ساوتھ ایشیا کا سب سے قدم شہر پشاور ہے جس کی تاریخ کے تانے بانے سات ہزار قبل جا نکلتے ہیں . اس شہر نے کئی بار عروج و زوال کے موسم سہے، یہاں پر کئی مذاہب اور تہذیبوں نے عظمت بھی دیکھی اور وقت کے ساتھ بہت سی ثقافتوں کو انسان نے مٹتے ہوۓ بھی دیکھا . اس تاریخ ساز اہمیت کے حامل شہر میں بکھشالیوں سے لے کر پشکلاوتیوں تک ، کشان قبیلہ سے یونانی باختر دور تک ، گندھارا تہذیب سے عربوں تک اور پھر پشتونوں ، مرہٹوں اور مغلوں سے لے کر سکھوں تک اور اس کے بعد برطانوی راج رہا. کہا جاتا ہے کہ ہر دور میں گزرے وقتوں کے کچھ دیوانے بیٹھ کر آنے والی نسلوں کو ماضی کے روشن اسباق اور تلخ یادیں کہانیوں ، داستانوں اور قصوں کی صورت میں سنایا کرتے تھے . اس مشہور اور عہد ساز جگہ جس کو 1930 میں انگریز سرکار کے قتل عام کے بعد سارے برصغیر نے جانا اس کا ذکر کتابوں سے قبل سینوں میں نسل در نسل محفوظ چلا آ رہا تھا . اس مشہور جگہ جہاں قصہ گو بیٹھ کر زمانوں کے رنج و غم کھولتے اس کا نام قصہ خوانی بازار پڑ گیا. کہا جاتا ہے کہ صدیوں تک یہاں آنے والا ہر مسافر اپنے ساتھ کچھ قصے لاتا اور جاتے سمے کچھ واقعات اپنے ذہن کی کتاب میں ساتھ بھی لے جاتا . اس عظیم بازار علم کو اپنی ادبی علمی وسعت کے باعث غیر تحریر شدہ تاریخ کا مرکز کہا جاتا تھا .اس کو بعض سیاحوں نے پکاڈلی کا نام بھی دیا . کیوں کہ یہاں بھی قصوں کی تاریخ صدیوں پر محیط رہی ہے .
اسی قصہ خوانی بازار میں آج سے 98 سال قبل 11 دسمبر 1922 کے ایک روشن دن ایک زمیندار غلام سرور خان کے گھر لڑکے کی پیدائش ہوئی جس کا نام اس کے حسن و جمال ، سرخ و سفید رنگت، کھلتی مسکان اور چمکتی روشن پیشانی کو دیکھتے ہوئے محمد یوسف خان رکھا گیا ۔۔
11 دسمبر کی روشن اور اجلی صبح کسے علم تھا کہ آج اس بازار میں ایسے انسان کا جنم ہو رہا ہے جس کے بعد یہاں کی سات ہزار سالہ تاریخ جو فقیروں سے شاہوں تک پھیلی ہوئی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اس بڑے قد کے انسان کی چمک کے سامنے ماند پڑ جاۓ گی . اس بازار سے ایک انسان ایسا قصہ لے کر نکلے گا جس کی دھوم ہندوستان کی سرحدوں کی قید سے نکل کر دنیا کے ہر اس ملک تک جاۓ گی جہاں فن اور فنکار کو مانا اور پوجا جاتا ہے .کون جانتا تھا کہ یہ ایک ایسے ستارے کی آمد ہے جس کی روشنی اگلی صدی میں برصغیر کے فلم بینوں کے دلوں پر راج کرے گی۔
فن اداکاری کی معراج دلیپ صاحب نےاپنے بچپن کے ایام ممبئی /دیولالی میں گزارے.انہوں نے ابتدائی تعلیم barnes school دیولالی سے حاصل کی . اس کے بعد ممبئی کے انجمن اسکول سے پڑھائی کی.وہ شہر جہاں دلیپ صاحب ایک مسافر اور طالب علم بن کر آئے تھے اسی شہر بے مثال کو کیا معلوم تھا کہ آنے والے سالوں میں اس شہر میں راج کرنے کے لئے راجہ بھوج کا پرویش ہو چکا ہے .یہ شہر بے خبر تھا کہ اس کی گود میں مغل اعظم پل رہا ہے . وقت کا پہیہ اپنی طاقت سے بھاگ رہا تھا . دلیپ کمار اپنے اندر کے کلاکار سے انجان مالی حالات سے نبردآزما ہو رہے تھے .1940 میں کم عمری میں ہی پونا میں آرمی کینٹین چلا کر مشکل وقت کاٹ رہے تھے .
وہ فٹ بال کے بہت شوقین تھے ۔راج کپور دلیپ صاحب کے بچپن کے دوست رہے ہیں ۔ فلمی دنیا میں ان کا کبھی بھی کوئی مخالف نہیں رہا وہ ہمیشہ ہر دل عزیز انسان اور ایک گاڈ فادر بن کر چھوٹوں پر دست شفقت رکھتے رہے .ان کے گیارہ بھائی بہن میں صرف ایک ناصر خان نے فلموں میں کام کیا .
فروری 1966 میں سائرہ بانو سے شادی ہوئی اس وقت دلیپ کمار کی عمر 44 سال اور سائرہ بانو کی 22 سال تھی ۔
اس کے بعد 1943 میں بامبے ٹاکیز کی مالکن دیویکا رانی کے ہاں نوکری شروع کر دی . اردو زبان و بیان پر اچھی گرفت ہونے کے باعث لکھنے کے شعبہ میں ان کو جگہ مل گئی .
1944 میں دیویکا رانی نے اپنی پہلی فلم ” جوار بھاٹا ” کے لئے یوسف خان کو بطور ہیرو کاسٹ کیا اور ان کو دلیپ کمار کا نام دیا . کون جانتا تھا کہ اس کے بعد دیویکا رانی کا نام دلیپ صاحب کے ساتھ جڑنے کی بدولت تاریخ کے ان صفحات کی زینت بنے گا جن پر کبھی وقت کی دھوپ نہیں پڑے گی .جوار بھاٹا ایک فلم نہیں ایک عہد کا آغاز تھا ایسا عہد جس نے ہندوستان کے سینما کو زمین سے اٹھا کر فلک کی اس بلندی پر پہنچا دیا تھا جس کا تصور بھی خال تھا .
1944 سے قبل اور بعد میں ہندی سینما میں کئی مدوجزر آئے لیکن ایک جوار ایسا آیا جس کے بعد کوئی بھاٹا نہیں آیا . وہ انسان ہندی سینما میں اتنی آب و تاب سے چمکا کہ اس نے پھر کبھی زوال نہیں دیکھا . اس جوار کی لہروں نے بعد میں ہر آنے والے کو بھاٹے سے اوپر نہ جانے دیا . ہر ایک کو بلند ہونے کے لئے اس آسمان کی جانب دیکھنا پڑا . جس کو دنیا دلیپ کمار کے نام سے جانتی ہے .
جوار بھاٹا کے بعد آئی فلمیں پریتما اور ملن بھی فلم بینوں پر رنگ نا جما سکیں لیکن اس کے بعد آنے والی فلم جگنو نے ہندی سینما کے اتہاس کو بدل ڈالا. 1947 میں ہندی انڈسٹری میں ایک ایسا دیپ جلا ، ایک ایسا جگنو روشن ہوا جس نے راہ کے اندھیرے مٹا کر ایسی روشنی بھر دی جس سے بعد میں آنے والے ہر فنکار نے اپنے حیثیت کے ساتھ جلا حاصل کی .
اس دور کے مشہور فلمی نقاد بابو راو نے آغاز میں دلیپ صاحب پر تنقید کرتے ہوۓ کہا تھا کہ یہ نوجوان ایکٹنگ نہیں کرسکتا . لیکن ملن اور جگنو سے کامیابی کے لازوال سفر کا آغاز کرتے ہوۓ دلیپ کمار نے فن اداکاری کو وہ بلندی عطا کی کہ فن اداکاری کےمطالب و مفاہین کو سمجھنے کے لئے لوگوں کو دلیپ صاحب کی فلمیں دیکھنی پڑیں.
ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ ” جگنو ” اور اس کے بعد ” شہید ” اور پھر محبوب صاحب کی انداز نے دلیپ کمار کے روشن مستقبل کی نوید سنا دی .
50 کی دہائی ہندی سینما کی یادگار دہائی تو قرار پائی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ قسمت شہرت عزت کی دیوی اور فلمی اقتدار کا ہما دلیپ صاحب پر مہربان ہو گیا.ان کی فلموں نے ہندی سینما کو دنیا کے کئی ممالک تک پہنچا دیا.اداکاری کے نئے پیمانے طے ہوۓ. دلیپ کمار نے ان دس سالوں میں ایسے شاہکار فلم بینوں تک پہنچائے جو نا کبھی اس سے قبل کسی نے دیکھے تھے نہ ہی اس کے بعد ایسی کلاسک موویز کسی آنکھ نے دیکھی۔
جوگن ،بابل ،شکست، داغ ،امر ، دیدار ،اڑن کھٹولہ ،مدھو متی اور دیوداس جیسی عظیم فلموں کے بعد دلیپ صاحب کو سٹار پاور ،شہنشاہ جذبات ، مصور الم اور مقبولیت کا دیوتا کہا گیا .
کرداروں کے اندر چھپی جزئیات تک کو اپنی شخصیت کا حصہ بنا لینے والے عظیم کلاکار اس قدر گہرائی میں جا کر کرداروں کو خود پر حاوی کرتے کہ حقیقت کا گمان گزرتا.لیکن اس باریک بینی کا نقصان یہ ہوا کہ دلیپ صاحب شدید ڈپریشن کا شکار ہو گئے. پھر اپنی ذہنی صحت کو توانا کرنے اور دماغی طور پر نارمل ہونے کے لئے اپنے معالجین کے مشوروں پر عمل کرتے ہوۓ جب دلیپ صاحب نے ہلکے پھلکے رول چند رول کیے تو تب ایک نئی جہت سے فلم بین متعارف ہوۓ. مصور غم ، شہنشاہ جذبات اور ٹریجڈی کنگ کا خطاب پانے والے عظیم ستارے نے جب آن، آزاد اور کوہ نور جیسی فلموں میں کام کیا تب لفظ مزاح ، ٹائمنگ ، رفتار ، ہنسی ، حسن ادائیگی ، بے ساختگی ، روانی ، چہرے کے اتار چڑھاو ، قہقہوں ، لطافت اور ظرافت نے اپنا وجود حاصل کیا. کچھ بن کہے دیکھنے والوں کو رلا دینے والے نے ایسا تازہ شفتہ اور کھلا کھلا مزاح پیش کیا کہ لوگ کی آنکھوں میں اس بار آنے والے آنسو ہنسی اور قہقہوں کے تھے .
اگلی دہائی کے سفر کی شروعات کے آصف کی ” مغل اعظم ” جیسی عظیم الشان فلم سے ہوئی .جو ہندی فلمی تاریخ کی چند مہنگی فلموں میں سے ہے ۔لوگوں کی توقع کے خلاف دلیپ نے سلیم کا رول اس یادگار طریقہ سے نبھایا کہ اس کے بعد کسی اور کو اس رول میں دیکھنا ممکن ہی نہیں ۔ مغل اعظم وہی فلم قرار پائی جس کے بعد آج تک ویسی فلم کو بنانا اور دکھانا تو درکنار اس جیسی فلم کا تصور بھی محال ہو گیا . اس فلم میں جہاں ہر شعبہ اپنی معراج پر تھا وہیں پر سلیم کے رول میں اپنی پاٹ دار آواز میں جب دلیپ صاحب (سلیم)نے پرتھوی راج کپور (اکبر) سے کہا کہ ” میرا دل آپ کا ہندوستان نہیں جس پر آپ حکومت کرسکیں ” تب ہر محبت کرنے والے دل کی یہی آواز تھی کہ ہمارا دل کسی شاہ کی سلطنت نہیں بنے گا جہاں پر محبت کے پھول نہ کھلیں.
اس کے بعد ” گنگا جمنا ” آئی . جو کمرشیل ہندی فلموں کے لئے ٹیکسٹ بک کا درجہ رکھتی ہے ناصرف اس فلم کی تھیم کو 70s 80s کا کمرشیل سنیما بار بار استعمال کرتا رہا بلکہ اس کے ساتھ دلیپ کمار کی ایکٹنگ بھی آنے والے اداکاروں کے لئے ایک مثال رہی. اس فلم کی کہانی خود دلیپ کمار نے لکھی. اور اس طرح ہندی سینما کو پہلا حقیقی اینگری ینگ مین ملا جو بدلے کی بھاونا لے کر سسٹم سے لڑ پڑتا ہے . یہ فلم اپنے دور میں کلاسک کے درجہ پر گئی اور ساتھ ہی ساتھ ٹرینڈ سیٹر بھی بنی . جس کے آئیڈیا پر بعد میں بے شمار اچھی اور بری فلمز بنیں.گنگا جمنا پہلی ایسی فلم تھی جو گانوں ساتھ ساتھ مکمل پوربی لہجے میں فلمائی گئی. یہ اپنے آپ میں ایک نئی تاریخ تھی ۔
اس کے علاوہ 60 کی دہائی میں ” دل دیا درد لیا” “سنگھرش ” لیڈر ” آدمی” اور ” رام اور شیام جیسی فلمیں آئیں جن سے کچھ باکس آفس پر گنگا جمنا والا رنگ نہ جما سکیں لیکن آج کلاسک میں شمار ہوتی ہیں اور بارہا ان فلمز کے آئیڈیا پر کام آج تک ہوتا آیا ہے .اس کے ساتھ ساتھ اپنی پہلی ہی بنگالی فلم سے بہترین اداکار کا بنگالی جرنلسٹ ایوارڈ بھی حاصل کیا .
یہ دہائی بھی تین فلم فیئر ایوارڈز کے ساتھ دلیپ کمار کے نام رہی . یہ مسلسل دوسری دہائی تھی جس میں دلیپ کمار سب سے اوپر رہے .
70 کی دہائی فلموں میں دلیپ کمار نے کل چار فلموں میں کام کیا .ان میں داستان، گوپی ،سگینہ، بیراگ شامل ہیں .چار میں سے تین فلموں کے لئے دلیپ کمار کو بہترین اداکار کے ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا .1976 سے 1980 تک دلیپ کمار نے فلموں سے بریک لے لیا۔۔
80 کی دہائی میں کرانتی جیسی بلاک بسٹر سے شاندار واپسی کے بعد ودھاتا، ، اور شکتی اور کرما جیسی کامیاب اور بلاک بسٹر فلمیں دیں. اس کے ساتھ ساتھ مزدور ، دنیا ، مشعل ، قانون اپنا اپنا ، دھرم ادیکاری جیسی سپر ہٹ فلموں میں ایسے شاندار کردار ادا کئے کہ فلم بین جان گئے کہ جس فلم کے ساتھ دلیپ کمار کا نام جڑ جاۓ وہ بس دلیپ کمار کی فلم ہوتی ہے تب یہ معانی نہیں رکھتا کہ صاحب کا رول ہیرو کا تھا یا کیریکٹر . جس فلم میں دلیپ کمار جلوہ افروز ہوۓ وہ فلم دلیپ کمار ہی کی کہلائی.
شکتی میں جب دلیپ کمار اور امیتابھ بچپن کا مہا سنگرام ہوا تب دلیپ کمار نے فلم فیئر ایوارڈ جیتا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ فلم میں اداکاری میں امیتابھ سے اتنے بلند نظر امیتابھ ان کے سامنے میدان اداکاری میں مار کھا گئے.
90 کی دہائی کا آغاز دلیپ کمار نے سوداگر سے کیا جس میں 32 سال بعد دلیپ صاحب اور راج کمار ساتھ آئے تھے. اس فلم نے بھی بے مثال کامیابی حاصل کی . اس کے بعد دلیپ کمار کی صرف ایک فلم آئی جو سوداگر کے 7 سال بعد ریلیز ہوئی.
ان کے علاوہ چانکیہ ، شکوہ ، کالنگا اور آگ کا دریا جیسی نا مکمل اور ادھوری فلموں کا شائقین کا انتظار رہا مگر قلعہ دلیپ کمار کی اب تک کی آخری فلم ثابت ہوئی.
مہان اداکار کا 1944 سے شروع ہونے والا فلمی سفر 1998 تک جاری رہا اور تب قلعہ آئی اور در حقیقت یہ قلعہ دلیپ صاحب کی معراج ، عظمت کا قلعہ ہے . ایسا قلعہ جس کے سنگھاسن پر بس ایک انسان بیٹھا ہے ، جس کو لوگ فن اداکاری کا دیوتا سمجھتے ہیں . ہر ایک اس قلعہ کو دیکھ سکتا ، رشک کر سکتا ، اس کی چھاؤں میں پناہ لے سکتا ، اس کی آگ سے خود کو سینک سکتا . لیکن اس قلعہ میں پرویش کا حوصلہ ہمت اور معیار کبھی کسی کے پاس نہیں آیا . قلعہ سلیم کا تھا ، سلیم کا ہے اور سلیم کا رہے . کیوں کہ یہ محبت کی داستان ہے جہاں اکبر سے قبل سلیم آتا ہے . جہاں نفرت سے قبل محبت کا ذکر ہوتا ہے ….
دلیپ کمار کو ہندی فلموں کے سب سے بہترین اداکار کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے. بالی ووڈ میں صرف دلیپ کمار ایسے عظیم اداکار ہیں جن سے بعد والوں میں سے ہر ایک متاثر رہا. منوج۔کمار، راجندر کمار،دھرمیندر سے لے کر نصیر الدین شاہ، امیتابھ بچپن ، شاہ رخ خان سے لے کر نواز الدین صدیقی تک شائد ہی کوئی ایسا فنکار ہو جو دلیپ کمار سے متاثر نہ ہو۔۔۔ایک اداکار کا دہائیوں تک کئی نسل کے اداکاروں کو متاثر کر لینے میں کمال صرف اداکاری کا نہیں تھا بلکہ اس میں بے انتہا محنت اور لگن شامل ہوتی ہے . اور کمال تک پہنچنے کی جستجو بھی شامل ہوتی ہے تب جا کر صدیوں کے بعد کسی شعبے کو اپنا اوتار ملتا ہے . جس کی مثال ہر نسل کے لئے قائم رہتی ہے .
دلیپ کمار نے ہندی فلموں میں method acting متعارف کروائی. وہ اداکاری کے میدان میں اتنا ڈوب جاتے تھے کہ انسان کو حقیقت کا گمان ہوتا ہے . وہ ہر کردار کو اس قدر جاندار اور پختہ طریقے سے نبھاتے تھے کہ ان کا انداز اس رول کے لئے ماڈل قرار پاتا. ان سے ہر ایک نے سیکھا کہ کسی بھی کردار کا حق کس طرح ادا کیا جاتا ہے .
گنگا جمنا اور گوپی میں گنوار بن کر دلیپ کا لہجہ انداز باڈی کی موومنٹ خالص گنواروں جیسی تھی ، پھر منھ کھلا رہنا اور ہر بات چیخ چیخ کر کرنا جیسے عام گنوار لوگ کرتے ..
اور جب یہودی ، مغل اعظم اور کوہنور میں شہزادے کا رول کیا تو تہذیب اور نفاست کا پیکر بنا ، اس کا لہجہ انداز کسی شہزادے کا سا ہی تھا اور ان کی زبان کی پختگی انداز اور چہرے پر خاص قسم کا مہذب پن اور ہر لفظ نپے تلے میں بولنا ، اس کو ایک نیا دلیپ کمار بنا دیتا ہے . دیوداس کے شرابی کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ انسان کبھی ہوش میں بھی رہا ہوگا . اس کا شراب پی کر بولنا ایسا ہی تھا کہ وہ اداکاری نہیں حقیقت لگتی تھی . بطور شرابی اس کے انداز اور ادائیگی میں شراب اور غم دونوں کا امتزاج تھا .
جب دیدار کا شیامو اندھا فقیر بنتا ہے تو وہ اداکاری نہیں لگتی کیوں کہ اس کے لئے دلیپ کمار نے ایک عرصہ تک ایک اندھے فقیر کا مشاہدہ کیا. اسی لئے ان کو فلم میں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سچ میں کوئی اندھا انسان بھکاری ہو. فقیر کی شخصیت اور انداز و اطوار کو پورے طور پر ادا کیا .
کوہ نور میں ستار بجانے کے سین میں صرف ستار پر انگلیاں نہیں پھیریں اصل میں ستار سیکھا اور انگلیاں فگار کیں۔۔۔
امر ،بابل اور مدھومتی کا پڑھا لکھا افسرانا شان والا ہیرو یا نیا دور کا شنکر تانگے والا یا گاوں کا ان پڑھ ، معصوم گوپی ۔ہر کردار انداز و اطوار اور لہجہ سے دلیپ کمار نہیں بلکہ وہی نظر آتا ہے جو کہانی کا حصہ ہے ۔
دلیپ کمار کے انداز کی بہت سے اداکاروں نے نقل کی کسی نے مکالموں کے انداز کی کسی نے ہاو بھاو کی ۔۔۔لیکن ایک چیز جو صرف دلیپ کمار میں تھی اور جو کوئی نقل نہیں کرسکا وہ ان کا ٹھہراو اور خاموش رہ کر بہت کچھ کہ جانا تھا ۔۔۔وہ مغل اعظم میں مدھو بالا کے ساتھ فلمایا گیا بنا ڈائلاگ کا رومانی سین ہو جو آج بھی ہندی فلم کا بیسٹ رومانی سین کہلاتا ہے یا مشہور گانے ” پیار کیا تو ڈرنا ” میں پرتھوی راج پر ڈالی گئی نظر یا دیوداس میں خاموشی سے پارو کے گھر پر مرنے والا سین ۔۔بنا الفاظ کے یادگار ہیں ۔۔۔اور جب ڈائیلاگ کہے جاتے ہیں تو شہنشاہ جذبات کا ایک الگ انداز ہوتا ہے ۔
دیوداس میں ایک ناکام انسان جو زندگی میں کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا اور اپنی ناکامی کے نشے میں ڈوب کر خود کو ختم کرلیتا ہے .اس فلم میں کہا گیا یہ ڈائیلاگ کون بھول سکتا ہے . جب دلیپ صاحب کہتے ہیں کہ ” کون کمبخت برداشت کرنے کے لئے پیتا ہے” .
بتیس سال بعد راج کمار کے ساتھ ” سوداگر ” میں دلیپ کمر کا یادگار رول اور ہریانوی لہجہ میں ادا کیا گیا یہ زبردست ڈائیلاگ آج بھی تازہ ہے کہ ” حق ہمیشہ سر جھکا کر نہیں سر اٹھا کر مانگا جاتا ہے ” .
شکتی میں پہلی بار پولس آفیسر اور حالات کے شکار باپ جب اپنے بیٹے کو اپنی صفائی دیتے ہوئے کہتا کہ “جو لوگ سچائی کی طرف داری کی قسم کھاتے ہیں، زندگی ان کے بڑے کٹھن امتحان لیتی ہے ” . تب اس لمحہ کو دلیپ صاحب امر کر دیتے ہیں اور فلم کا وہ فریم یادگار بن جاتا ہے .
کرما میں ایک ایماندار افسر کے روپ میں اپنا سب کچھ کھو کر بھی ہمت نہیں ہارتے ہوۓ جب وہ کہتے ہیں کہ ” رانا وشوا ہرتاپ سنگھ نام ہے میرا۔ شیر کو اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے کتوں کی ضرورت نہیں ہوتی ” .تب ان کے لہجے کی گرج انسان کو کبھی نہیں بھولتی.
نیا دور کا غریب شنکر تانگے والا جو انسان اور مشینوں کی جنگ میں انسانوں کی برتری ثابت کرنے کے لئے لڑتا ہے . ان کا یہ ڈائیلاگ آج بھی حقیقت ہے .
“جب امیر کا دل خراب ہوتا ہے نا صاحب تو غریب کا دماغ خراب ہوتا ہے ” .
دلیپ کمار نے اپنے کیرئیر کے ابتدائی دور میں بہت کم ملٹی اسٹارر فلمیں کی ۔۔لیکن جن چند بڑے اداکار کے ساتھ کام کیا ان پر چھائے رہے انداز میں راج کپور،پیغام میں راج کمار، انسانیت میں دیو آنند، سنگھرش میں سنجیو کمار ،شکتی میں امیتابھ بچپن اور سوداگر میں راج کمار شامل ہیں .
دلیپ کمار اردو ،ہندی انگلش ،ہندکو، پنجابی ،مراٹھی بھوج پوری ،گجراتی، بنگالی اور پشتو بول لیتے ہیں ۔۔ان کی اردو اور شعری ذوق سے متعلق ٹام الٹر کہتے ہیں ۔۔۔
کہ دلیپ کمار سے اپنے کیرئیر کے شروع میں پوچھا کہ اداکاری کا راز کیا ہے تو انھوں نے کہا شعر و شاعری ۔۔۔وہ اس لئے کہ جب اداکار کچھ کہتا ہے اور کیسے کہتا ہے اس انداز میں شعر و شاعری اور زبان و بیان سے چار چاند لگ جاتے ہیں
دلیپ کمار کا نام گینیز بک میں سب سے زیادہ ایوارڈ پانے والے اداکار کے طور پر درج ہے ۔پہلے فلم فئیر ایوارڈ سے دادا صاحب پھلکے اور نشان امتیاز کے علا وہ کئی انٹرنیشنل ایورڈ اس طویل فہرست میں شامل ہیں ۔
دو الگ زبانوں میں بہترین اداکار کا ایوارڈ لینے والے واحد ہیرو ہیں . ان کو ہندی اور بنگالی دونوں فلموں سے ایوارڈ ملا .
ایوارڈز اور اعزازات ساری زندگی دلیپ صاحب کے پیچھے بھاگتے رہے مگر وہ ان سے بے نیاز بس اپنے کام میں مگن رہے .
انڈیا کا پہلا ایوارڈ Bengal Film Journalists’ Association Awards ہے .یہ دلیپ صاحب کو کل
تین بار ملا . دو بار ہندی فلم اور ایک بار بنگالی فلم سگینہ کے لئے .
8 فلم فئیر ایوارڈ لے کر آج تک دلیپ کمار سب سے زیادہ ایوارڈز حاصل کرنے والوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہیں .
1944 ۔سے 1951 تک 8 سال میں دلیپ کمار کی 17 فلمز آئیں مگر تب ایوارڈز کا اجرا نہیں ہوا تھا اس لئے ان کی 17 بہترین فلمز ایوارڈ کی دوڑ میں کبھی شامل ہی نہ ہو سکیں .
دلیپ صاحب کو بار 19 فلم فئیر کے لئے نامزدگی ملی .1952 فلم فئیر کی شروعات سے 1976 تک جب دلیپ بطور ہیرو آئے ہر سال نامزد ہوئے سوائے 1972 کے
1952/1953 سے 1976 تک جب بھی فلم آئی نامزد ہوئے. ان کل 17 سالوں میں وہ 16 بار نامزد ہوۓ.
1981 سے 1998 تک 9 سال ایسے تھے جس میں دلیپ صاحب کی فلم آئی اور تین بار نامزد ہوئے.
دلیپ کمار 50 اور 60 کی دہائی کے ہائسٹ ایوارڈ ونر رہے ہیں. گنگا جمنا دلیپ کمار کی پروڈیوس اکلوتی فلم کو دوسری بہترین فلم کا نیشنل۔ایوارڈ اور کئی بین الاقوامی ایوارڈ ملے
دلیپ کمار ممبئی کے شیرف اور راجیہ سبھا کے ممبر بھی رہ چکے ہیں .
1944 سے 1998 کے 54 سالوں میں دلیپ کمار نے صرف 56 فلموں میں کام کیا اتنی کم فلموں کا اتنا گہرا اثر بتاتا ہے کہ اصل اہمیت تعداد کی نہیں معیار کی ہوتی ہے . ان کی فلمیں ماضی حال اور مستقبل کے فنکاروں کے لئے مشعل راہ ہیں . وہ اپنے دور اور اس سے قبل کی تہذیبوں اور معاشرت کو فلم بینوں تک پہنچاتے رہے . چلتی فلم عام طور پر کرنٹ افئییر یا تازہ اخبار کی طرح ہوتی ہے جو اگلے دن باسی ہو جاتی ہیں لیکن کتابیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں کیوں کہ ان میں کسی ایک چیز ، فن ، دور کا احاطہ نہیں ہوتا .
فلمی چکا چوند میں جہاں ہیرو خود اپنا کیا کام بھول جاتے ہیں وہاں پر دلیپ صاحب نے ایسا کام کیا جو کسی ایک دور یا نسل کے لئے تھا بلکہ یہ فلمیں ہر ادبی معیار پر پورا اترتے ہوۓ ہر دور کی زندہ فلمیں ہیں اسی لئے آج بھی ان کو یاد رکھا جاتا ہے اور آنے والے دنوں میں امید واثق ہے کہ ان پر مذید کام بھی ہوگا اور تقریبا ایک صدی پہلے روشن ہونے والا یہ ستارہ یونہی فلمی افق پر جگمگاتا رہے گا .