پل دو پل کا شاعر
پل دو پل کا شاعر ۔۔۔ساحر لدھیانوی
مرزا صہیب اکرام
عبد الحئی فضل محمد
8 March 1921 – 25 Oct 1980
ساحر کو اپنے پڑھنے اور سننے والوں سے جدا ہوئے اکتالیس سال ہوئے ہیں مگر ان کو پیدا ہوئے سو سال بیت گئے ہیں۔وقت کی رفتار حیران کن ہے ۔جنگ عظیم اول کے شعلوں سے جلتی ہوئی دنیا میں بھی نئے پیدا ہونے بچوں کو آنے سے کون روک سکتا ہے ۔ ساحر کی جوانی دوسری عظیم جنگ کے دنوں میں پروان چڑھی ۔ ساحر نے جس ملک میں شعور کی آنکھ کھولی وہ مغلوب تھا ۔ساحر نے سوچا ہوگا کہ وہ گل و گلزار کے فسانے لکھے اور مینا و بلبل کے قصیدے لکھے اور وہ حسن و جمال کے پل باندھے وہ اپنے لفظوں سے تتلی کے پر باندھے ۔ مگر حسین شاعر کو جو محبتوں کا شاعر تھا جس نے عشق بھی جب کیا وہ مثال ٹھہرا ۔ اس نے تب جو لکھا جو انسانیت کا نوحہ تھا ۔
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
وقت کے تھپڑوں معاشرے کی بے رخی حالات کے ستم دنیا میں جنگ وجدل کے ماحول ، رنگ نسل زبان بھید بھاؤ نفرت جلتے ہوئے شہر مرتے ہوئے لوگ لٹتی ہوئیں عصمتیں یہ وہ دور تھا جس نے ساحر کے اندر کے معصوم محبت کرنے والے محبت بانٹنے والے سراپا عشق انسان کو انقلابی بنا دیا ۔ وہ جوانی میں عشق و مستی کی جگہ انقلابی ترانے کہنے لگا ۔ اس وقت کے ساحر کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے جوانی کا اصلی ساحر حوادث زمانہ کی نظر ہو گیا تھا ۔لیکن جب وقت بدلا حالات بدلے زمانہ بدلا اور انقلاب کی صدا نے آزادی پائی تو ساحر کے اندر کا حساس فنکار جو لب و رخسار کی باتیں کرنا چاہتا تھا جس کو محبوب کی زلفوں کی چھاؤں میں رات بسر کرنی تھی وہ پھر سے جاگ اٹھا ۔اس نے پھر وہی لکھا جو وہ ہمیشہ سے لکھنا چاہتا تھا ۔۔
ابھی نا جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں
ابھی ابھی تو آئی ہو ،بہار بن کے چھائی ہو
ہوا ذرا مہک تو لے ، نظر ذرا بہک تو لے
یہ شام ڈھل تو لے ذرا ،یہ دل سنبھل تو لے ذرا
میں تھوڑی دیر جی تو لوں ،
نشے کے گھونٹ پی تو لوں
ابھی تو کچھ کہا نہیں ، ابھی تو کچھ سنا نہیں
ساحر کے سو سال صرف ساحر کے نہیں ہیں وہ ہندی سینما میں اچھی معیاری شاعری کے زوال سے عروج کے سو سال ہیں۔یہ ہندی سینما کو لفظ کی آبرو اور عزت کے معانی سمجھانے کے سو سال ہیں۔ یہ فلم میں گیت گاری کو زندہ رکھنے کے سو سال ہیں ۔ یہ اس انسان کے سال ہیں جس نے ہندی فلم میں مدھر گیتوں کو اس طرح سمو دیا کہ اس کے بعد شاعری کو کبھی فلم سے الگ نہیں کیا جا سکا ۔اور نہ کبھی ہندی فلم بین نے اس کے بعد کبھی فلم کو بنا گیتوں کے قبول کیا۔
تاریخی طور پر جائزہ لیا جائے تو موسیقی ہندوستانی تہذیب و تمدن کا ایک اہم حصہ ہے ۔خوشی کی تقریب ہو یا کوئی تہوار موسیقی کے بنا ادھورے سمجھے جاتے ہیں۔
ہندوستان میں موسیقی ساز سر راگ لوگوں میں مذہب کی سی عقیدت کا درجہ رکھتے ہیں۔ موسیقی سے وابستہ افراد کو ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ دیکھا جاتا ہے اس لئےجب سے ہندی فلموں نے بولنا شروع کیا تب سے موسیقی اس کا اہم حصہ بنی رہی .ابتدائی فلموں میں تو آرٹسٹ بھی ایسے لئے جاتے تھے جو گا سکیں ۔گانے والے اور موسیقی دینے والے گھرانے تو وہاں صدیوں سے موجود رہے لیکن جب ہندی فلم انڈسٹری نے عروج پایا شروع کیا تب صف اول کے شعرا نے بطور گیت کار فلموں میں جان ڈالنا شروع کی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ انڈین سنیما میچور ہوتا گیا اور ساتھ ہی فلموں میں موسیقی اور گانوں کا انداز بھی بہتر ہونے لگا۔
شروعات میں فلمی گیت لکھنے والوں میں مجروح سلطان پوری ، شکیل بدایونی ،شیلندر راجا مہدی علی خان کی شمولیت ہوئی اور فلمی گیتوں میں شاعری کا معیار اونچا ہوتا گیا پھر 50 کی دہائی کی ابتدا میں ایک لفظوں کے جادوگر نے فلموں کی دنیا میں قدم رکھا اور فلمی گیتوں کے معیار کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ ان کا سحر اب بھی لوگوں پر طاری ہے ۔۔ ساحر سے قبل بہت بڑے بڑے گیت گار انڈسٹری کو ملے اور ساحر کے بعد یہ سلسلہ آج تک جاری ہے جب تک فلمیں بنتی رہیں گی فلمی گیت لکھے جاتے رہیں گے لیکن ساحر کے قلم جیسا انداز گہرائی اور خوبصورتی دوبارہ شاید ہی ہندی اور اردو فلم انڈسٹری کو نصیب ہو ۔
ساحر کی پیدائش کریم پورہ ،لدھیانہ کے ایک زمیندار گھرانہ میں ہوئی ان کے والد چودھری فضل محمد کا تعلق گجر برادری سے تھا ۔ان کے بچپن میں والدین کی طلاق ہوگئی اور ساحر نے اپنی ماں سردار بیگم کے ساتھ بچپن گزارا اور کافی معاشی سختیاں برداشت کی ۔ان کے والد نے ان کی کسٹڈی کے لئے کیس کیا تھا جس کے باعث ساحر کے اپنے والد سے تعلقات خوشگوار نہیں رہے۔
ابتدائی تعلیم لدھیانہ کے خالصہ اسکول میں ہوئی اور پھر گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں ہوئی اردو اور فارسی کی تعلیم مولانا فیض ہریانوی سے حاصل کی۔ساحر اپنے کالج کے دنوں میں بھی اپنی شاعری اور تقریروں کے لئے مشہور تھے ۔انیس سال کی عمر سے وہ مشاعروں میں مقبول تھے ۔
ساحر کی زندگی میں تین عورتوں کا اہم کردار رہا ۔۔ایک ان کی والدہ ،دوسری امریتا پریتم جس کے عشق اور جدائی نے امریتا اور ساحر کے نامکمل عشق کو زندہ رکھا اور تیسری سدھا ملہوترہ تھی جس نے ساحر کے بہت سے نغموں کو آواز دی۔
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ساحر تعلیم کے بعد 1943 میں لاہور چلے گئے اور صرف چوبیس سال کی عمر میں 1945 میں اپنا پہلا اور اکلوتا مجموعہ کلام ” تلخیاں ” شائع کیا ۔۔ادبی زندگی کا آغاز ہوا تو کئی رسالے جیسے ادب لطیف ،شاہ کار کی ادارت سنبھالی۔۔ساحر پروگریسیو رائٹرز ایسوسی ایشن کا ممبر تھے۔ ساحر جب ممبئی کو گھر بنانے آیا تب اس کے پڑوسی گلزار اور کرشن چندر جیسے بڑے لوگ تھے ۔ساحر کے بنگلے کا نام پرچھائیاں تھا جو ان کی ایک طویل نظم بھی ہے ۔
تقسیم ہند کے بعد اپنے اشتراکی نظریات اور آواز آدم جیسی انقلابی نظموں کے باعث ساحر پاکستانی حکومت کے زیر عتاب رہا اور آخر کار ساحر انڈیا پہنچا۔پہلے دہلی اور پھر ممبئی کا رخ کیا ۔نظم آواز آدم میں استعمال ہونے والا مشہور فقرہ ” ہم بھی دیکھیں گے” بعد ازاں فیض کی نظم بھی استعمال ہوا ۔
ساحر لدھیانوی نے تعداد کے اعتبار سے صرف 750 کے قریب گیت لکھے اور پانچ دہائیوں میں کل 120 کے قریب فلموں کے لیے قلم اٹھایا لیکن ان کے قلم کی عظمت اور معراج کا تعلق تعداد سے لگایا بھی نہیں جا سکتا اس کا ایک ایک گیت اور گیت کا ایک ایک مکھڑا دوسروں کے کئی گیتوں پر بھاری پڑتا تھا ۔ ساحر کے گیت صرف پردہ سیمیں پر چند دن یا چند ہفتے کے لیے لکھے نہیں جاتے بلکہ وہ ان ادبی معیارات پر پورا اترے تھے جن کو کبھی مٹایا یا بھلایا نہیں جا سکتا ۔ ساحر نے اپنے خیال جذبات اور سوچ کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے فلم کا سہارا لیا ۔ اس نے گیت چاہے فلموں کے لیے تحریر کیے لیکن لفظ لفظ میں اس کا اپنا جھلکتا عکس سب کو نظر آتا رہا ۔
ساحر لدھیانوی بنیادی طور پر عمدہ شاعر تھے ان کا فلموں کے لیے گیت لکھنا حیران کن امر تھا کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ فلمی گیت معیار کے اعتبار سے معمول کی شاعری سے کم تر ہوتے ہیں اور گیت کار فلم کی کہانی اور سچوئشن کا پابند ہوتا اور جب انسان پابند ہو جائے تو اس وقت یہ گمان رہتا ہے کہ تخلیق پوری طرح بیان نہیں ہوئی لیکن ساحر نے اس روایت کو بدل دیا اور فلمی گیتوں کو آفاقیت عطا کی ۔
1940 کی دہائی کے آخری سالوں میں ساحر لدھیانوی نے فلم انڈسٹری میں قسمت آزمائی کا فیصلہ اور ممبئی آکر فلموں میں بطور گیت کار لکھنا شروع کیا ان کی پہلی پہلی فلم “آزادی کی راہ” تھی لیکن وجہ شہرت 1951 کی فلم “بازی” بنی۔۔جس کا مشہور گیت آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں توانا ہے ۔
تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنالے
اپنے پہ بھروسہ ہے تو ایک داؤ لگالے
اس فلم سے ساحر اور ایس ڈی برمن کا ساتھ شروع ہوا اور جس کا عروج پیاسا میں نظر آتا ہے جو ایک شاعر کی زندگی پر بنی فلم تھی جس کی ہائی لائٹ ساحر کی شاعری تھی ۔جس میں ساحر نے غزل ،نظم سے لے کر مزاحیہ گیت تک تمام رنگ کینوس پر بکھیر دئیے اور فلم کو امر کر دیا۔
کہاں ہیں کہاں محافظ خودی کے
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا
تنگ اچکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
سر جو تیرا چکرائے ۔۔
ساحر نے فلموں میں لکھنے کے باوجود اپنی شاعری کا انداز اور معیار قائم رکھا۔۔بلکہ اردو شاعری کو زبان زد عام کردیا ۔چاہے وہ نیا دور میں مزدوروں کی آواز بنتا جیسا شہکار ہو ۔
“ساتھی ہاتھ بڑھانا
ایک اکیلا تھک جائے گا
مل کر بوجھ اٹھانا ”
اسی طرح ںے روزگاری کا درد بیان کرتا ہوا ان کا گیت آج بھی حالات کی عکاسی کرتا ہے ۔
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا
اور جب وہ عورت ذات کے رنج و الم بیان کرتے ہیں تو قلم توڑ دیتے ہیں ۔ان کے قلم کی عظمت اس بلندی پر جا پہنچتی ہے جہاں کسی دوسرے کا کبھی گزر نہیں ہوتا ۔
عورت نے جنم دیا مردوں کو
مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا
جب جی چاہا دھتکار دیا
ساحر جب تصوف کے رنگ اپناتے ہیں تب وہ ایک نئے ساحر محسوس ہوتے ہیں ۔جس کے قلم سے صوفی ازم کی برسات ہوتی ہے ۔
نہ تو کارواں کی تلاش نہ رہ گذر کی تلاش ہے
جو دوا کے نام پر زہر دے اس چارہ گر کی تلاش ہے
ساحر لدھیانوی جب سماج کی بات کرتے ہیں تب وہ کسی کاسہ لیس کی طرح خوشامد نہیں کرتے بلکہ وہ دھرم اور معاشرے کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کو للکار کر ان پر سر بازار طنز کے نشتر پھینکتے ہیں ۔
سنسار سے بھاگے پھرتے ہو
بھگوان کو تم کیا پاؤگے
اس لوک کو اپنا نہ سکے
اس لوک میں بھی پچھتاو گے
جب یہ انمول شاعر اور گیتوں کا بادشاہ لفظوں سے فلسفہ کے گنجلک مسائل کی گرہیں کھولتا پے تو پڑھنے سننے والے ششدر رہ جاتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ساحر شاعر کم اور فلسفی زیادہ ہوں۔
آگے بھی جانے نہ تو پیچھے بھی جانے نہ تو
جو بھی ہے یہی ایک پل ہے
کبھی عشق کا ایک ابدی رنگ لیے لکھتے ہیں۔
جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا
روکے زمانہ چاہے روکے خدائی تم کو آنا پڑے گا
ساحر گل و گلزار کا شاعر تھا اس کے گیت باغ و بہار کے قصوں سے مزین تھے لیکن وہ جب غم دوراں اور غم ہجراں کے دکھ بیان کرتا ہے تو اس کے قلم سے جو شہ پارے نکلتے ہیں وہ کاملیت کے درجے پر فائز ہوتے ہیں ۔
زندگی صرف محبت نہیں کچھ اور بھی ہے
زلف و رخسار کی جنت نہیں کچھ اور بھی ہے
بھوک اور پیاس کی ماری ہوئی اس دنیا میں
عشق ہی ایک حقیقت نہیں کچھ اور بھی ہے
تم اگر آنکھ چراؤ تو یہ حق ہے تم کو
میں نے تم سے ہی نہیں سب سے محبت کی ہے
تعلق کی پیچیدگی کو ساحر سے زیادہ خوبصورت انداز میں شاید ہی کبھی کوئی بیان کر سکا ہے ۔وہ محبت کے قائل ہیں وہ الفت کے دلدادہ ہیں لیکن وہ تعلقات محبت و الفت اور قربت میں بھی ایک خاص معیار کے قائل ہیں ۔
تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
ہر بڑا شاعر جب زمانے پر طنز کرتا ہے تب اس کی اپنی ذات بھی اس سے محفوظ نہیں رہتی اسی لیے ساحر سے خود ساحر بھی اکثر طنز سہتا دکھائی دیتا ہے ۔
کل کوئی مجھ کو یاد کرے
کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے
مصروف زمانہ میرے لیے
کیوں وقت اپنا برباد کرے
ساحر کی شاعری اور گیت صرف محبوب کی زلفوں تک محدود نہیں تھے وہ اس وقت بھی انقلاب کے خواب دیکھتا تھا جب بڑے بڑے انقلابی حالات کے ستم سے بدل گئے تھے ۔وہ جانتا ہے کہ خلق خدا جب جاگ اٹھتی ہے تب انسانیت کا مقدر بیدار ہو جاتا ہے اور وہ پورے یقین اور دعوے سے معاشرے کے ظالم طبقات کر للکار کر آنے والے وقت کی نوید سناتا ہے اور ان کو بتانا چاہتا ہے اب وقت کی نبض بیمار میں جان پڑنے والی ہے اور بے بس طبقہ اپنے حق کی آواز اٹھانے کو ہے ۔
دبے گی کب تلک آواز آدم ہم بھی دیکھیں گے
رکیں گے کب تلک جذبات برہم ہم بھی دیکھیں گے
چلو یوں ہی سہی یہ جور پیہم ہم بھی دیکھیں گے
در زنداں سے دیکھیں یا عروج دار سے دیکھیں
تمہیں رسوا سر بازار عالم ہم بھی دیکھیں گے
ذرا دم لو مآل شوکت جم ہم بھی دیکھیں گے
ساحر کی شاعری کافی حد تک فیض سے متاثر تھی۔ اس کی شاعری میں روایتی حسن و عشق کے بیان کی جگہ زندگی کی تلخیوں کا ذکر زیادہ ملتا ہے ۔
جنگ کی بے فیضی ، کسانوں کی حالت زار ، سرمایہ دارانہ نظام کی برائیاں الغرض ساحر زمانے میں موجود ناہمواریوں اور برائیوں کا زکر کرتا ہے وہ روایتی عشق ہ محبت سے آگے بڑھ کر دنیا کر درپیش مسائل پر آنسو بہاتا ہے ۔
یہ کوچے یہ نیلام گھر دل کشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
ساحر کے محبت کے نغمے بھی یاس ،کڑواہٹ اور طنز سے بھرے ہوتے تھے ۔۔تاج محل جو محبت کی نشانی سمجھا جاتا اس کے بارے میں ساحر کہتا ہے۔۔۔
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
سیاست دانوں کا اقلتیوں کو خوش کرنے کے لئے منائی گئی غالب کی برسی پر ساحر خوش نہیں ہوتا بلکہ مزید افسردہ ہوجاتا ہے ۔
جس عہدِ سیاست نے یہ زندہ زباں کچلی
اس عہد سیاست کو مرحوم کا غم کیوں ہے
غالبؔ جسے کہتے ہیں اردو ہی کا شاعر تھا
اردو پہ ستم ڈھا کر غالبؔ پہ کرم کیوں ہے
ساحر لدھیانوی کے فلمی کام کا ذکر کیا جائے جائے تو ساحر 1940 سے 1949 تک کل 1 فلم کے لیے گیت لکھے ۔ پھر 1950 سے 1959 تک 44 فلموں کے لیے قلم اٹھایا ۔ اسی طرح 1960 سے 1969 تک 40 فلموں کے لیے گیت کاری کی اور اس کے بعد 1970 سے 1979 تک 26 فلموں میں بزور قلم جان ڈال دی ۔1980 سے کے کر 1989 تک 8 فلموں کے لیے گانے تحریر کیے ۔5 دہائیاں لکھنے والے عظیم شاعر نے کل 120 کے قریب فلموں کے لیے لکھا اور 750 گانوں سے ہندی فلموں میں نئی شاعرانہ روایات کو جنم دیا ۔ جو آج تک قائم ہیں۔
ساحر لدھیانوی ہر عہد کے نمایاں گیت کار ہیں ۔ ان کے قلم سے جو نکلا وہ انسان کی امانت تھی وہ معاشرے کے دکھ تھے وہ انصاف کی بات تھی وہ ظلم و جور کے قصے تھے وہ انقلاب کے خواب تھے وہ انسانی حقوق کی صدا تھی ۔ ساحر نے لفظوں کے طوطا مینا کہ جگہ گہرائی معنویت کے ساتھ بلندی پرواز جاری رکھی اور اپنا ہر حرف زندہ کر دیا اسی وجہ سے ساحر کے گیت آج بھی زندہ ہیں اور آج بھی انسان اور معاشرہ اسی خواب کو حقیقت کی زندگی عطا کرنا چاہتا ہے جو ساحر کے قلم سے نکلا تھا ۔ وہ سچا شاعر تھا اس لیے اس کا قلم کھرا تھا اور اس کا لہجہ ترش تھا لیکن اسے کسی کی خوشنودی یا چاپلوسی کی ضرورت نہیں تھی اس نے اپنا لفظ لفظ دل سے لکھا اور دماغ سے اس کے حسن میں اضافہ کیا تاکہ پڑھنے والوں کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں کہ ساحر کا پیغام اس کی سوچ و خیال دس بیس برس کا قصہ نہیں ہے یہ زمان و مکان سے بلند تصورات ہیں اور یہ وہ معیارات ہیں جن پر چل کر ہی دنیا امن و شانتی محبت و الفت اور سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے ۔
ساحر کی وفات 25 اکتوبر 1980 کو انسٹھ سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک سے ممبئی میں ہوئی ۔اور تب فلمی گیتوں کا بے تاج شہنشاہ دنیا سے کنارہ کر گیا ۔ لیکن اس کے قلم کی گونج آج بھی ہندی فلموں میں زندہ ہے ۔