ڈھکن

ڈھکن
ربیعہ سلیم
پیاز کی کڑواہٹ سے آنکھ بھرآئی ۔ پیاز بھی خصم کی طرح ہوتا ہے۔۔۔
تہہ در تہہ۔۔۔پرتیں ہٹاتے جاؤ۔۔۔نیچے سے خصم ہی نکلے گا۔۔۔
وجہ بے وجہ رلانے والا ۔
کٹا ہوا پیاز گرم تیل میں ڈالا تو “شوں “کی آواز آئی۔
دوپٹے سے آنکھیں پونچھ کر ٹماٹر کاٹنے لگی ۔تو دل بھی کٹنے لگا ۔۔۔
ہر۔۔ارینج میرج ایک جیسی ہوتی ہیں ۔۔۔لوگ بلاوجہ مل جاتے ہیں ۔۔
نہ محبت ہوتی ہے نہ کوئی کہانی ۔۔بس شادی کی سالگرہ منانے کیلئے یاد رکھنے کو ایک دن ہوتا ہے ۔
“لہسن پتہ نہیں کہاں رکھ دیا ۔”ابھی تو ریڑھی والے سے لیا تھا ۔
بوجھ بجھکڑ ہوتی جارہی ہوں ۔
نیلے رنگ کا چھوٹاسا شاپر تھا ۔؟
ادھر پیاز رنگ بدلنے لگا ۔
چولہا دھیما کردیا ۔
لہسن صوفے پہ پڑا مل گیا ۔
جن کے من چاہے بچھڑ جائیں ۔
وہاں محبت بھی بچ جاتی ہے۔۔۔اور ایک کہانی بھی۔
۔ہر کہانی میں ایک ہیرو ہوتا ہے
اور ایک ہیروئن ۔۔
میں نے نیت کی ,نہ قضا کی ۔
اس لئے میرے پاس کوئی کہانی نہیں ہے ۔
میں بس ایک بیوی ہوں ۔جو پندرہ سال سے چندر مکھی کی طرح دیوداس کی پارو کا سیاپہ سن رہی ہوں ۔
لہسن پانی میں بھگو کر چھیلنے سے جلدی چھل جاتا ہے ۔لیکن میں ہمیشہ گھٹی کو درمیان سے کاٹتی ہوں ۔
پتہ نہیں کیوں؟
ہر بیوی کی طرح میرے پاس میرا شوہر ہے ۔
محبت میں ناکام ہیرو ۔۔اس کے پاس ایک کہانی ہے ۔جس میں ایک پارو تھی ۔جسے ایک بیورو کریٹ بیاہ کر لے گیا ۔۔
چار بچے ہوگئے مگر وہ آج بھی اپنی ہی کہانی کا ہیرو ہے ۔
“پتہ نہیں میں کیوں سست ہوتی جارہی ہوں”

مجھےلہسن ,پیاز ٹماٹر ایک ہی بار کاٹ کر کچن میں آنا چاہیئے تھا ۔مصالحہ تیار ہے بس اب چکن تھوڑا بھون کر, دم دے کر پنکھے کے نیچے بیٹھوں گی ۔
پتہ نہیں ہم بیویاں ۔۔شوہر کو مجازی خدا کی بجائے ۔۔۔ہیرو کیوں نہیں بنا سکیں۔۔۔
میرے ہیرو کے پاس پارو کی کتنی ساری کہانیاں ہیں ۔۔
اس کے خد وخال کی ,آنکھوں کی۔۔۔چلنے کی۔۔۔اور اس کے مڑ کر ہسنے کی۔۔
۔کتنی خوبیاں تھیں مرنے والی میں ۔۔۔اوہ۔۔سوری،بچھڑنے والی میں ۔۔۔
پتہ نہیں کہاں ہوگی ۔؟
میں نے دھلاہوا چکن بھی ہانڈی میں ڈال دیا ۔
آج کدو چکن پکا رہی ہوں ۔چار شادیوں کی طرح کدو کھانا بھی سنت ہے ۔لیکن انہیں اکیلا کدو پسند نہیں ۔کدو گوشت پسند ہے ۔
آج گوشت کا ناغہ تھا, اس لئے ۔۔۔
میں نے کدو میں چکن ڈال دیا ۔پانی ڈالا ,ڈھکن دے کر کچن سے نکل آئی ۔
پنکھے کی ہوا سے جیسے ٹھنڈ پڑگئی ۔
پتہ نہیں پارو کیا پکارہی ہوگی ۔؟
کیا سابقہ محبوبائیں بھی ہم سدھارن بیویوں کی طرح سوچتی ہیں۔۔!
میں تو یہ سوچ رہی ہوں کہ انہیں فون کرکے کہوں ۔آٹا, ختم ہوگیا ہے, آتے ہوئے روٹیاں لیتے آئیے گا ۔
ہوسکتا ہے, اس کے شوہر کے پاس بھی ایک کہانی ہو ۔۔
وہ بھی کسی کا ہیرو ہو ۔تو ۔۔۔
میں نے اٹھ کر ہانڈی میں ڈوئی گھمائی ۔پانچ منٹ اور۔۔۔ پھر دھنیا ڈال کررکھ دوں گی ۔میں نے ہانڈی پہ ڈھکن دیا ۔اور کچن سے نکل آئی
روٹیوں کیلئے میسج لکھا ۔
پھر خود ہی ہنس دی ۔۔
“پارو کا خصم بھی , میرے شوہر کی طرح تنور پہ روٹیوں کی لائن میں لگا ہوگا ”
ہوسکتا ہے پارو بھی ہانڈی پہ ڈھکن دیئے, اس ڈھکن کا انتظار کر رہی ہو ۔
جسے کدو پسند ہوں ۔۔۔۔