میری آواز ہی پہچان ہے ۔لتا منگیشکر

میری آواز ہی پہچان ہے ۔لتا منگیشکر
28 ستمبر 1929 – 6 فروری 2021

موسیقی کو پوری دنیا میں خاص مقام حاصل ہے لیکن اگر بات ہندوستان کی موسیقی کی ہو تو یہاں ہر پیمانے بدل جاتے ہیں۔یہاں کی مٹی میں سر تال اور لے بسا ہوا ہے۔کلاسیکل موسیقی سے پلے بیک تک یہاں پر ہر دور میں ایک سے بڑھ کر فنکار پیدا ہوا ہے۔ یہاں کی فضاؤں میں موسیقیت بھری پڑی ہے۔موسیقی سے متعلق لوگوں کو یہاں بڑی عزت و تکریم کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فن یہاں سیکھنے سے زیادہ اترتا ہے۔ خوشی کا کوئی موقعہ ہو یا تیج تہوار ہوں یہاں سنگیت کے بنا ادھورے سمجھے جاتے ہیں۔
کچھ لوگوں کو ان کا فن اونچے مقام پر پہنچاتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے فن کی پہچان بنتی ہے ۔ سنگیت کی پہچان بننے والی “نائٹ اینگل آف انڈیا” اور” میلوڈی کوئن” کہلانے والی ہستی لتا منگیشکر تھیں جو اب ہم میں نہیں رہیں۔مدھو بالا سے کاجول تک اور میناکماری سے کرینا کپور تک ہندی فلموں کی ہر بڑی ہیروئن کی آواز بن کر خوبصورت گیتوں سے لوگوں کو مسحور کرنے والی بھارت رتن لتا منگیشکر کے جانے کے بعد انڈین میوزک کا ایک عہد اختتام پذیر ہوا۔

28 ستمبر 1929 کو برٹش انڈیا کی ریاست اندور کے ایک مراٹھا برہمن دیناںاتھ منگیشکر اور شیوناتی کے گھر ایک بچی نے جنم لیا جس کا نام ہیما رکھا گیا ۔دیناناتھ منگیشکر گوالیار گھرانے کے کلاسیکل سنگر اور تھیٹر ایکٹر تھے ۔بعد میں اس بچی کا نام لتا کردیا گیا اور یہ نام ہندوستان کی موسیقی کی تاریخ میں امر ہوگیا ۔لتا پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں ۔موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے لی اور پانچ سال کی عمر سے باپ کے ساتھ تھیٹر میں کام شروع کردیا لیکن بدقسمتی سے تیرہ سال کی عمر میں دیناںاتھ منگیشکر کا انتقال ہوگیا اور کم عمر لتا پر اپنے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری آگئی ۔لتا نے یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی اور بہن بھائیوں کو سنبھالا ۔ان کی بہنیں آشا ،اوشا اور مینا بھی سنگرز ہیں ۔ان کے بھائی ہردے ناتھ منگیشکر ایک عمدہ موسیقار ہیں ۔

والد کی موت کے بعد ماسٹر ونائک نے لتا کی فیملی کو سہارا دیا ور لتا منگیشکر کو کچھ مراٹھی فلموں میں گانے اور ایکٹنگ کا موقع دیا ۔لیکن لتا منگیشکر کو ہندی سنگیت جگت کا ستارہ بننا تھا انہوں نے ایکٹنگ چھوڑدی اور 1946 میں ممبئی آگئیں ۔جہاں انھوں نے استاد امان علی خان سےکلاسیکل میوزک سیکھنا شروع کیا اور 1946 میں پہلا ہندی گانا “آپ کی سیوا میں” فلم میں دتا دویجکر کی ڈائریکشن میں گایا ۔۔
دو سال بعد ماسٹر ونایک کی موت کے بعد میوزک ڈائریکٹر غلام حیدر نے لتا کو اپنی سرپرستی میں لیا ۔غلام حیدر بڑے جوہر شناس تھے ۔انھوں نے اس سے پہلے میڈم نور جہاں کو فلم انڈسٹری میں متعارف کروایا تھا ۔۔اس دور میں فلمی سنگیت پر میڈم نورجہاں کا بہت اثر تھا ۔نورجہاں کے علاؤہ ثریا ، زہرہ بائی اور امیر کرناڈکی جیسی آوازوں کا دور تھا ۔ایسے میں لتا منگیشکر کی باریک آواز کو اکثر لوگوں نے ریجیکٹ کردیا لیکن ماسٹر غلام حیدر کو لتا کی صلاحیتوں پر یقین تھا اور انھوں نے لتا کو کئی مواقع دئیے ۔کئی موسیقاروں سے ملوایا۔ 1949 کی فلم محل میں لتا کا گایا “آئے گا آنے والا” گانا زبردست ہٹ ہوا اور جیسا کہا جاتا ہے کہ Rest is history وقت نے ثابت کیا کہ یہ باریک آواز انڈسٹری کی سب سے زیادہ طاقتور آواز بنی ۔نرگس ، وحیدہ رحمان سے مادھوری ڈکشٹ اور پریٹی زینٹا تک لتا ہر دور کی ٹاپ ہیروئنوں کی آواز بنی رہی ۔

پچاس اور ساٹھ کی دہائی ہندی سنیما کا اور میوزک کا سنہرا دور کہلاتا ہے ۔اس دور میں لتا نے چوٹی کے میوزک ڈائریکٹر نوشاد ، ایس ڈی برمن، سلیل چودھری ، انیل بسواس ، شنکر جے کشن ،سری رام چندر،خیام ،سجاد سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے میوزک ڈائریکٹر تک ہر کسی کے ساتھ کام کیا اور اس وقت کی فلم انڈسٹری میں موجود ثریا سمن کلیانپور ،اشا بھونسلے ، گیتا دت ، شمشاد بیگم اور مبارک بیگم جیسی گلوکاراوں کو پیچھے چھوڑ کر اپنی نمبر ایک پوزیشن مستحکم کرلی ۔ابتدا میں لتا کو اپنے اردو ہندی تلفظ پر کچھ تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔اس کے بعد لتا نے ایک اردو ٹیچر سے باقاعدہ اردو سیکھی ۔اس معاملہ میں لتا نورجہاں کو اپنا استاد مانتی ہیں کہ ان کی گائیکی سے لفظوں کا درست تلفظ سیکھا۔

لتا نے 1949 سے 2004 تک انڈیا کی چھتیس زبانوں میں کئی ہزار گیت گائے ۔ہندی کے علاؤہ مراٹھی ،گجراتی اور بنگالی میں لتا کے گائے گانوں کی تعداد کافی ہے ۔ان کے گائے کل گانوں کی صحیح تعداد پر اختلاف رائے ہے لیکن ہندی فلم گیت کوش کے مطابق لتا نے پانچ سے چھ ہزار کے قریب گانے گائے ۔انڈین زبانوں کے علاؤہ انگریزی ،روسی ،ڈچ اور سواحلی میں بھی گایا ۔گانوں کے لئے علاؤہ لتا نے پانچ فلموں میں میوزک بھی دیا اور تین ہندی اور ایک مراٹھی فلم پروڈیوس کی۔جن میں سے “لیکن” نے پانچ نیشنل ایوارڈ جیتے اور اس فلم میں گائے لتا کے ساتوں گانے بہت اعلی سمجھے جاتے ہیں ۔

لتا کے اعزازات کی ایک طویل لسٹ ہے ۔
انھیں 2001 میں انڈیا کا سب بڑا سوال اعزاز بھارت رتن سے نوازا گیا اس سے پہلے پدم بھوشن اور پدم وبھوشن بھی حاصل کرچکی تھیں ۔
1989 میں فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا ایوارڈ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ ملا ۔
2009 میں فرانس کا سب بڑا ایوارڈ
Officer of the French Legion of Honour
حاصل کیا ۔
3 نیشنل ایوارڈ چار فلم فئیر اور 15 بنگال فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ کے علاؤہ کئی لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز بھی ان کی لسٹ میں شامل ہیں ۔1969 کے بعد سے لتا نے فلم فئیر ایوارڈ سے خود کو الگ کرلیا تھا تاکہ نئے سنگرز کا موقع مل سکے۔مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں نے لتا کے نام سے ایوارڈ جاری کئے ہیں ۔
2012 میں لتا آؤٹ لک کے Greatest Indian پول میں دسویں نمبر پر تھیں ۔
لتا کے بارے میں بڑے غلام علی کا یہ جملہ بھی اعزاز سمجھا جاتا ہے کہ ” کمبخت کبھی بے سری نہیں ہوتی ” ۔دلیپ کمار جنھیں لتا بھائی مانتی تھی لتا کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ “لتا کی آواز قدرت کی تخلیق کا کرشمہ ہے ” ۔

لتا منگیشکر کے ساتھ کام کرنے والے میوزک ڈائریکٹرز میں چالیس کے دہائی کے نوشاد ،انیل وسواس ، غلام حیدر ، کھیم چندر پرکاش ،سری رام چندر ،پچاس ساٹھ کی دہائی سے شنکر جے کشن ، سلیل چودھری ،روشن ، مدن موہن ،ایس ڈی برمن ،کلیان جی آنند جی ستر اسی کے لکشمی کانت پیارے لال ،آر ڈی برمن ،راجیش روشن ،بپی لہری ہیں تو نوے کے ندیم شروان ، جتن للت اور اے آر حمان بھی ۔
لتا نے ابتدائی دور میں محمد رفیع ،کشور کمار ،منادت اور ہیمنت کمار کے ساتھ اپنے زیادہ تر گیت گائے ۔اسی کی دہائی تک یہ سبھی سنگرز کے دنیا چھوڑ جانے کے بعد ادت نارائن ، ابھیجیت ، یسوداس اور سونو نگم جیسے نوجوان سنگرز کے ساتھ بھی اپنی آواز کا جادو جگایا ۔اس میں ان کی کلاسیکل سنگنگ کی مہارت کے علاؤہ باقاعدہ ریاض کا کمال تھا کہ وہ پچھتر سال کی عمر میں بھی بیس سالہ ہیروئن کی آواز بن جاتی تھیں ۔

لتا نے پچاس کی دہائی سے لے کر 2000 کی اداکاراؤں کے لئے گایا ہے ۔امر ،بیجو باورا،مدر انڈیا کے کلاسیکل گیت “تیرے صدقہ بلم” اور “موہے بھول گئے سانوریا” ہو یا شنکر جے کشن کی ڈائریکشن میں ایک نوعمر لڑکی کے جذبات بیان کرتا “ہوا میں اڑتا جائے میرا لال ڈوپٹہ ” لتا کی آواز میں ہر گانا یادگار کہلایا ۔انارکلی چاہے مدھوبالا ہو اور “پیار کیا تو ڈرنا کیا ” کہہ کر اکبر بادشاہ کو للکارے یا بینا رائے کے روپ میں “یہ زندگی اسی کی ہے جو کسی کا ہوگیا ” کہہ کر ، پردے کے پیچھے سے لتا ہی نے ان بولوں کو امر کیا۔ جب گائیڈ فلم کی روزی بنی وحیدہ رحمان
آج پھر جینے کی تمنا ہے ” کہ کر معاشرے سے بغاوت کا اعلان کرتی ہے یا پاکیزہ کی میناکماری کے انتظار کا درد بیان کرتا “چلتے چلتے یوں ہی کوئی مل گیا تھا ” لتا ان کی آواز بن جاتی ہے اور یہ گانے پچاس سالوں بعد بھی ذہنوں میں تازہ ہوتے ہیں ۔نندہ چاہے “اللہ تیرو نام ایشور تیرو نام ” جیسا بھجن گائے یا “یہ سماں سمیاں ہے پیار کا ” جیسا رومانوی گیت لتا کی آواز دونوں ہی جذبوں کو اتنی خوبصورتی سے بیان کرتی ہے ۔
لتا کی خوبصورت آواز میں ساٹھ کی دہائی کی کم عمر سادھنا کی نوزائیدہ محبت کا اظہار “تیرے پیار میں دلدار جو ہے میرا حال زار ” ہو یا نوے کی دہائی کی کاجول کا “میرے خوابوں میں جو آئے ” سن کر پتہ چلتا کہ دہائیاں بھی اس آواز کے سحر کو کم نہیں کر سکیں۔
پلے بیک چاہے میر کی خوبصورت غزل “دکھائی دئیے یوں کہ بے خود کیا ” کا ہو یا “مورنی باغاں میں بولے ” جیسا لوک گیت لتا کی آواز اس کی خوبصورتی بڑا دیتی ہے ۔
1949 کی پہلی فلم سے 2004 میں ویر زارا تک گیتوں کی ایک طویل لسٹ ہے کلاسیکل ،رومانوی، بھجن ، کیبرے،غزل ، فوک ہر قسم کا گیت اس میں شامل ہے ۔فوجیوں کے لئے گایا “اے میرے وطن کے لوگوں” صرف پنڈت نہرو کو ہی نہیں رلاتا ہر سننے والوں کی آنکھ نم کردیتا ہے ۔

لتا منگیشکر نے اپنی زندگی کا سفر بنا کسی جیون ساتھی کے گذارا ۔ہندی فلم ستیم شوم سندرم اور ساز ان کی زندگی کے حالات پر بنی کہی جاتی ہے۔ فلم انڈسٹری میں لتا کے مدن موہن ،یش چوپڑا اور دلیپ کمار سے بڑا قریبی تعلق تھا۔

6 فروری کو ان کی موت پر سرکار کی طرف سے دو روزہ سوگ کا اعلان ہوا۔ ان کی آخری رسومات میں صدر رام ناتھ وزیراعظم نریندر مودی سے لے کر فلم انڈسٹری کے مشہور ستارے شاہ رخ خان تک سبھی نے شرکت کی برصغیر کے سبھی ممالک سے آئے تعزیتی پیغامات اور بی بی سے لے کر نیویارکر تک اخباروں میں چھپنے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ لتا کا نام کس طرح دنیا کے کونے کونے میں پہچانا جاتا ہے ۔
لتا منگیشکر انڈین موسیقی میں نسوانیت کی مضبوط آواز تھیں۔ان کے بعد دوسری لتا کا تصور بھی محال ہے۔ماہ و سال کی ریاضت مسلسل محنت اور کام سے محبت کی وجہ سے لتا لتا کے مقام تک پہنچی تھی۔چالیس کی دہائی سے نئی صدی تک ایک ہی لگن سے کام کرتے رہنا اور ہر نسل کے نمائندہ گیت کاروں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا لیکن لتا نے اپنے فن کو پوری ایمانداری سے برتا اسی وجہ سے ہندوستانی سینما میں لتا ایک مثال ہے۔
اپنی مدھر آواز سے تین نسلوں کے کانوں میں رس گھولتی لتا اپنی زندگی سے بھرپور آواز کی بدولت موسیقی سے محبت کرنے والے دلدادہ افراد کے دلوں میں ہمیشہ حیات رہے۔
لتا کے سنگیت کا سفر دراصل ہندی فلم کا آزادی کے بعد کے ستر سالوں کا سفر ہے ۔مختلف معاشرتی تبدیلیوں نے کس طرح گیت اور سنگیت کو بدلا اظہار کے طریقے بدلے۔ہیروئنوں کے انداز بدلے لیکن ان سب میں لتا کی آواز وہی رہی جس نے لاکھوں کروڑوں انسان کو برسوں مسحور کئے رکھا اور رکھے گی۔