چشمہ
چشمہ
حمیرا ثاقب
شردھا نے پہلے آنکھیں سکیڑی تھیں ۔ پھر پھیلائی تھیں اور ان کو ہلکے ہلکے مسلا تھا ۔
“ممی! کب سے آپ سے کہہ رہی ہوں۔ ۔۔۔۔آنکھیں چیک کر وانی ہیں۔۔۔۔۔ آپ کو پرواہ ہی نہیں۔
” دیدی تم کونسا ڈاکٹر بن رہی ہو جو پڑھ پڑھ کر چشمہ لگنے کی نوبت جائے۔۔۔۔” پندرہ سالہ آشوتوش نے مسکراہٹ دبا لی تھی۔
” تم نہ سدھرنا!! ایسے ہی مذاق بنا دیتے ہو اور ممی بھی بات ٹال دیتی ہیں۔۔۔۔شردھا نے دانت کچکچائے تھے
ان کی ممی مسز ندھی رانا اپنی سوچوں میں گم دھڑا دھڑ لوکی کاٹے جا رہی تھیں۔
ہے بھگوان !! شردھا نے اپنے حسابوں سائرہ بانو کی بہترین نقل اتاری تھی … کیونکہ اسے سائرہ بانو کی اوائل دور کی فلمیں بہت پسند تھیں ۔۔
آشو!ممی تو یہاں موجود ہی نہیں ہیں …. اس نے آشو کے ہاتھ پر ہاتھ مارا تھا ۔۔۔ دونوں ہنسنے لگے اور ان کی ممی چونک کر متوجہ ہوئیں۔۔۔۔”کک کیا ہوا”
” جائیں ممی … مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی —
شردھا مصنوعی غصہ دکھاتی اُٹھ گئی تھی۔ — کیونکہ اصلی غصہ دکھانے کی کوئی وجہ ہی نہ تھی ۔۔۔ شردھا جانتی تھی کہ ماں تبھی ڈاکٹر کے پاس لے کر جائے گی جب اس کے پتی پرمیشور اس بات کا انتظام کریں گے۔۔۔۔۔
زمانے کی اونچ نیچ سے قدرے ہٹ کررہتا بستا یہ مختصر سا کنبہ ممبئی کے کاندیولی (Kandivale) علاقے میں رہائش پذیر تھا اور ابھی حال ہی میں شردھا نے میں KPB Hinduja College BBA in Digital Business کے میں داخلہ لیا تھا ۔۔۔ کالج اُس کے گھر سے اتنا بھی دور نہ تھا کہ کسی vehicle کی ضرورت پیش آتی مگر پھر بھی مسٹر پرکاش رانا نے ‘ جو کہ اس کے پپا تھے ،اسے بہت پیاری گرلش سی سکوٹی لے دی تھی ۔
اور انہیں پپا کی وہ منت کر ہاری تھی کہ ماں کے ساتھ ojas Eye Hospital سے آنکھیں چیک کروا لے ۔۔۔ مگر ” دونوں اکیلے کیسے جاؤ گی ” ۔ کہہ کر وہ ٹال دیتے ۔۔۔۔ یوں شردھا کا مسئلہ جوں کا توں تھا ۔۔۔ وہ محسوس کر رہی تھی کہ اُس کی نظر کافی کمزور ہو گئی ہے ۔۔
شردھا کی کلاسز ختم ہو چکی تھیں ۔۔۔ اُس نے سواتی اور ہیما کو بائے بائے کہتے ہوئے سکوٹی کا سٹینڈ اتارا ہی تھا کہ اُس کا موبائل بج اٹھا ۔۔ –
” جی پپا ”
شردھا میں کالج کے گیٹ پر ہوں آجاؤ ہاسپٹل چلتے ہیں۔ پرکاش رانا نے جلدی سے کہہ کر بات ختم کی تھی ۔۔۔
” پپا بھوک سے جان نکل رہی ہے ” وہ منمنائی تھی ۔ ۔۔
“آ جا بیٹا تجھے پرمود کا منچورین کھلا دوں گا ۔۔ اب
میں نے اپائنٹمنٹ لے لی ہے” ۔انہوں نے بیٹی کو چمکارا تھا ۔۔۔
شردھا نے باہر آ کر باپ کی گاڑی دیکھ لی تھی۔۔۔۔
دونوں باپ بیٹی اپنی اپنی گاڑی پر آگے پیچھے چل پڑے تھے۔۔۔۔
شام کو گھر کے کامن روم میں آرام دہ صوفے میں دھنسی شردھا۔۔۔۔۔ ہنس ہنس کر آشوتوش کو ہسپتال کی روداد سنا رہی تھیں۔۔۔۔۔
” آشو !! تم کبھی وہاں ہوتے نا !! تو منڈی ہلا ہلا کر کبھی اس کو دیکھتے ۔۔۔ کبھی اس کو۔۔۔۔”
” پاگل سمجھا ہے کیا ؟ ممی دیکھیں دیدی کو ۔۔۔۔ ” آشو برا مان گیا۔۔۔۔
” ویسے چشمہ تو بڑھیا ہے تیرا ” ممی نے اپنی ناک پر چشمہ جمایا تھا ۔۔۔۔۔ سب ان کو دیکھ کر ہنسے تھے ۔۔۔۔
ندھی ! چائے نہیں ملے گی آج ؟ پپا نے ممی کو مخاطب کیا تھا ۔۔۔۔۔
” ادرک نہیں ہے آج ۔ اس آشو کو کہا بھی تھا میں نے کہ لے آئے” ندھی نے اٹھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
” کوئی نہیں بنا ادرک کے بھی تم سوادش ہی بناتی ہو۔۔۔۔۔”
پرکاش رانا نے اچھے پتی کا فرض نبھایا تھا ۔۔۔ ممی سرشار ہو کر کچن میں چلی گئی۔۔۔۔۔
شردھا آئینے کے سامنے پوز بنا بنا کر خود کو دیکھے جا رہی تھی سٹائلش ساچشمہ اُس کے بھولے بھالے معصوم حسن کو اور نکھار رہا تھا ۔۔۔
ہیڈ آف دا ڈیپارٹمنٹ کے روم کے باہر کھڑی شردھا نے اپنی سانسیں درست کی تھیں اور دروازے پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔درواز کھلا ہوا تھا اور شردھا چونکی تھی۔۔۔۔۔
اندر کا منظر اُس نے دھڑ دھڑ کرتے دل کے ساتھ دیکھا تھا۔۔۔۔
History of Digital Business
کی ٹیچر پرگتی ورما نے تیزی سے اپنے کپڑے درست کئے تھے اور ہیڈ آف دا ڈپارٹمنٹ ونود مشرا سے دور ہو گئی تھی ۔۔۔ ونور نے قہر آلود نظروں سے شردھا کر دیکھا تھا —
شردھا بھاگ کر سیڑھیوں کی طرف گئی تھی اور پھر نیچے جا کر سانسیں درست کرنے لگی تھی ۔۔۔
” اے شردھاـ!! ” ماں نے اُس کا کندھا ہلایا تھا۔۔۔۔
” ہاں-!! ہاں ممی کیا ہوا؟” نوالہ ہاتھ میں پکڑے شردھا چونکی تھی ۔۔ ” کیا ہوا ہے کب سے بیٹھی ہو نوالہ ہاتھ میں لیکر ” ماں نے پوچھا تھا ۔۔۔۔۔” کچھ نہیں مممی-! سر میں درد ہے ۔۔۔۔”
” تو کھانا تو دھیان سے کھا ۔ نہ ناشتہ ڈھنگ سے کرتی ہے نہ کھانے کی کوئی فکر ہوتی ہے — ” ممی متفکر ماؤں کی طرح چالو ہو گئی تھی ۔۔ پہلے شردھا نے سوچا کہ ماں کو بتادے مگر پھر اسے یاد آیا کہ اگلے مہینے ڈپارٹمنٹ کا ٹرپ اگت پوری جا رہا ہے ۔۔۔ ایسی کوئی خبر سن کر ممی کسی طور جانے نہ دے گی اور سواتی اور ہیما نے اس کی جان کھا جانی تھی۔۔اس لیے وہ چاہتے ہوئے بھی چپ رہی ۔۔۔
تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی شردھا اپنے سے اگلی سیڑھی پر کیوٹکس لگے پاؤں دیکھ کر بے اختیار رکی تھی۔ نظریں اوپر اٹھائیں تو میم پرگتی ورما کھڑی تھی ۔۔ موٹےسرخ تلک اور گہری سرخ لپ اسٹک سے رنگے ہونٹ سکڑے ہوئے تھے۔۔
Are you Sharradha Rana?”
نیو بیج آف BBA Digital business?
رول نمبر 103 ؟
“یس میم” شردھا سمجھ گئی تھی کہ اس تمام معلومات افزائی کا مطلب کیا ہے؟
مجھے آپ سے بات کرنا ہے
Can I have some of your time?
تحکمانہ انداز میں کی گئی بات کا صاف مطلب یہی تھا کہ بات تو تمہیں کرنی ہی پڑے گی۔۔۔۔۔
کوریڈور میں ایک کونے میں کھڑی ہو کر میم پرگتی شروع ہو گئی۔۔۔ کبھی انگریزی تو کبھی ہندی میں بھاشن کا لب لباب بس یہی تھا کہ جو دیکھا ہے وہ غلط فہمی تھی اور اپنا منہ بند رکھنا۔۔۔۔
شردھا کے ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا ۔۔۔۔۔
پاس سے گزرتے سٹوڈنٹ اسے گھور گھور کر دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ ” I will be careful mam ” شردھا نے حتی المقدور مؤدبانہ انداز میں کہا تھا۔۔۔۔۔
غصے سے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ جان گئی تھی کہ آنے والا وقت اس کے لیے بھاری ہو سکتا ہے اور ابھی تووہ سارے کالج کی نظروں میں آچکی تھی۔۔۔۔۔۔
” میم مجھے اب جانے دیں سارا کالج مجھے دیکھ رہا ہے خواہ مخواہ بات بڑھے گی ۔۔۔۔۔۔ ”
شردھا نے ڈرتے ڈرتے کہا تھا۔۔۔۔۔
اوکے! But be careful ہاں ” پرگتی میم نے خاصی رعونت سے کہا تھا اور سیڑھیاں اترنے لگی تھی۔۔۔۔
“دیکھ ہیما بات کو ادھر ہی ختم کرتے ہیں۔۔۔۔ شردھا نہیں بتانا چاہتی تو insist کرنا مناسب نہیں۔۔۔۔ ” سواتی نے بار بار سوال کرتی ہیما کو ٹوکا تھا۔۔۔۔۔ سواتی شردھا کی سکول لیول کی دوست تھی اورہیما سے اس کی دوستی اسی کالج میں آکر ہوئی تھی ۔۔۔۔ سواتی سمجھ گئی تھی کہ شردھا پر کوئی پریشر ہے ورنہ شردھا ایک صاف گو اور صاف دل لڑکی تھی ۔۔۔ جس کے راز نہ ہونے کے برابر تھے۔۔۔۔
کئی کلاس فیلو نے بھی شردھا سے سوال جواب کیے تھے اور کئی کا تو یہ خیال تھا کہ شردھا پرگتی میم کی فیورٹ بننا چاہتی ہے ۔۔۔ یہ تو شردھا ہی جانتی تھی کہ وہ کتنی فیورٹ تھی پرگتی میم اور سر ونود دونوں کے لیے۔۔۔۔۔
” اے شردھا ! تو جا رہی ہے نا اگت پوری -؟؟ ” کلاس ریپ کارتک اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔۔شردھا نے سواتی کی طرف دیکھا ” ہاں ہاں ہم دونوں جا رہی ہیں سواتی بولی تھی۔۔۔” 3ہزار پر ہیڈ ہے۔ دونوں کل تک جمع کروا دینا ”
“کون کلیکٹ کر رہا ہے ”
“سروش میم نے میرے ساتھ احمد جمال کو لگایا ہے۔۔۔۔ اسے دے دو یا مجھے ۔۔۔”
” ٹھیک ہے ”
ہیما کے لیے مشکل ہے اتنی رقم کا” سواتی شردھا کو بتا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ “تو اس سے بات کر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔ہم مل کر دے دیں گے ۔۔۔۔”
” اچھا -!! میں بات کروں گی اس کی ممی سے۔۔ہیما سواتی کی پڑوسن بھی تھی۔۔۔۔
اگت پوری جانے کے شوق نے شردھا کو وہ واقعہ بھی بھلا دیا تھا اور وہ اپنے پہلے کالج ٹرپ کو لیکر بہت ایکسائٹڈ تھی ۔۔۔ ممی کو کچھ تحفظات تھے دو دن جانے کے لحاظ سے مگر پپا اور آشو نے مل کر ماں کو تسلی دلائی تھی ۔۔۔
دو دن کے بعد ان کے ٹرپ کی روانگی تھی ۔۔۔۔
” تم اتنی پڑھاکو کب سے ہو گئیں ؟؟؟ یہ اسائمنٹ ہم ٹرپ سے آکر complete کر لیں گے بابا۔۔۔۔” سواتی نے شردھا کو کہا تھا جو کالج آف ہونے کے بعد بھی کچھ reference studiesکے لئے لائبریری میں رکنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
” نہیں !! سواتی میں واپس آکر تین چار دن تک کچھ نہیں کر پاؤں گی ۔۔ تارہ دیدی کی شادی کے فنکشنز شروع ہو جائیں گے ۔۔۔۔ اس لئے آج گھنٹہ لگا کر میں اپنا کام complete کرتی ہوں ۔۔۔۔
تم اور احمد اپنے حصے کا پروجیکٹ کر تے رہنا آرام سے ۔۔۔
پتہ ہے نا -!! ونود سر کی وارننگ کا۔۔۔۔۔” شردھا ساتھ ساتھ سامان اٹھا رہی تھی۔۔۔۔
Head of the department
ونود مشرا نے سروش جھا سے ان کی کلاسز لے کر نئے بیج کو خود پڑھانا شروع کیا تھا اور شردھا کو ان کی خصوصی قہر آلود نظروں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔۔۔
تارہ اس کی تایا زاد بہن تھی اور ان کے خاندان کی پہلی شادی تھی۔۔۔۔۔اس لئے خوب دھوم دھڑکے کا پروگرام تھا ۔۔۔۔
شردھا پورے انہماک سے نوٹس بنانے میں مصروف تھی۔۔۔۔ٹیبل کے دوسری طرف سے کھسر پھسر کی آوازیں آئیں ۔۔۔۔
شردھا نے دیکھا۔
ونود مشرا اور اس کی کلاس کی تین لڑکیاں دوسری طرف موجود تھیں۔۔ first semesterکاquestion paper
ان کو نقل کروایا جا رہا تھا۔۔۔ شردھا کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی – –
اس نے تیزی سے سامان سمیٹا اور آہستگی سے موبائل میں وڈیو بنانے کا آپشن Set کیا تھا ۔۔۔ والیوم فل کر کے وہ ویڈیو بنانے لگی۔۔۔۔
جس میں Head of the Department
ونور مشرا اُن تینوں کو
(1) Digital Marketing Landscape
12, Digital Business Tools &techniques
کے پرچوں کی تفصیل نقل کروا رہے تھے ۔
دس منٹ خاموشی سے ویڈیو بنا کر شردھا نے اپنے دوپٹے سے سراور چہرہ لپیٹا تھا ۔۔۔پھر وہ نارمل انداز میں اٹھ کر باہر نکل گئی تھی ۔۔۔
اگلے دن وہ کالج نہ گئی اور ٹرپdetail کے لیے وہ واٹس ایپ گروپ کے ذریعے کلاس فیلوز کے touch میں تھی۔۔۔۔۔
مقررہ وقت پر ان کا ٹرپ اگت پوری کے لیے نکل پڑا تھا۔۔ ان کی منزلManas life style resorts تھا جو کہ 25 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔۔
گہرے سبزے میں گھری شاندار عمارت دیکھ کر لڑکیاں خوب مرعوب ہو رہی تھیں اور ان کے خیال میں یہ ٹرپ یادگار ہونے جا رہا تھا ۔۔۔۔
شام کو فریش ہو کر سب گھومنے پھرنے نکلے تھے۔۔۔۔۔۔
کارتک اپنے کلاس میٹس کو بتا رہا تھا کہ آج ادھر ہی گھومیں پھریں گے اور کل اگت پوری اور اس کے اطراف میں واقع جھرنے دیکھنے چلیں گے۔۔۔۔
Ashoka waterfalls
پر سب خوب مستیاں کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔ شردھا نے چشمہ اتار کر صاف کیا تھا ۔۔۔۔۔ اردگرد کا سارا منظر ایک دم دھندلایا تو شردھا کو نامعلوم خوف نے آن گھیرا۔۔۔۔۔۔ وہ پانی سے پیچھے ہو گئی اور فورا چشمہ لگا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے بھگوان -!! کیا میری نظر اتنی کمزور ہو گئی ہے اس سوچ نے اس کے دل کو دہلایا ہی تھا کہ سواتی آن پہنچی۔۔۔
” تم کن سوچوں میں گم ہو۔۔ ابی منیو بتا رہا ہے کہ انہوں نے ایک چشمہ دیکھا ہے جس کا پانی جھرنے کی طرف آ رہا ہے ۔۔۔۔۔آو تم سبھی لوگ ادھر جا رہے ہیں۔۔۔۔۔”
” چلو ۔۔۔۔۔۔” شردھا ساری سوچیں جھٹک کر مسکرائی تھی ۔۔۔۔۔ چشمے کے قریب پہنچ کر سب بکھر گئے تھے۔۔۔۔۔
نا مانوس سی بو پا کر شردھا مڑی تو اس نے سر ونود کو بالکل اپنے قریب پایا تھا۔۔۔۔۔ ایک دم وہ گڑبڑاسی گئی تھی۔۔۔۔۔
“موبائل کہاں ہے تمہارا؟” وہ سانپ کی مانند پھپکارے تھے۔۔۔۔ موبائل۔۔۔۔۔۔ اور شردھا ایک دم جان گئی کہ ونود سر کو ویڈیو کے متعلق معلوم ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔جس کا کارن لائبریری کا سی سی ٹی وی فوٹیج ہی ہو سکتا تھا۔۔۔۔ اور تو ابھی اس نے اس کا ذکر کسی سے بھی نہ کیا تھا۔۔۔۔۔
شردھا کے بازو پر سرونود کی گرفت مضبوط تھی۔۔۔۔۔ اس شیطان نما استاد نے اسے گھنی جھاڑیوں کی طرف کھینچا۔۔۔۔۔۔
” میں نے غلطی کی تمہاری پہلی حرکت کو نظر انداز کر کے۔۔۔۔۔” ونود نے دانت پیس کر کہا تھا۔۔۔۔۔
شردھا کا سارا خون اس کے چہرے میں آجمع ہوا۔
” آپ کو استاد کہتے مجھے بھی شرم آتی ہے ۔۔۔۔کبھی ساتھی ٹیچرز کے ساتھ sexual activities اور کبھی students کےساتھ مل کر papers میں گھوٹالا۔۔۔۔۔”
” تیری تو میں ۔۔۔۔ ” ونود کے چہرے سے تعلیم کا نقاب سارے کا سارا کھسکا تھا۔۔۔۔۔ اس نے چہرے پرزوردارہاتھ مار کر شردھا کو نیچے گرایا ۔۔۔ چشمہ ٹوٹا اور کرچیاں اس کی آنکھوں میں سوئیاں بن کراتریں تھیں ۔۔۔۔۔ اس کی چیخ کو دونوں ہاتھوں سے منہ دبا کر روکتے ہوئے ونود نے دوسرا ہاتھ مارا تھا اس کی شرٹ پھٹتی چلی گئی اور ٹوٹا چشمہ اچھل کر چشمے کے پانی میں جا گرا تھا ۔۔۔۔۔ پانی جھرنے کی طرف تیزی سے بہتا ہوا جارہا تھا اور چشمہ اس کے ساتھ بہے چلا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔
ختم شد