے سالن میں ڈال کر مرغ چنے بنالوں گی ۔
دوچار ہزار کی بات ہوتی تو اسے خالی ہاتھ نہ بھیجتی ۔اس نے کھڑے کھلوتے۔۔۔۔ شوہر میں ہی حصہ داری مانگ لی ۔
میں اسے کیا جواب دیتی؟
مانا کہ خاور اتنے اچھے نہیں ہیں، لیکن بچوں کا باپ بھی کبھی کسی نے بانٹا ہے۔۔۔؟
میری جگہ کوئی اور ہوتی تو جانے کیا کرتی، میں جہاں تھی، تہاں رہ گئی ۔
ہاتھ پیر ہی جواب دے گئے ۔
کچھ بھی سمجھ نہ آیا تو میں نے اپنی بیٹی کو آواز دی
“ایمن، آنٹی کیلئے کوک لانا ” ۔وہ سب کچھ چھوڑ کر فریج کی طرف گئی اور کوک کا گلاس بھرلائی ۔
“پریشر ککر کے نیچے چولہا بند کردینا ”
میں نےواپس مڑتی ایمن کو کہا تو اس نے میرے چہرے کو غور سے دیکھا ۔مائیں کتنی بھی کاریگر ہوں ۔بیٹیاں جان جاتی ہیں کہ موسم کیسا ہے ۔۔؟
چلو بڑے شہرکا ایک فائدہ تو ہوا، سبھی نے بڑے بڑے دکھ سمجھ لئے ۔۔
خاور تین سال سے اسلام آبادتھے۔مجھے تو جمعہ جمعہ سال بھی نہ ہوا ۔اور مصیبت کوک پی رہی تھی ۔
عورت اگر جذباتی نہ ہو تو بیوقوف نہیں ہوتی ۔دل پھینک بندے کے پاس چھ ہندسوں والی نوکری اور اچھی سی گاڑی ہو تو کوئی نہ کوئی گل ضرور کھلاتا ھے ۔ خاور جتنا کمینہ تھا میرا بس چلتا تو اس کے پانچ ٹوٹے کرکے ایک اس کو دے دیتی اور باقی چار کو بھی فون کردیتی کہ آکر لے جاؤ۔
مگر میں ایسا نہیں کرسکتی !
وہ میرے تین بچوں کا باپ تھا ۔عورت نہیں ،مامتا مجبور ہوتی ہے ۔
ایمن نے پریشر کُکر کا ویٹ ہٹا دیا تھا ۔شوں کی تیز آواز سے میں چونک گئی ۔ ابلے چنوں کی خوشبو ماحول میں رچ گئی ۔
“کب سے جانتی ہو خاور کو “؟میں نے ہمت کرکے ہوچھ ہی لیا ۔
“آپ کے آنے سے پہلے اس فلیٹ میں ڈیڑھ سال تک میں رہی ہوں “اس نے کوک کا خالی گلاس میز پہ رکھ دیا……
“مری کے ساتھ ہی ہمارا گاؤں ہے ،زلزلے کے بعد سے میں اسلام آباد ہوں، کارگو کمپنی میں کام کرتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”اس نے مزید بہت کچھ بتاد یا جو میں نے پوچھا نہیں تھا .۔۔۔
کاش میں نے کچھ بھی نہ پوچھا ہوتا ۔۔دوچار بچے ہوجائیں تو میرے جیسی عورتیں دبنگ ہونے کی بجائے ملنگ ہوجاتی ہیں ۔۔شوہروں کو لفنگ پنے کی آزادی مل جاتی ۔
اتنے میں ایمن نے میرا اٹیچی لاکر میرے اور صدف کے درمیان رکھ دیا ۔ایمن کی خاموشی۔۔۔کو میں بخوبی۔۔۔سن رہی تھی۔۔۔
صدف نے حیرت سے ایمن کو دیکھا اس سے پہلے وہ کچھ کہتی……
“چنے ابال دئے ہیں، رات کا بچا چکن فریج میں ہے تھوڑا سا مصالحہ بھون کر مکس کرلینا ۔خاور ساتھ روٹی کھاتے ہیں، بچے تڑکے والے چاولوں کے ساتھ، ایمن کے پیپرز ہورہے ہیں، وہ کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی ۔چھوٹا احمد رات کو پیمپر کے بغیر سوتا ہے ۔”
صدف حیرت سے مجھے دیکھ ہی رہی تھی کہ بڑا بیٹا زاہد اندر داخل ہوا ۔اس نے آتے ہی پوچھا
“یہ ہیں نئی ممی “؟
میرے کچھ کہنے سے پہلے ایمن بول اٹھی “جی ۔۔۔۔اور اب یہ یہیں رہیں گی ”
“ماما ۔کو میرے والا کمرہ دکھاؤ “اتنا کہہ کر میں اٹھی اور اٹیچی اٹھانے لگی ۔
صدف نے اٹیچی میرے ہاتھ سے پکڑ لیا ۔۔”آپ کہاں جارہی ہیں “؟
“گوجرانوالے “میں نے جواب دیا
“مگر کیوں، کیا ہم مل کر نہیں رہ سکتے “؟ اس کی سوئی وہیں اٹکی تھی ۔
” میں جزباتی ہوں۔۔تمہاری طرح احمق نہیں ۔مجھے اس ڈربے میں تم دونوں کے ساتھ لکن میٹی نہیں کھیلنی ، تم جانو اور تمہارے بچے اور تمہارا شوہر ،میں ویسے بھی تھک چکی ہوں ۔۔۔۔”اتنا کہہ کر میں نے اٹیچی اٹھا لیا تو وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔
“مجھے ایک دن دیجئے ۔میں خاور سے مشورہ کرلوں ۔پھر چلی جائیے گا “اس نے جلدی جلدی کہا اور تیزی سے نکل گئی ۔
مجھے پتہ ھے کہ اب یہ کبھی نہیں آئے گی ۔
باپ کا کوئی کردار نہ ہو تو اولاد کا کردار بنانا پڑتا ھے ۔۔خاور کے بچے اس کی کمزوری ہیں ۔اور میری طاقت ۔
ایمن نے سویٹر جرسیوں والے اٹیچی کی طرف اشارہ کرکے زاہد سے کہا
“یہ واپس الماری کے اوپر رکھ آؤ، “