پل صراط
پل صراط
سمیرا عابد
بچپن ایک عجیب تجربہ ہے۔ جو باتیں اس دور میں سماعت سے گذر کر ذہن پر دستک دیتی ہیں، وہ یادداشت نہیں، شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس دور میں سامنے آنے والی باتوں پر اتنا یقین ہو جاتا ہے کہ بعد کی زندگی میں ملنے والی معلومات بھی اسے دھندلانے سے قاصر رہتی ہیں۔ صغریٰ کے بچپن کی عید قرباں پہلے پہل تو صرف اچھے کپڑوں اور قریبی میدان میں آنے والے جھولے لینے تک محدود تھی۔ عمر کی سیڑھیاں طے کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مہمان، باورچی خانہ اور دسترخوان شامل ہوتا گیا۔ لیکن سکول کی سہیلیوں سے سنی ہوئی ایک روایت ہمیشہ اس کے لیے عید قرباں کے تصور سے موسوم رہی کہ قربانی کرنے والا قربانی کے جانور پر بیٹھ کر چشم زدن میں پل صراط عبور کر لے گا۔جب پہلی بار اسے یہ روایت پتہ چلی تو اس نے اپنے اکلوتے بکرے کو دیکھتے ہوئے اپنے بھائی بہنوں کو گننا شروع کیا۔۔۔ شبیر، بشری، رضیہ، میں، منیر، طاہرہ، ساجدہ، صغیر۔۔۔ لو آٹھ تو یہ ہو گئے۔۔ اماں اور ابا۔۔۔ دو بندے۔ آخر دس لوگ ایک بکرے پر بیٹھ کے کیسے پار اتر سکتے ہیں۔ جیسی روایات گھر میں رواں دواں تھیں ان کی روشنی میں قرین قیاس تو یہ تھا کہ ابا بڑے بھائی کو لے کر پل عبور کر لیں گے اور باقی سب وہیں، اسی کنارے کھڑے رہ جائیں گے۔ اس پریشانی نے اس کے ننھے سے دل کو گھیرے میں لے لیا۔ عید کے بعد کئی دن وہ اسی موضوع پر سوچتی رہی، پھر بھول بھال گئی۔ اگلے سال عید آئی تو قربانی کے لیے ایک چھترا لیا گیا۔ صغریٰ پھر سے اپنے حساب کتاب میں جت گئی۔ تو اس بار کے چھترے پر اماں اور منجھلا بھائی چلے جائیں گے۔ لگتا ہے کہ دو تین برس میں اتنے بکرے قربان ہو جائیں گے کہ ہم سب باسہولت پل صراط پار کر لیں۔
اس سے اگلے سال کی عید قرباں اس کے لیے نئی الجھن لائی۔ قربانی کی تیاری ہو چکی، قصائی آ گیا تو ابا نے اماں کو بلایا، ’باقرہ خاتون! آؤ، قربانی کے جانور اور چھری پر ہاتھ پھیرو۔‘ صغریٰ کچھ سمجھ نہیں پائی۔ اماں تمتماتے چہرے کے ساتھ اندر آئیں تو وہ ان کے کاندھے سے جھول گئی، “اماں! آپ نے بکرے کو کاٹا؟”
“نہیں چندا، میں نے تو صرف ہاتھ لگایا۔” اماں نے دلار سے کہا.
“کیوں؟” صغریٰ کا سوال تیار تھا۔
“اس لیے بیٹا کہ اس بار تمہارے ابا نے میرے نام کی قربانی کی ہے۔” اماں نے مسکرا کے بتایا۔
“تو کیا یہ ہم سب کی قربانی نہیں ہے؟” صغریٰ منمنائی۔
“سب کی ہے بیٹا، مگر ایک بکرا کسی ایک کی جانب سے ہی قربان ہوتا ہے۔ ہاں بڑاجانور مثلاً گائے، بیل، اونٹ ہو تو اس میں سات حصہ دار ہو سکتے ہیں۔”
اماں اپنے کاموں میں مصروف ہو گئیں اور صغریٰ کو ایک نئی ادھیڑ بن میں چھوڑ گئیں۔ بھائی بہنوں کی بات چیت سے یہی اخذ ہوا کہ قربانی تو ابا یا اماں کی جانب سے ہی ہوتی ہے اور وہ یونہی بکرے پر سواری کا شرف حاصل کرنے کے چکر میں تھی۔اب اسے پل صراط پر سے گزرنے کی فکر لاحق ہونے لگی تھی۔ یوں بھی وہ عمر کے اس حصے میں تھی جہاں سر سے دوپٹہ اترنے کے نتائج و عواقب پل صراط سے نیچے گرنے کی وعید ثابت ہوتے تھے۔ مشکل سوال تھا۔۔۔کسی سے پوچھنے کا یارا نہ تھا۔ ہمارے متوسط گھرانوں میں عموماً سوال کی اجازت نہیں ہوتی۔ جواب کی گنجائش نہیں ہوتی اور الجھن کا سرا نہیں ہوتا۔
اسی کھد بد میں سال گزر گیا۔ اگلی عید قرباں سے کچھ عرصہ قبل چچا زاد بہن کی شادی ہوئی۔ عید پر جب وہ اپنے والدین سے ملنے آئی تو صغریٰ بھی چچا کے گھر تھی۔ ثانیہ سے ملاقات ہوئی تو اس نے اگلے روز اسے گھر آنے کی دعوت دی۔ ثانیہ نے شرماتے ہوئے بتایا کہ عید کے دوسرے دن نئے دلہا دلہن کے نام کی قربانی ہے لہٰذا وہ مصروف رہے گی۔ صغریٰ کو افسوس تو ہوا لیکن اپنے ان کہے سوال کا جواب ملنے پر خوشی بھی ہوئی۔ اچھا۔۔۔ تو میرے نام کی قربانی تب ہو گی جب میری شادی ہو گی۔
وقت پر لگا کر اڑا۔ صغریٰ کی شادی جس سے ٹھہری، وہ تعلیم میں تو کفو نہ تھا، تاہم مالی حالات میں اس کے اہل خانہ کے بین بین ہی تھا۔ بری کے معمولی جوڑوں اور آرٹی فیشیل زیورات نے اسے آزردہ تو کیا لیکن اتنا نہیں جتنا وہ عید قرباں پر ہوئی۔ اس کے سسرال میں قربانی کی ہی نہیں گئی۔ اسے اس مسئلے کا ایک ہی حل مناسب لگا سو اگلے کئی برس اس نے قربانی کے لیے پیسے جمع کرنے میں صرف کر دیے۔ اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات کو نظر انداز کر کے وہ پیسے جمع کرتی لیکن عید قرباں سے پہلے کوئی ضرورت ان پیسوں کی قربانی طلب کر لیتی اور صغریٰ کا پل صراط پار کرنے کا منصوبہ ادھورا رہ جاتا۔ اب صغریٰ نے اس مسئلے کا ایک اور حل نکالا۔۔۔ اس نے ایک قریبی سکول میں نوکری کر لی۔ گھریلو ذمہ داریوں اور پیشہ ورانہ مصروفیات کے درمیان گھن چکر بنی وہ دن بھر مصروف رہتی۔ اس نے دوگنی تھکن خود پر لاد لی تھی لیکن پل صراط پار کرنے کے لیے اسے یہ بھی گوارا تھا۔
پائی پائی جوڑ کے وہ شادی کے گیارہویں برس اس قابل ہو گئی کہ قربانی کر سکے۔ شوہر سے بات کی تو پہلے تو وہ یہ درد سر لینے پر آمادہ ہی نہیں تھا، لیکن صغریٰ کے اصرار پر رضامند ہو گیا۔ بکرا آیا تو اس نے بکرے کی منحنی ٹانگوں کا اپنے پھیلے ہوئے وجود سے موازنہ کیا۔۔ کیا وہ اس کا وزن سہار پائے گا؟ قربانی کے دن قصائی آیا تو وہ منتظر تھی کہ اسے بیرونی صحن میں بلایا جائے اور وہ چھری اور بکرے پر ہاتھ پھیرے۔۔ لیکن وہ منتظر ہی رہ گئی۔ وہ گم سم سی دوپہر کے کھانے کے برتن دستر خوان پر چن رہی تھی کہ اس کا شوہر اپنے بھائی سے گویا ہوا، “برسوں سے آرزو تھی کہ اماں مرحومہ کے نام کی قربانی کرتا۔۔ آج یہ خواہش بھی پوری ہو گئی۔” اس کا فخریہ لہجہ صغریٰ کو سن کر گیا۔ شوہر سے کچھ کہنے کا فائدہ ہی نہیں تھا، کیونکہ وہ سننے کے لیے نہیں، کہنے کے لیے بنا تھا۔ اگلے سال کی قربانی ابا مرحوم کے نام کی ہوئی۔ ایک اور برس سرک گیا۔ اس نے سوچا، تیرہ برس ہو گئے ہیں شادی کو۔۔ اب تو بات کی جا سکتی ہے۔ ڈرتے ڈرتے اس نے شوہر سے کہا کہ اس بار میرے نام کی قربانی کر دو۔ تو نہ جانے کیوں شوہر مشتعل ہو گیا۔
“تیرے نام کی قربانی کیوں؟ کمائی کی دھونس دیتی ہے۔۔۔ بے غیرت! تو اس قابل ہی نہیں ہے کہ گھر سے نکلے۔۔ گھر بیٹھ۔۔۔”
صغریٰ کا دل بھی بیٹھ گیا اور وہ بھی گھر بیٹھ گئی۔ جب پل صراط پار نہیں کرنا تو خواری سے فائدہ؟ برس گذرتے رہے۔۔۔ بچوں کو بیاہتے ہوئے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ اب کمائی بچوں کے ہاتھوں سے آ رہی تھی اس لیے اس کے ہاتھوں تک پہنچتے پہنچتے مزید سکڑ جاتی۔ رہی عید قرباں تو وہ صغریٰ کے لیے اب کچن کی نگرانی تک محدود تھی یا گوشت کے حصے کرنے تک۔
لیکن اس بار، شادی کے چھبیس برس کے بعد کی عید قرباں اسے اپنے خوابوں کے پورے ہونے کا اشارہ دے رہی تھی۔اس کے بیٹے نے ایک کی بجائے دوبکرے لئے تھے۔ کہنے کی عادت تو اسے نہ تھی تاہم وہ تصدیق کرنا چاہتی تھی کہ اپنے دل کو ایک دیرینہ خواہش کے پورا ہونے کی نوید دے سکے۔ بیٹا پاس آکے بیٹھا تو اس نے بڑے پیار سے کہا،’ماشا اللہ، اس بار تو ہمارے گھر بھی دو دو قربانیاں ہوں گی۔ مجھے ہمیشہ سے ہی ارمان رہا ہے۔۔۔” اس کی بات ابھی مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ بیٹے کے الفاظ اس کے کانوں میں پڑے، “جی اماں، علینہ کی خواہش تھی کی اس کے نام کی قربانی ہو، اس لیے ایک میری اور ایک علینہ کی جانب سے قربانی ہے.”
تاریخ کا دائرہ مکمل ہو چکا تھا، بس وہ دائرے سے باہر کھڑی رہ گئی تھی۔