کوہساروں کی روح
کوہساروں کی روح
مرزا صہیب اکرام
یہ تو بس سر ہی مانگتا ہے میاں
عشق پر کربلا کا سایا ہے
عشق قربانی مانگتا ہے اور اگر عشق پہاڑوں سے ہو تو جان سے کم پر بات نہیں ٹلتی ۔۔ماونٹ ایورسٹ اور کے ٹو جیسے عظیم الشان پہاڑ اپنی خوبصورتی اور دلکشی سے لوگوں کو اس طرح مسحور کردیتے ہیں کہ ان کے عشق میں مبتلا انسان ان سے دور نہیں رہ پاتا ۔۔کے ٹو دنیا کا دوسرا بلند ترین اور خطرناک پہاڑ ہے جس کو سر کرنے والے ہر پانچ افراد میں سے ایک موت کو گلے لگا لیتا ہے لیکن موت کا یہ خوف بھی کوہ پیماؤں کو اس کے قریب جانے سے نہیں روک پاتا۔ دیوانے یا منزلِ عشق پا لیتے ہیں یا منزل کے حصول کا جنون انہیں پہاڑوں میں کہیں سمو لیتا ہے۔
پہاڑوں اور بلندیوں کے خواب دیکھنے والے تین ایسے ہی دیوانوں نے اٹھارہ فروری کو کے ٹو پر اپنی زندگی نچھاور کر دی ۔۔ان تین میں سے ایک تھے محمد علی سد پارہ۔
علی سدپارہ 2 فروری 1976 کو پاکستان کے شہر گلگت بلتستان کے شہر اسکردو کے قریب واقع ایک گاؤں سدپارہ میں پیدا ہوئے۔ اپنے والدین کی گیارہ اولادوں میں ایک سد پارہ نے گورنمنٹ کالج سے ایف اے کیا اور وہ اپنی کالج فٹ بال ٹیم کے ممبر منتخب ہوئے۔انیس سال کی عمر میں اس کی شادی فاطمہ نامی خاتون سے ہوئی۔اللہ نے تینوں بچوں سے نوازا۔سب سے بڑا بیٹا ساجد ہے جو علی کے ساتھ آخری معرکہ میں شامل رہا۔
علی نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک پورٹر کے طور پر کیا ، اسں نے پہاڑ پر چڑھنے کی مختلف مہمات میں معاون کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور زیادہ تر پورٹرز کی طرح ، سدپارہ نے ناہموار بلٹورو گلیشیر کو بنا مناسب سہولیات کے محض فلپ فلاپ اور کاسٹ آف گیئر میں سر کیا۔۔
علی نے زندگی کی سختیاں سہہ کر بہت کچھ سیکھا۔وہ پہاڑوں کو سر بھی کرتا رہا اور ان کے اندر چھپے اسرار اس کو ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنا بناتے رہے۔اس نے کبھی ندی کے پانی میں گھروں اور مویشیوں کو بہتے ہوئے دیکھا ۔۔کبھی تین ڈالر کی معمولی رقم کے لئے پچیس کلو سامان لاد کر بیس کیمپ تک پہنچایا ۔اور کچھ سبق سیاچین گلیشیر پر گولیوں کی بوچھار میں پاکستانی آرمی کو سپلائی پہنچاتے ہوئے سیکھے ۔
علی کا کہنا تھا کہ کوہ پیمائی میں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں فتح یا موت اور انسان میں دونوں کو قبول کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے ۔۔یہ اس کا جذبہ اور جنون تھا جس نے اسے ایک کامیاب کوہ پیما بنا دیا۔اس نے کئی بار فتح کا ذائقہ چکھا اور ہمالہ کی بلندی کو پاؤں تلے محسوس کیا اور لیکن موت کا ذائقہ بھی بسا اوقات انسان کا مقدر بن جاتا ہے۔ دنیا میں کل چودہ ایسی چوٹیاں ہیں جو آٹھ ہزار فیٹ سے بلند ہیں اورعلی سدپارہ کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ اس نے 14 میں سے آٹھ کو کامیابی کے ساتھ سر کیا تھا اور یہ کارنامہ سرانجام دینے والا پہلا پاکستانی تھا۔
ان آٹھ میں سے چار چڑھائیاں علی نے ایک ہی سال کے اندر سر کیں تھی ۔اس کی پہلی چڑھائی گیسٹرم برگ تھی ، جو قراقرم رینج میں واقع ہے۔
سد پارہ نے پہلی بار 2015 میں سردیوں میں نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش کی تھی اور ناکامی کے بعد دوبارہ 2016 میں کوشش کی اور سردیوں میں یہ چڑھائیاں سر کرنے والے دنیا کے پہلے کوہ پیما بن گئے تھے۔ اور یہ کارنامہ علی نے کسی اور کوہ پیما کا سوٹ اور گئیر استعمال کرتے ہوئے انجام دیا ۔۔اس کے کارناموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے کیرئیر میں چار بار نانگا پربت سر کر چکے تھے۔۔اہم بات یہ تھی کہ ان ساری چڑھائیوں کے دوران علی کی ساری توجہ دوسروں کے لئے حفاظتی انتظامات میں لگی رہتی ۔۔
• علی سد پارہ کی آٹھ اہم کوہ پیمائی کی لسٹ کچھ یوں ہے
• 2006 قراقرم سلسلہ کے گیشربرم
• 2006 قراقرم سلسلہ کے گولڈن پیک
• 2008 ہمالیہ سلسلہ کے نانگا پربت
• 2008 پامیر سلسلہ کے مزتاغ
• 2009 ہمالیہ سلسلہ کے نانگا پربت
• 2010 قراقرم سلسلہ کے گیشربرم
• 2016 ہمالیہ سلسلہ کے نانگا پربت
• 2017 قراقرم سلسلہ کے براڈ پیک
• 2017 ہمالیہ سلسلہ کے نانگا پربت
• 2017 ہمالیہ سلسلہ کے پموری
• 2018 قراقرم سلسلہ کے ٹو
• 2019 ہمالیہ سلسلہ کے لوٹسی
• 2019 ہمالیہ سلسلہ کے مکالو
• 2019 ہمالیہ سلسلہ کے منسالو
جون 2018 میں فرنچ کوہ پیما مارک بیٹرڈ نے علی کے ساتھ پانچ چوٹیاں سر کرنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن یہ پروگرام مکمل نہیں ہوسکا ۔
علی سد پارہ کے اکیس سالہ بیٹے ساجد نے بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 2019 میں کے ٹو پر ان کے ساتھ چڑھائی کی تھی اور وہ اس آخری معرکہ میں بھی ساتھ تھے۔
جنوری 2021 میں دس ممبرز کی نیپالی ٹیم نے پہلی بار K2 کو سردیوں میں سرکرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔اس ریکارڈ کو توڑنے کے لئے علی سد پارہ نے آئس لینڈ کے کوہ پیما جان سنوری سگورجنسن اور چلی کے کوہ پیما جوان پابلو موہر پریتو کے ساتھ کے ٹو کو بنا آکسیجن سر کرنے کا پلان کیا یہ ایک کافی مشکل اور خطرناک مشن تھا لیکن سد پارہ اپنے جنون اور عشق کے لئے یہ رسک لینے پر تیار تھا اور اس کی خواہش تھی کہ جب وہ اپنے ملک کا جھنڈا کے ٹو پر لہرائے تو اس خوشی اور فخر کے لمحات میں اس کا بیٹا بھی ساتھ ہو ۔K2 کی چڑھائی کے لئے 4 فروری 2021 کی شام کو یہ ٹیم ہائی کیمپ کے لئیے نکلی لیکن bottleneck کے قریب پہنچ ساجد کے لئے آگے بڑھنا مشکل ہوگیا تھا ۔۔۔نوجوان ساجد شاید پہاڑوں سے وہ تعلق نہیں بنا سکا تھا جو علی کا تھا ۔اس لئے باپ کی حوصلہ افزائی کے باوجود وہ آگے بڑھنے کے لئے خود کو تیار نہ کرسکا ۔۔شومئی قسمت کہے یا خوش نصیبی آکسیجن سیلنڈر کے ریگولیٹر کی خرابی کی وجہ سے ساجد کو واپس اترنا پڑا ۔
وہ ٹیم کے دیگر ممبران کو بوٹلنیک کے پاس چھوڑ آیا تھا ۔علی ، سیگورجنسن اور پریتو نے اپنی چڑھائی جاری رکھی ان کا شوق اور جنون انھیں آگے بڑھنے کے لیے مہمیز کرتا رہا لیکن منصوبہ کے مطابق رات کے وقت واپس نہیں آئے ایک دن اور انتظار کے بعد مجبورا 5 فروری 2021 کو انھیں لاپتہ قرار دیا گیا۔ اس ٹیم کی تلاش کے لیے 6 فروری 2021 کو پاک فوج کے دو ہیلی کاپٹروں کے ساتھ ایک ریسکیو مشن کا انعقاد کیا گیا۔
18 فروری 2021 کو ،پاکستانی حکام نے اعلان کیا کہ ان تینوں افراد کو سرکاری طور پر ہلاک سمجھا گیا ہے، لیکن ان کی باقیات کی تلاش جاری رکھی جائے گی۔
غم اور صدمہ میں ڈوبے سدپارہ کے اہل خانہ کے پاس بھی اس حقیقت کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ۔اس حادثہ کے بارے میں کئی تبصرہ ہوتے رہے ۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کے حادثات عموما واپسی کے سفر میں اترتے ہوئے پیش آتے ہیں لیکن جو لوگ سد پارہ کو جانتے ہیں انھیں یقین ہے کہ سد پارہ سے ایسی کوئی غلطی ہونا تقریبا ناممکن ہے لیکن یہ قرین قیاس ہے کہ اپنے کسی ٹیم ممبر کو بچاتے بچاتے سد پارہ نے اپنی جان کی قربانی دے دی ہوگی۔
علی سد پارہ نے مشکل ترین حالات میں سروائیو کرنے کا ہنر تو اپنی پیدائش سے ہی سیکھ لیا تھا وہ اپنے گیارہ بھائی بہنوں میں سے زندہ بچ جانے والے تین بھائیوں میں آخری تھے جنھیں ان کی والدہ فضا نے بہت جتن سے پالا تھا ۔۔لیکن ایک پہاڑی کوہ پیما کے لئے ساری زندگی ہی ایک ایسا گیم ہوتی ہے جس میں موت کو شکست دے کر خود کو بچانا ہوتا ہے ۔۔اسی لئے اپنی ماں کے شدید اصرار کے باوجود علی نے کھیتوں میں فصل اگانے کی جگہ پہاڑوں کو ترجیح دی ۔۔2012 میں اپنے بچپن کے دوست کو کھو دینے کے باوجود علی کا پہاڑوں سے عشق کم نہیں ہوا ۔۔ہر خطرناک مشن کے بعد اپنی ماں اور بیوی کو تسلی دیتا علی سد پارہ اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ برفانی چوٹیاں کبھی بھی اپنا خراج لے سکتی ہیں اور اسی کے ٹو نے اسے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا جس کے عشق میں وہ مبتلا تھا ۔جہاں پر وہ روز حشر تک سوتا رہے گا ۔ وہ کے ٹو کا دل بن کر اس مردہ پہاڑ کو زندگی کا احساس دلاتا رہے گا۔۔
ہم میں سے بہت سے انسان جنہوں نے ان پہاڑوں کو قریب سے نہیں دیکھا اور نہ ہی ان بلندوبالا چوٹیوں کی عظمت کو دل سے محسوس کیا وہ شاید ہی کبھی سد پارہ کے اس جنون ، عشق اور خطرہ مول لینے والی فطرت کو سمجھ پائیں۔وہ پہاڑوں سے تھا وہ پہاڑوں کا رہا اور اس نے آخر کار انہی کے اندر ایسا مسکن تلاش کر لیا جہاں وہ ابدی نیند سو گیا ہے۔اس کے ساتھ پیش آئے واقعات و حادثات پر بہت کچھ کہا اور لکھتا جاتا رہے گا لیکن اس کے جنون عشق اور محبت کو صرف الفاظ بیان کر نے سے قاصر رہیں گے۔ اس کے بعد جانے والے کئی کوہ پیما اس کے قدموں پر چل کر اس کی محبت اور محبوبہ کے ٹو کو سر کریں گے تو ہو سکتا ہے ان کو وہاں پر مردہ پہاڑ علی کی زندگی کے کچھ راز بتا دیں جو آج دنیا سے اوجھل ہیں۔
لیکن سد پارہ نے ان پہاڑوں پر اپنے جو نشان ثبت کئیے ہیں اور ملک اور قوم کے لئے جو قابل فخر کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں وہ ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں۔