پاکیزہ
پاکیزہ
تبسسم حجازی
“آپ کے پاؤں دیکھے بہت حسین ہیں انھیں زمین پر مت اتارئیے گا میلے ہو جائیں گے۔ ”
ہندی فلموں کے شائقین نے راج کمار کا یہ مشہور ڈائلاگ ضرور سنا ہوگا لیکن بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ ڈائلاگ فلم پاکیزہ کا ہے جو ہیرو ایک طوائف کے لئے کہتا ہے ۔
پاکیزہ صرف ایک فلم نہیں تھی یہ انڈین سینما میں مسلم نوابی کلچر پر بنی ہوئی ایک خوبصورت دستاویز بھی کہہ سکتے ہیں۔ اکثر فلموں کہانیوں اور قصوں میں نوابوں کو عیاش بدقماش دکھایا جاتا ہے جو ممکن ہے تاریخی طور پر درست ہو ۔لیکن ہزاروں میں دو چار اچھے کردار نہ ہوں یہ کیسے ممکن ہے۔
پاکیزہ ایک طوائف کی کہانی ہی نہیں ہے یہ مٹتی ہوئی اس نوابی تہذیب کا نوحہ بھی ہے جو اپنے تئیں اپنے دور کا ترجمان تھا جہاں سے شاید کبھی علم و ادب کے سوتے پھوٹا کرتے تھے لیکن فلمی دنیا میں نوابوں کو بس کوٹھوں تک مقید کر دیا گیا۔
پاکیزہ کوٹھے پر آنکھیں کھولنے والی طوائفوں کے خواب اور نوابوں کے محلات میں جکڑے انسانوں کی محبت کی داستان کہی جا سکتی ہے جہاں فلم بین دیکھتا ہے کہ صرف کوٹھا ہی جیل نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ بہت سے نواب بھی اپنے طلسمی چوغوں کے غلام ہوا کرتے تھے وہ شان و شوکت پر محبت قربان کر دیا کرتے تھے اور بعض محبت کے دامن میں پناہ لے کر سلطنتوں کو بھی تیاگ دینے کا حوصلہ رکھتے تھے ۔
پاکیزہ مینا کماری کی زندگی میں ریلیز ہونے والی آخری فلم تھی ۔۔یہ کہانی ہے لکھنؤ کی طوائف نرگس اور اس کی بیٹی صاحب جان کی ہے ۔ نرگس کو شہاب الدین نامی نواب زادہ سے محبت ہوجاتی ہے اور اس کی محبت میں آدھی رات کو کوٹھاچھوڑ کر اس کے ساتھ نکل جاتی ہے لیکن شہاب الدین کے والد نرگس کو قبول نہیں کرتے اور گھر سے نکال دیتے ہیں ۔نرگس قبرستان میں پناہ لیتی ہے اور ایک بیٹی کی پیدائش کے بعد اس کی موت ہوجاتی ہے۔ اس کی بیٹی صاحب جان اپنی خالہ کے پاس کوٹھے پر پرورش پاتی ہے۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے صاحب جان کو سلیم نامی فاریسٹ آفیسر ملتا ہے جو اسے اپناناچاہتا ہے اور اسے صاحب جان کی جگہ پاکیزہ کا نام دیتا ہے لیکن ایک طوائف کا ماضی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا ۔ بیٹی کا نصیب ماں جیسا ہوتا ہے یا سلیم شہاب الدین سے زیادہ مضبوط عاشق ثاںت ہوتا ہے یہ فلم دیکھنے سے ہی پتہ لگے گا ۔
یہ فلم مینا کماری اور کمال امروہی کا زندہ خواب تھی جسے کامیابی مینا کماری کی موت کی صورت ملی۔ یہ فلم مینا کماری سے شادی کے بعد 1956 میں شروع کیا تھا لیکن حالات کچھ ایسے ہوتے چلے گئے کہ فلم کو بننے میں پندرہ سال لگ گئے۔
اس بیچ فلم میں بہت کچھ تبدیل ہوا ۔اشوک کمار ہیرو کی جگہ چچا کے رول میں آگئے ۔مینا کماری اور کمال آمروہی میں علحیدگی ہوگئی ۔مینا کماری کو شراب کی لت نے جگر کے عارضہ میں مبتلا کردیا اور وہ آخری شوٹنگ کے دوران بہت بیمار رہیں۔ فلم میں ان کے ڈانس والے سین پدما کھنہ نے کئے۔ فلم کے موسیقار غلام محمد کا انتقال ہوگیا اور بیک گراؤنڈ میوزک اور کچھ گانے نوشاد نے مکمل کئے ۔
ساٹھ کی دہائی میں “مسلم سوشل” قسم کی فلمیں کافی بنی اور ہٹ ہوئیں تھیں۔ برسات کی رات ، دل ہی تو ہے ، میرے محبوب ،چودھویں کا چاند ، غزل ، بہو بیگم ۔۔۔ زوال پذیر مسلم نوابی کلچر ، لکھنؤ کی شستہ زبان اور قوالیاں غزلیں ایسی فلموں کے لازمی عناصر ہوا کرتے تھے ۔ ستر کی دہائی میں جب پاکیزہ ریلیز ہوئی یہ genre ختم ہوچکا تھا اس لئے فلم جب ریلیز ہوئی تو بہت تنقید کا نشانہ بنی اور پہلے دو ہفتوں میں فلاپ قرار دی گئی۔قدرت کا کھیل ہے کہ جو فلم سینما سے اترنے والی تھی حالات و واقعات اور ٹریجڈی کوئین کی موت سے وہ بلاک بسٹر بنی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے جینر کے حساب سے بننے والی سب سے بڑی کلاسک کہلائی بلکہ فلموں میں مٹتے ہوئے مسلم کلچر کو اگلے کئی سال تک زندہ کر دیا ۔
فلم کا سب کمزور پہلو اس کی روایتی کہانی تھی جس میں اتفاقات کی بھرمار تھی لیکن اسٹوری کی اس کمی کے باوجود فلم میں بہت کچھ ایسا تھا کہ فلم یادگار بن گئی ۔
پہلی اہم چیز تھی اس فلم کے بہترین اداکار ۔۔ مینا کماری جیسی آواز فلم انڈسٹری میں بہت کم اداکاراؤں کی ہوگی ۔۔جب وہ اپنے خوب صورت لب و لہجہ اور پر اثر آواز میں خالص اردو بولتی ہیں تو سننے والوں پر سحر سا طاری ہوجاتا ہے۔۔اس فلم کے اختتام تک مینا کماری کافی بیمار ہوچکی تھیں لیکن اس کے باوجود طوائف کے رول میں “چلتے چلتے” اور “ٹھارے ریوو” میں جو مینا کماری نظر آتی ہیں وہ کمال ہے۔ طوائف کے کردار میں مینا کماری کے بعد امراؤ جان میں ریکھا نے اس حد تک متاثر کیا ۔۔مینا کماری کے علاؤہ راجکمار ، اشوک کمار،وینا نادرہ سپرو جیسے منجھے ہوئے اداکاروں نے فلم کے ہر سین میں جان ڈال دی ۔.
فلم کی دوسری عمدہ چیز کمال امروہی کے لکھے ڈائلاگ ہیں ۔
ہر رات تین بجے ایک ریل گاڑی اپنی پٹریوں سے اتر کر میرے دل سے گذرتی ہے”
“افسوس کہ لوگ دودھ سے بھی جل جاتے ہیں ”
ہمارا یہ بازار ایک قبرستان ہے ایسی عورتوں کا جن کی روحیں مرجاتی ہیں اور جسم زندہ رہتے ہیں ۔
فلم کی آرٹ ڈائریکشن اور فوٹو گرافی ، کاسٹیوم ،سیثس یعنی فلم کی مجموعی aesthetic انتہائی جاذب نظر ہے۔ مینا کماری کی اینٹری والا گیت “ان ہی لوگوں نے” اور آس پاس کے کوٹھے پر ہونے والے رقص کا سیٹ اس وقت کے مہنگے ترین لینز سے فلمایا گیا تھا اور اس سیٹ کو بننے میں چھ مہینہ لگے تھے۔ “چلتے چلتے یوں ہی کوئی مل گیا تھا ” کی پکچرازیشن اور بیک گراؤنڈ میں بجتی ٹرین کی سیٹی ، راج کمار کی حویلی کا سیٹ ، نادرہ کا گلابی محل اور خوب صورت کمرے گلیارے سب ہی کچھ اس فلم کو ایک الگ لیول پر پہنچا دیتے ہیں۔اس فلم کی فوٹو گرافی جوزف ورشنگ نے کی تھی جو ایک جرمن کیمرہ مین تھے ۔
اس فلم کی موسیقی بہت مقبول ہوئی تھی اور آج بھی پاپولر ہے ۔۔۔ہر ایک گانا موسیقی ، الفاظ اور گائیکی کے لحاظ سے اعلی ہے ۔۔فلم میں کیفی اعظمی ، مجروح سلطان پوری اور کیف بھوپالی کے لکھے گیت ہیں ۔
ان ہی لوگوں نے لے لینا ڈوپٹہ
ٹھارے رہیو
چلتے چلتے یوں ہی کوئی مل گیا تھا
موسم ہے عاشقانہ
چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو
آج ہم اپنی دعاؤں کا اثر دیکھیں گے
دیکھ تو دل کے جاں سے اٹھتا ہے ( بیک گراؤنڈ )
پاکیزہ ایک رائٹر اور ڈائریکٹر کا خواب تھا ۔ ایک طوائف کے دکھوں کی داستان جسے قوس قزح کے خوبصورت رنگوں اور سروں سے سجا کر اس دلفریب انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ فلم بین مدتوں اس کے سحر میں جکڑا رہتا ہے۔