`شہنشاہ غزل۔۔۔مہدی حسن

`شہنشاہ غزل۔۔۔مہدی حسن
مرزا صہیب اکرام

حُسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کا چہرہ جو نظر آئے تو غزل کہتے ہیں

غزل کی تعریف تو ہمیشہ سے سادہ ہے کہ عورت سے بات کرنا یا عورت کی بات کرنا ۔ درد و غم کی کیفیت کو اس طرح بیان کرنا کہ پڑھنے والا لکھنے والے کے درد کو اس زخمی آہو کی چیخ سمجھے جو تیر جگر کے پار ہونے کے بعد تڑپ سے بلبلاتا ہے۔
یہ وہ باتیں ہیں جو کہی جاتی ہیں سنی جاتی ہیں انہیں آسان لفظوں میں سمجھنا ہو تو غزل ہر کیفیت کی حتمی اور آخری شکل کہی جا سکتی ہے ۔
یہ حسن کا آخری روپ ہے یہ محبت کا لازوال راگ ہے یہ چاہت وہ دیا ہے جو آندھی کے رخ پر جلتا ہے یہ وہ پروانہ ہے جو شمع کی لو میں فنا کو بقا سمجھتا ہے ۔
یہ درد کی وہ گھڑی ہے جہاں درد بھی درد سے بے پروا ہونے لگتا ہے ۔یہ لفظوں کے وہ حوالے ہیں جو غزل گو شاعر نثر نگار غزلوں کے حوالے سے کہتے چلے آئے ہیں لیکن اس کا عملی مظاہرہ حقیقی رنگ انسان نے تب دیکھا جب مہدی حسن نے غزل کو تھاما پھر اختری بیگم نے غزل کو تھاما اسے امر کر دیا ۔
پہلے تان سین درباروں میں راگ گایا کرتے تھے پھر یہ سلسلہ چلتا بڑھتا رہتا ۔کسی زمانے میں مغنیاں محفلوں میں غزل خواں ہوا کرتی تھیں ان دنوں غزل اپنے عروج اور ارتقائی منازل کو عبور کر رہی تھی۔
جب غالب نے اپنی ہی کو غزل کو مغنی کی دل آفریں اور پُر سوز آواز میں سنا ہوگا یقیناً غالب کو لگا ہوگا کہ یہ غزل تو وہ نہیں جو میں نے لکھی تھی ۔ آواز کی تاثیر لب و لہجہ ، لحن و راگ ، سرگم و ساز اور آواز میں چھپے تمام رنگ اور سوز ، یہی وہ موقع ہوگا جب غالب اپنی غزل کے ساتھ غزل کو فضاؤں میں بکھیرنے والی آواز میں گم ہوگیا ہوگا۔
اگر مہدی حسن غالب کو غالب کے سامنے گاتے تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ ان کی ایک آہ کے نام غالب اپنا پورا دیوان کر جاتے ۔
غزل کی دنیا میں پہلے پہل درباری رنگ و راگ ہوا کرتے تھے یہ راجاؤں مہاراجوں اور امرا کی محفلوں کی جان تھی ۔ اسے خواص تک رسائی تھی۔لیکن بدلتے حالات میں غزل گوئی ایک فن کی صورت میں ہر خاص و عام تک جا پہنچی ۔یہ صرف کسی ایک گلی بازار کی رونق نہ رہی بلکہ یہ ہر گھر پہنچی ۔
غزل کی دنیا میں بڑے بڑے غزل خواں آئے لیکن قدرت نے جو مقام مہدی حسن کو دے دیا وہ حتمی تھا اس کے بعد اور اس سے قبل ویسا مقام کبھی کسی کو نصیب نہیں ہوا ۔
مہدی حسن سے قبل بھی غزل اپنے مکمل اسلوب کے ساتھ موجود تھی۔غزل لکھتے اور گانے کی عمر جاری طویل تھی ۔ لیکن مہدی حسن سے قبل ایک آدھ نام کو چھوڑ کر کوئی بھی غزل گائیک اس کاملیت اور جامعیت تک نہیں پہنچا تھا جہاں مہدی حسن پہنچے۔مہدی حسن سے قبل غزل عوام میں اور عام فہم انسان تک اس انداز میں نہیں آئی تھی لیکن مہدی حسن نے غزل کو جو اسلوب دیا اور جس رنگ میں غزل کو پیراہنِ گل و لالہ اسے دیا اس سے غزل ہر طبقے میں عام ہو گئی۔مہدی حسن کے بعد غزل کی حیثیت اور اہمیت مسلمہ ہو گئی اور جو رنگ مہدی حسن نے اپنایا ، اب اس سے ہٹ کر غزل کو کوئی نیا سخنور عطا نہیں ہوگا ۔
مہدی حسن کے اپنے قد کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی وجہ سے سخن وری کی دنیا میں غزل معتبر ہو گئی ۔۔غزل سنگنگ کو برصغیر میں مقبول عام بنانے کا ان ہی کے نام ہے۔غلام علی ،جگجیت سنگھ ، طلعتِ عزیز ، پنکج ادھاس ، تحسین جاوید ، انوپ جلوٹا جیسے فنکاروں کی ایک طویل فہرست ہے جو مہدی حسن کے متاثرین میں شمار ہوتے ہیں۔لیکن ان میں سے کوئی بھی ان کے پاسنگ بھی نہیں مانا جاتا ہے۔

بیک گراؤنڈ
مہدی حسن کی پیدائش 18 جولائی 1927کو برٹش انڈیا کے راجپوتانہ علاقہ کے لونا گاؤں میں ہوئی ۔ان کا تعلق ایک کلاسیکی موسیقی سے تعلق رکھنے والے کلاونت گھرانے سے تھا جو سولہ نسلوں سے موسیقی سے جڑا تھا۔ ان کے والد عظیم خان بھی دھرپد کے بہت بڑے گائیک تھے۔ ایسے گھرانے میں پیدائش کے بعد یہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ انھوں نے آٹھ سال کی عمر سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور اٹھارہ سال کی عمر تک دھرپد ، دادرا، ٹھمری ،خیال میں مہارت حاصل کرلی اور اپنے بھائی غلام قادر کے ساتھ دربار میں گانے لگے تھے لیکن اس سے پہلے وہ اپنی پہچان بنا سکتے تقسیم اور ملکی حالات نے بیس سال کی عمر میں انھیں ہجرت پر مجبور کردیا ۔پاکستان آکر وہ ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی کے قریب چک نمبر 111/7 میں اپنی پھپھو کے گاؤں میں آکر بس گئے ۔یہاں آکر وہ معاشی مشکلات کا شکار ہوئے اور چیچہ وطنی کے مغل سائیکل شاپ میں کام کرنے لگے اور سائیکل مکینک بن گئے ۔لیکن ان سخت ترین حالات میں بھی انھوں نے موسیقی سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا ۔

کیریر کی شروعات
ان کی جدوجہد پانچ سال چلتی رہی آخر کار 1952 میں انھیں ریڈیو پاکستان پر پہلی بار گانے کا موقع ملا۔ انھوں نے ٹھمری سے ابتدا کی پھر آہستہ آہستہ غزل گائیکی کی طرف آئے ۔
1956 میں انھیں پہلی بار فلم شکار میں اصغر علی حسین کی میوزک ڈائریکشن میں گانے کا موقع۔ملا۔ یہ گیت تھا “نظریں ملتے ہی دل کی بات کا چرچا نہ ہو جائے “.. لیکن جس غزل نے انہوں نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا وہ 1964 کی فلم “فرنگی” میں فیض احمد کی لکھی گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے” جس کی موسیقی راشد اترے نے ترتیب دی تھی۔ اس کے بعد بلندیوں کی جانب وہ سفر شروع ہوا جس کے بعد مہدی حسن برصغیر کے سب عظیم سنگر اور شہنشاہ غزل کہلائے جانے لگے ۔
مہدی حسن نے پچاس سے زائد البم اور کئی سو ریکارڈز کو اپنی آواز سے سجایا ۔انھوں نے 488 فلموں 685 گیت گائے ۔جس میں سے 586 اردو گیت ہیں اور 100 کے قریب پنجابی گیت ہیں ۔انہوں نے درپن ، سنتوش محمد علی ، ندیم ،وحید مراد، سلطان راہی سے لے کر جاوید شیخ اور شان تک انڈسٹری کے سب ہی ٹاپ ہیروز کے لئے گایا ۔ان کی ساتھی گلوکاراوں میں اہم نام ملکہ ترنم نور جہاں کا ہے جن کے ساتھ انہوں نے سب سے زیادہ گانے گائے اس کے علاوہ ناہید اختر ، مہناز ،رونا لیلی ، نسیم بیگم ، نصیبو لال وغیرہ سب ہی کے ساتھ گایا ۔قتیل شفائی ،تسلیم فاضلی اور تنویر نقوی جیسے اعلی گیت کاروں کے کلام کو انہوں نے اپنی آواز میں امر کردیا ۔۔رومانی، غمگین شوخ ہر کسی قسم کے گیتوں کو مہدی حسن نے انتہائی عمدگی سے پیش کیا ۔
ان کے مشہور گیتوں میں یہ گیت سب سے ٹاپ پر مانے جاتے ہیں ۔۔
زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
ہفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
پیار بھرے دو شرمیلے نین
تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے
دنیا کسی کے پیار میں جنت سے
گلوں میں رنگ بھر باد نو بہار چلے
بلاشبہ مہدی حسن پاکستانی فلم انڈسٹری کے چوٹی کے سنگر تھے لیکن انھیں عالمی شہرت ان کی غزل گائیکی کی بدولت ملی۔

غزل کی شروعات عربی زبان سے ہوتی ہوئی فارسی اور پھر اردو میں پہنچی ۔۔غزل کی بناوٹ اور اس کا تخیل اسے موسیقی میں ڈھالنے کے لئے انتہائی مناسب تھا اسی لئے بارہویں صدی میں حافظ اور شیرازی کی غزلوں کو موسیقی کے ساتھ پیش کیا جانے لگا ۔ اردو میں غزل کی آمد تیرہویں صدی میں ہوئی ۔امیر خسرو نے اردو شاعری اور موسیقی میں جہاں بے شمار نئی چیزوں کی بنیاد رکھی وہیں غزل سگنگ کو متعارف کروانے کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔ انھوں نے مخصوص راگوں جیسے بھیروی ، کافی ، کھمج ،پہاڑی اور دادرا تال سے بنائی ہوئی بندش کی شروعات کی۔ یہ بندش غزلوں کی گائیکی میں آج تک مستعمل ہے ۔خسرو کی ان غزلوں کو باقاعدہ طور پر خلجی کے دربار میں سب سے پہلے مہر افروز اور نصرت خاتون نے پیش کیا۔ لیکن ہندوستانی سنگیت میں یہ چیز مکمل طور پر انیسویں صدی میں شروع ہوئی لکھنؤ کے نوابوں کے محلات اور رقص و سرود کی محفلوں میں غزل گائیکی کو فروغ ہوا۔۔ادبی طور پر اردو ڈرامہ مشہور ہوتے گئے جن میں غزل گائیکی ایک اہم حصہ ہوتی تھی اور پھر ریکارڈنگ کمپنی کی آمد نے ان غزل گانے والوں کی آوازوں کو محفوظ کرنا شروع کیا لیکن اردو غزل اور ان کی گائیکی مقبول عام بیسویں صدی کے وسط میں ہوئی ۔۔ جب چالیس کی دہائی میں کے ایل سہگل ، طلعت محمود، سی ایچ آتما وغیرہ نے فلمی اور غیر فلمی سطح پر غزل گائیکی کومقبول کیا لیکن ان میں دو نام ایسے ہیں جنہوں غزل گائیکی کی تاریخ بدل دی۔ ان میں ایک اختری بائی فیض آبادی ہیں جو بیگم اختر کے نام سے مشہور ہوئی اور دوسرے مہدی حسن جو شہنشاہ غزل کہلائے ۔بیگم اختر کی اہم خوبی ان کی عمدہ آواز اور کلاسیکی کی تعلیم کے علاؤہ غالب میر مومن جیسے استادوں کے کلام کا انتخاب تھا ۔

مہدی حسن نے غزل گائیکی پچاس کی دہائی میں شروع کی ان کی دلکش بھاری آواز ، اردو شاعری سے بہترین انتخاب ، راگوں پر بنی ہوئی دھنیں ، عمدہ تلفظ اور ادائیگی نے ان کی غزل گائیکی کو جو رنگ دیا تھا وہ بیگم اختر کے ہم پلّہ نظر آتے تھے۔ مہدی حسن کی غزل گائیکی کی ایک اور خوبی ان کا غزلوں کے خیال اور الفاظ کی مناسبت سے دھن اور راگ کا انتخاب تھا جس نے ان کی غزلوں کو یاد گار بنا دیا۔ مہدی حسن نےغزل گائیکی کو مقبول عام کیا وہ نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا اور بنگلہ دیش میں بھی انتہائی مقبول تھے
ان کے بعد ستر اسی کی دہائی میں سنگرز کی ایک بڑی تعداد نے غزل پر طبع آزمائی کی ۔۔جگجیت سنگھ ، غلام علی ، پنکج ادھاس ، طلعت عزیز ، ہری ہرن ، پیناز مسانی جیسے کئی نام ہیں جنہوں نے کامیابی حاصل کی لیکن وہ اس فیلڈ میں مہدی حسن کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے ۔
مہدی حسن کی مقبول ترین غزلوں میں ۔۔

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھں
غضب کیا تیرے وعدہ پہ اعتبار کیا
دیکھ تو دل کے جاں سے اٹھتا ہے ۔۔۔
شامل ہیں

اعزازات
مہدی حسن موسیقی میں ایسا مقام رکھتے ہیں کہ ان کے نام سے جڑ کر ایوارڈ معزز ہوجاتا ہے۔ انھیں فلموں میں گائیکی کے لئے دس نگار ایوارڈ دیے گئے اس کے علاؤہ انھیں پاکستان کے سبھی بڑے سویلین ایوارڈز تمغہ امتیاز ، ہلال امتیاز اور پرائڈ آف پرفارمینس سے نوازا گیا ۔۔انڈیا میں انھیں کے ایل سہگل ایوارڈ اور نیپال میں گورکھا دکشنا باہو ایوارڈ بھی دیا گیا ۔۔
مہدی حسن کے متاثرین میں غزل سنگر جگجیت سنگھ ، طلعت عزیز اور ہری ہرن جیسے مشہور نام ہیں جو انھیں اپنا روحانی استاد مانتے ہیں ۔لتا منگیشکر کا کہنا تھا ان کے گلے میں بھگوان بستا ہے۔ دلیپ کمار سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک ان کی موسیقی کے دلدادہ رہے ہیں ۔
80 کی دہائی کے آخر میں مہدی حسن نے گائیکی تقریبا ختم کردی انہیں پھپھڑوں کی بیماری نے آگھیرا۔ علاج کے لئے وہ انڈیا بھی آئے آخر کار 13 جون 2012 کو سنگیت کا یہ باب ختم ہوا ۔
مہدی حسن وہ شہنشاہ غزل کہا جاتا ہے کیونکہ سلطنتِ غزل میں اس کی ریاست کی حدود کی کوئی حد نہیں وہ غالب کی طرح اپنے فن میں لامحدود محسوس ہوتے ہیں ۔ ان کا اپنے سے قبل ہم عصروں اور بعد والوں سے کبھی کوئی موازنہ اور مقابلہ نہیں رہا وہ پہلے دن سے سب سے بڑے تھے اور ہمیشہ سب سے بڑے رہیں گے ۔ غزل کا آج کا رنگ مہدی رنگ کہا جا سکتا ہے ۔ مہدی حسن غزل کا وہ حوالہ ہیں جسے پوری شدت ، فخر ، غرور اور طمانیت کے ساتھ فنون لطیفہ کے ٹھیکے داروں کے سامنے رکھا جاتا ہے ۔۔