دربان درِ باطل کے
دربان درِ باطل کے
حمیرا ثاقب
“اررررےـــ!! راحم نے تَناوش کو زور سے گلے لگا لیا تھا۔۔۔ فرسٹ ڈویژن میں امتحان پاس کرنے کی خوشی۔۔۔ وہ اپنے بیسٹی سے شیئر نہ کرتا تو اور کس سے کرتا۔۔۔ اس Hug نے دونوں لڑکوں کو بیک وقت ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار کیا تھا۔۔۔ جِس میں کچھ تو ایسا تھا جو نارمل نہیں تھا کیونکہ جسم اِس شدت سے جھنجھائے تھے کہ دونوں ایک دم خاموش ہو گئے ۔۔۔ نظریں جُھکیں اور پھر اُٹھیں ۔۔۔ دو گہری گہری کالی آنکھیں اُن طلسمی بھوری آنکھوں میں گَڑ سی گئیں ۔۔۔
“آئی لو یو تناوش” راحم نے جذبات سے پُر آواز میں کہا۔۔۔۔ “لو یو ٹو یارا۔۔۔!!”
تناوش نے پھر اُسے بازوؤں کے شکنجے میں کس لیا تھا۔۔۔ وہ دونوں اس میٹھی میٹھی کیفیت میں جو سرور محسوس کر رہے تھے اس سے نکلنے کے لیے کوئی کوشش دونوں نے نہیں کی۔۔۔۔
آگے کیا کیا ہونے والا تھا۔۔۔ دونوں ہی اس سے انجان اور بے خبر تھے۔۔۔
“تم انجنئیرنگ پڑھنا چاہ رہے ہو راحم؟” تَنَاوُش کے انداز میں ایک عجیب اداسی تھی۔۔۔۔ “یارا ! پاپا کہتے ہیں اتنے اچھے نمبرز کے ساتھ مجھے انجینئرنگ ہی choose کرنا چاہیے۔۔۔” راحم نے صفائی پیش کی۔۔۔ “تو پھر ہم اکٹھے نہ پڑھ سکیں گے یاراـــ!!” تناوش مزید اداس ہو گیا۔۔۔ راحم نے غور سے تناوش کا لٹکا ہوا چہرہ دیکھا تھا۔۔۔ اور ساتھ ہی ایک دم دل میں کچھ ٹوٹا تھا۔۔۔
“اچھا!!! اب اداس نہ ہو۔۔۔ لڑاتا ہوں کوئی جگاڑ”راحم نے تَنَاوُش کا کندھا پیار سے دبایا تھا۔۔۔ گہری گہری کالی آنکھوں نے طلسمی بھوری آنکھوں کو اپنی گرفت میں جکڑا تھا اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ گئے تھے۔۔۔ اِس لمس میں دونوں کے لیے جیسے جادوئی کشش تھی۔۔۔۔۔
آج اس ایب نارمل جھنجھناہٹ نے دونوں پر کپکپی سی طاری کی تھی اور اب دونوں کو سمجھ آ گئی تھی کہ وہ دوستی کے عام مفہوم سے کچھ آگے بڑھ چکے ہیں۔۔۔ اور یہ آگے بڑھنا دونوں کے لیے جتنا خطرناک ہونے والا تھا ۔۔۔ اُس سے بے پرواہ ہو کر دونوں دوست ایک دوسرے میں گُم ہو گئے ۔۔۔۔ ایسا گم ہونا جہاں دل کی لے کم اور بدن کی تال زیادہ معنی رکھتی ہے۔۔۔۔
آج دونوں نے ایک دوسرے کو وعدہ دیا کہ کوئی بھی ان کو الگ نہیں کر سکے گا۔۔۔۔
راحم نے بھی تَنَاوُش کے ساتھ کمپیوٹر سائنسز میں ایڈمیشن لے لیا تھا اور اس کے پاپا شدید اشتعال میں گرج رہے تھے۔۔۔۔ بھلے ہی راحم نے تَنَاوُش کی وجہ سے یہ فیلڈ چنی تھی مگر اس کا دماغ فی الحال اتنا کام کر رہا تھا کہ اس نے پاپا ہی کیا کسی بھی فرد کے سامنے زبان سے اس کا اقرار نہیں کیا تھا۔۔۔۔
راحم کا یہ پہلا انکار اگر اس کے ماں باپ کے نوٹس میں اچھی طرح آ جاتا اور وہ اس وقت ہی کوئی راست اقدام اٹھا لیتے تو شاید بعد کے حالات کی نوبت ہی نہ آتی۔۔۔ اُس کے پاپا بول بال کر خاموش ہو گئے اور کچھ اس کی ماں نے “بچوں پر اتنی سختی اچھی نہیں جوان ہوتے بچوں کو ان کی مرضی کے مضمون پڑھنے دینا چاہیے” کہہ کر اُن کے غصے کو مزید ٹھنڈا کر دیا۔۔۔۔
یوں راحم اور تَنّاوُش دونوں ایک ہی کالج میں ایک سے مضمون لے کر پڑھنے لگے اور اب دونوں نے اکٹھے کالج آنا جانا بھی شروع کر دیا۔۔۔ یہ سب کچھ انہوں نے اتنے سہل انداز سے manage کیا کہ دونوں کے گھر والوں کو کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہوا۔۔۔۔
” السلام علیکم راحم !”۔
“وعلیکم السلام” راحم نے سلام کرنے والے کو غور سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔
“میں ارمُغان ہوں۔۔۔۔ باٹنی ڈیپارٹمنٹ سے” راحم نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھاما تو تھا مگر اُس کے چہرے پر بےزاری اتنی عیاں تھی کہ ارمُغان شرمندہ ہو گیا۔۔۔۔
“کوئی کام تھا مجھ سے؟” راحم نے گویا کوڑا دے مارا کہ بات کرو اور چلتے بنو۔۔۔۔ “کام تو نہیں۔۔۔۔ میرا بھائی آپ کا batchmate ہے۔۔۔ فیضان علی” “اوہ اچھا۔۔”
راحم کو وہ معصوم صورت فیضان یاد آ گیا جو اُس کی تَنَاوش سے ازحد چپکونس کو کچھ کڑے تیوروں سے دیکھا کرتا تھا۔۔۔۔ مگر چونکہ اُس نے زبان سے کبھی کچھ نہ کہا تھا تو کوئی پھڈا نہ ہوا تھا۔۔۔۔
“فیضان کو چوٹ لگی ہے۔۔۔۔ وہ کچھ دن کالج نہیں آ سکے گا۔۔۔ اس کی application تو میں نے جمع کروا دی ہے ۔۔۔۔ بس آپ سے نوٹس کے لیے کہنا تھا۔۔۔” ارمُغان نے تفصیل بتائی تو راحم بے مزہ ہونے لگا۔۔۔۔ ” جی جی ضرور”۔۔۔۔ اُس نے رسمی انداز میں کہہ کر
“ایکسیوزمی “کہا اور وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔۔۔
ارمُغان نے اپنے پھیلے ہاتھ کو جھینپ کر دیکھا اور اسے سمیٹ کر اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چل دیا۔۔۔
تَنَاوُش گیٹ پر اُس کا منتظر تھا ۔۔ “شکر ہے تم آ گئے ۔۔۔۔ ورنہ مجھے لگا کہ تم اپنے highest نمبرز کا بھرم رکھنے کا ڈرامہ شروع کرنے لگے ہو۔۔۔” تَنَاوُش ہنسا تھا۔۔۔۔
“اب تم بور نہ کرناhighest marks پر۔۔۔ابھی وہ فیضان بلاوجہ چپک رہا تھا۔”راحم نے منہ بنایا تو تناوش نے گندا سا اشارہ کیا اور لوفروں کی طرح بولا
“مجھ سے چپک جانے کے بعد اب کسی اور سے مت چپکیو۔۔۔”
راحم نے قہقہہ لگا کر اسے ساتھ چپکا لیا “دفع کر اس پڑھا کو کیڑے کو۔۔۔تُو تو جان ہے اپنی۔۔۔”راحم نے تناوش کے کان کی لو کاٹی تھی ۔
“ہائے ظالم!درد ہوتا ہے۔”
تناوش نے سسکاری بھری تھی۔۔
راحم نے فلیٹ کا دروازہ اندر سے بند کرتے ہی تناوش کو بانہوں میں بھر لیا تھا ۔۔۔”تھینکس ٹو صبوح آپا !! آج مکمل تنہائی مل ہی گئی۔”دونوں ایک دوسرے میں گم ہو گئے تھے ۔
“اے یارا!! یہ تیری آپا کب تک واپس آجائیں گی ؟”تناوش نے سرگوشیانہ انداز میں پوچھا تھا ۔”آپا کم از کم دوسال تک تو واپس نہیں آنے والی۔۔۔تب تک ہم بھی chill کرتے ہیں ۔”راحم ہنسا تھا
تناوش کی طلسمی بھوری آنکھیں لذت کے عالم میں بند تھیں اس نے جوابا بس “ہوووں”کہا تھا۔
“اے جی !! سنتے ہیں ۔”تناوش کی ماں نے اس کے باپ کا کندھا ہلایا تھا۔۔۔”کیا ہے سلمی ؟”موبائل میں غرق عبدالرحیم کو یہ کوشش سخت کھلی تھی ۔
“تناوش کا فون تھا ،وہ دوستوں کے ساتھ رک گیا ہے combine studyکے لئے۔۔۔کہہ رہا تھا کہ کل بھی شاید ہی آ سکے۔”
“تو پریشانی کی کیا بات ہے ؟”اس کے باپ نے موبائل پر سکرولنگ جاری رکھی۔۔۔
“آپ پوچھ لیتے کہ کن دوستوں کے ساتھ ہے؟”
“توبہ ہے تم سے بھئی!! شکر کرو کہ لڑکا پڑھ رہا ہے کسی فضول سرگرمی کے لیے گھر سے باہر نہیں ہے۔الٹا مجھ سے جاسوسی کروا رہی ہو۔”عبدالرحیم کو اصل میں ڈرامہ کے درمیان interruption پر چنچناہٹ ہو رہی تھی۔
“اسے جاسوسی نہیں فکر کہتے ہیں ۔۔۔پلیز آپ ایک بار اس سے پوچھ لیں ۔۔۔”سلمی کہاں چھوڑنے والی تھی بات کو۔۔۔
بڑبڑ کرتے عبدالرحیم نے بیٹے کا نمبر ملایا۔۔۔
بہت بار بیل ہونے کے بعد کال ریسو ہوئی
“تناوش!”
“جی پاپا!”
“فون بہت دیر سے اٹھایا۔۔۔ کیا ہو رہاتھا؟؟”
“وہ پاپا !میں اوپر تھا نا ۔۔اس لئے آنے میں دیر ہوئی “
بیٹے کی پھولی سانسوں اور گھبراہٹ کو عبدالرحیم بھانپ نہ سکا۔۔
“اچھا اچھا!!”
“تیاری کیسی ہو رہی ہے امتحانوں کی ؟”
“ایک دم فرسٹ کلاس پاپا!!”
“اوکے صبح وقت پر گھر آجانا ۔”
“جی پاپا!”
“شاباش !! کرو تیاری میرا بیٹا”
عبدالرحیم نے تناوش کو چمکار کر فون بند کر دیا ۔
“ہوگئی تسلی۔۔اب آرام کرو اور مجھے بھی سکون کرنے دو۔”بیوی کی طرف کمر کرتے ہوئے عبدالرحیم نے دوبارہ ڈرامہ کھول لیا تھا ۔۔۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ راحم اور تناوش کے غیر اخلاقی تعلق کی پتنگ شتر بے مہار بنی آگے بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔جس کے ناپاک سائے میں ان کی جوانیوں کو دیمک لگ رہی تھی اور دونوں ہر طرح کے نتائج سے بےپروا ہو کر ایک دوسرے کو اپنا سب کچھ بنا چکے تھے ۔۔۔
“راحم!”تناوش نے راحم کا کندھا ہلایا تھا ۔
“ہوں”راحم نے سگریٹ کا ہلکا سا کش لیا تھا۔
“یارا! اگر ہمارے گھر والوں کو پتہ چل جائے کہ ہم دونوں کیا کرتے پھر رہے ہیں تو۔۔۔۔۔”
“کیا کرتے پھر رہے ہیں؟”راحم نے خفگی سے اسے دیکھا تھا۔
“یہ۔یہ۔”تناوش کی زبان لڑکھڑا گئی کیونکہ اس ناپاک تعلق کو وہ جتنا بھی justifyکرتا اُس کے پاس اِس کے لئے اچھے الفاظ تو بہرحال نہیں تھے ۔۔۔
“دیکھ جانی!کیا تو مجھ سے پیار نہیں کرتا؟”راحم نے اس کے کندھے پکڑے تھے ۔
“کرتا ہوں۔۔۔ساری دنیا سے زیادہ۔”تناوش جذباتی ہو گیا “تو بس پھر واہموں پر مت سوچ ۔۔آجا!! وہ رات والی مووی دوبارہ دیکھتے ہیں ۔۔۔”راحم نے مخمور نظروں سے اُسے دیکھا تھا ۔۔۔تناوش شرما کر مسکرا دیا تھا۔۔۔
راحم کے پاپا کو بیٹی کے فلیٹ سے کچھ اہم کاغذات اٹھانے تھے تو وہ آفس سے واپسی پر فلیٹ پہنچے تھے ۔۔۔ دروازے میں چابی گھما کر اندر داخل ہوئے تو بغلی بیڈ روم سے آتی سرگوشیوں نے ان کا سر چکرا دیا ۔۔۔وہ دبے پاؤں کمرے میں جا پہنچے ۔۔۔سامنے کا منظر اُن کے لئے اتنا ناقابلِ یقین تھا کہ ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔۔
“راحم !یہ کیا کر رہے ہو؟؟”وہ چنگھاڑے تو دونوں لڑکے الگ ہو گئے اور اپنے اپنے کپڑے درست کرنے لگے ۔۔۔
عبدالرحیم صاحب ہانپتے کانپتے گھر پہنچے تو بیوی ان کو بے وقت دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی ۔۔۔۔
“خیریت ہے آج آپ جلدی آ گئے ۔۔۔۔”
“تَنَاوُش کہاں ہے؟” انداز میں کچھ تو ایسا تھا کہ سلمیٰ بیگم گھبرا سی گئی۔۔۔
“وہ تو دوستوں کے ساتھ کمبائن سٹڈی کے لیے گیا تھا۔۔۔۔ آج بھی نہیں آیا۔۔۔”
“کون سی کمبائن سٹڈی نیک بخت”۔۔۔عبدالرحیم پھٹ پڑا۔۔۔۔
“جس کے ساتھ وہ کمبائن سٹڈی کر رہا تھا اُسی کے باپ کا مجھے فون آیا تھا۔۔۔ دونوں لڑکوں کو اس نے قابل اعتراض حالت میں اپنی بیٹی کے گھر میں رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔۔۔۔”
“قابلِ اعتراض حالت !!وہ بھی لڑکے کے ساتھ۔۔۔ لعنت ہے اس ناہنجار پر اور ہم پر جو اس کے ماں باپ ہیں۔” عبدالرحیم کے مُنہ سے کف اڑ رہا تھا۔۔۔اور سلمیٰ ساکت کھڑی تھی۔۔۔اس کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جیسے سلب ہو گئی تھی۔۔۔۔
“تناوش ہے کہاں؟؟” بڑی مشکل سے اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے۔۔۔
“چھوڑ جائے گا اس کو۔۔۔ کیا نام ہے اُس کا۔۔۔
“ہاں!! راحم۔۔۔ راحم کا باپ اُسے چھوڑنے آ رہا ہے۔۔۔”
دونوں ابھی یہ بات کر ہی رہے تھے کہ راحم کا باپ تناوش کو لیکر پہنچ گیا۔۔۔ وہ اتنے شدید غصے میں تھا کہ رُکا ہی نہیں ۔ تَنَاوُش کو باپ کے حوالے کر کے خود اپنے لڑکے کو لیکر نکل گیا۔۔۔
تناوش پچھلے ڈیڑھ دن سے اپنے کمرے میں بند تھا۔۔۔ اس طرح کہ دروازہ باہر سے لاک تھا۔۔۔
ماں میں پھر بھی کچھ سمجھ داری موجود تھی مگر باپ تو غصے کا ویسے ہی تیز تھا اور اب تو اس کا غصہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔
آخر رات کو ماں باپ تناوش کے کمرے میں گئے ۔۔۔ماں نے مصالحت کے انداز میں ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ تناوش بول اٹھا۔۔۔
“پاپاـــ! میں راحم سے بہت پیار کرتا ہوں اور اُس کے بغیر نہیں رہ سکتا”
“کیاـــ کیا کیا؟؟ ذرا پھر سےکہنا۔۔۔” عبدالرحیم چیخا۔۔۔ تناوش نے اپنا جملہ دُہرایا اور باپ نے اس پر تھپڑوں کی بارش شروع کر دی۔۔۔ ماں “اررر۔۔۔۔۔” کرتی رہ گئی۔۔۔۔
“مار لیں۔۔۔ جتنا مرضی مار لیں۔۔۔ میں ساری زندگی اُس کے ساتھ رہوں گا۔۔۔ شادی کروں گا اُس کے ساتھ۔۔۔” تناوش جواباً چیخ کر بولا تو باپ کو جھٹکاسا لگا۔۔۔”کیا بک رہا ہے حرامزادے”
“ٹھیک کہہ رہا ہوں۔۔۔ اب تو قانون بھی ہمیں تحفظ دے گا۔۔۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ کا تو سنا ہی ہو گا آپ نے۔۔۔” تناوش کی بھوری آنکھیں دہک رہی تھیں اور وہ ہوش کھو چکا تھا۔۔۔۔
باپ نے اُسے گھونسوں اور لاتوں پر رکھ لیا۔۔۔ وہ بھی بھرپور انداز میں اپنا دفاع کر رہا تھا ۔۔۔ ماں نے شوہر کے ہاتھ پکڑ لیے ۔۔۔
“اللّٰہ کا واسطہ آپ کو۔۔۔ بس کر دیں۔۔۔ وہ غلط کہے گا تو کیا آپ بھی غلط ہی کریں گے۔۔۔”
“جی چاہ رہا ہے اسےجان سے مار دوں۔۔۔”عبدالرحیم بصد دقت اسے چھوڑ کر پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔ جبکہ تناوش اس طرح گردن اکڑائے کھڑا تھا جیسے کوئی فاتح ہو۔۔۔
” کان کھول کر سن لو۔۔۔۔ تمہارا گھر سے نکلنا ٹوٹل بند۔۔۔ کالج کو بھی بھول جا۔۔۔ جب تک انسان کا بچہ نہیں بنے گا اور اس راحم سے دوری رکھنے کا وعدہ نہیں کرے گا ۔۔۔ تب تک ہر سرگرمی بند۔۔۔ فون ماں کو پکڑا دو۔۔۔ دیکھ لیتا ہوں میں تمہارے سارے ایکٹ شکٹ۔۔۔”
“کیسا بدبخت ہے یہ؟” باپ نے مڑ کر ماں سے بات کرنی شروع کر دی تھی۔۔۔
” جس ایکٹ کی یہ بات کر رہا ہے اس کا جو انت ہونے جا رہا ہے نا!ذرا وہ بھی اس نالائق کو بتا دو۔۔۔”
تناوش کا باپ دھڑسے دروازہ مار کر باہر نکل گیا۔۔۔ ماں بیچاری کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہےاور کیا کرے۔۔۔ اس نے موبائل کی طرف اشارہ کیا تو تناوش نے چپ چاپ فون ماں کی طرف بڑھا دیا۔۔
دیر رات ماں نے تناوش کے کمرے کا دروازہ کھولا ۔۔۔وہ بے خبر سو رہا تھا ۔۔۔ماں نے اُس کی اسٹڈی ٹیبل پر کچھ کتابیں اُس کی کتابوں میں ملا کر رکھیں اور اُسی خاموشی سے باہر نکل گئی۔۔۔
ٹیرس پر بے چینی سے ٹہلتے ہوئے سلمی نے آسمان پر نظر جمائی تو آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے ۔۔۔
جائے نماز بچھا کر وہ اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو گئی اور تناوش کے لئے ہدایت کی دعا مانگنے لگی ۔۔۔
بنا موبائل کے ،بہت مدت بعد ،کچھ وقت بھی گزارنا تناوش کو بہت بھاری پڑگیا تھا۔۔۔ بستر پر بے چین کروٹیں بدلتا وہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔
بے خیالی میں وہ اسٹڈی ٹیبل پر جا بیٹھا ۔۔۔ایک کتاب سامنے رکھی تھی ۔۔۔اللہ جانے کون سی تھی ۔۔۔وہ کسی میکانکی کیفیت کے تحت اُس کے صفحے الٹنے لگا ۔۔۔اچانک اس کی نظر جم گئی۔۔۔عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ کے بارے میں لکھا ہوا تھا کہ وہ عیش و مستی میں ڈوبے ہوئے تھے کہ قرآن کی یہ آیت کان پڑی تو ان کے دل کی دنیا بدل گئی ۔۔۔
“کیا ایمان لانے والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں ۔۔۔اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ایک لمبی مدت اُن پر گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہو گئے اور آج اس میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں ۔”سورۃ الحدید آیت نمبر 16
تناوش کو ایک زبردست جھٹکا سا لگا ۔۔۔
میرا وقت کب آئے گا ؟؟ کیا میرا دل سخت ہو کر فاسق بن چکا ہے؟؟ اس سوچ نے ایک لمحے میں اس کے دل کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی ۔۔۔
کچھ اس کے دل و دماغ کی کیفیت ویسے عجیب سی ہو رہی تھی ۔۔۔
کچھ گھر میں سختی اور تناؤ کا ماحول تھا
اور
کچھ ماں کی دعا جو ابھی ابھی تڑپتے دل سے کی گئی تھی ۔
تو تناوش کے اندر کچھ پگھلنے سا لگا اسے یاد آیا کہ کتنے ہی وقت سے اُس نے کوئی ایک نماز بھی نہ پڑھی تھی۔۔۔ایک جُھرجُھری سی لی اُس کے سارے جسم نے۔۔۔
اگر اِس وقت مَیں مر جاؤں تو۔۔۔
کیا ہوگا میرا انجام؟؟
کیا میرے لیے ہو گی کوئی معافی؟؟؟
اللہ کیا سوچتا ہے میرے بارے میں ؟؟؟
اِن متضاد کیفیات نے تناوُش کے دل پر گہرا اثر کیا تھا ۔۔۔اُس نے کتاب پر بے چین سی نظریں دوبارہ جمائی تھیں ۔۔
“اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔”صحیح بخاری
یہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو نیزے کی انّی کی طرح اُس کے اندر ہی کُھب گئی ۔۔۔وہ کثافت اور گندگی جو اس کے اندر فعلِ قومِ لوط(علیہ سلام) نے پیدا کی تھی ۔۔۔وہ موٹے موٹے اشک بن کر اُس کی آنکھوں سے بہہ نکلی تھی اور وہ زمین پر ہی سجدہ زیر ہو کر زاروقطار رونے لگا تھا
صبح ناشتے کی میز پر اس نے سر جھکا کر ماں باپ سے معافی مانگی تھی۔۔
” پاپاـــ!! امی !! دعا کرئیے کہ اللّٰہ بھی مجھے معاف کر دے۔۔” اس کے لہجے میں کچھ تو ایسا تھا کہ ماں باپ دونوں کو لگا کہ تناوش کے اندرکچھ تو بدلاؤ آیا ہے۔۔۔
اور دوپہر کو جمعے کی نماز کے لیے وہ مَل مَل کر نہایا اور ٹوپی سر پر جما کر جب باہر آیا تو ماں نے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا اور رونے لگی۔۔۔
“امی! آپ کا بہت شکریہ۔ “
اس نے ماں کے گلے سے لگے لگے ہلکی آواز میں کہا تو سلمیٰ بیگم روتے روتے ہنس پڑی۔۔۔
اس کی پیشانی چوم کر بولی
“اللّٰہ پاک میرے بچے کو ہدایت کے راستے پر آگے سے آگے لے جائے ”
اگلے ہفتے اس نے باپ سے کالج جانے کی اجازت مانگی تو اُسے آرام سے اجازت مل گئی ۔ عبدالرحیم کچھ بولنے لگے تھے کہ سلمیٰ نے اُن کا کندھا دبا دیا اور بولی
“جاؤ میرا بچہ ـــ!! دھیان سے دل لگا کر پڑھنا۔۔۔”
کالج میں جب اس کاراحم سے سامنا ہوا تو اس کی سانسیں کھنچنے لگیں ۔۔۔۔
وہ دیوانوں کی طرح آ کر تناوش کے گلے لگا تو تناوش کو کراہت سی محسوس ہوئی ۔۔۔
“پلیز راحم ـــ! میں وہ سب کچھ اب جاری نہیں رکھنا چاہتا پلیز۔۔۔” اس نے راحم کو دور ہٹایا تھا۔۔۔
راحم کی آنکھوں میں حیرت تھی۔۔۔
“جانی ـــ! دل بےحد اداس ہے تجھ سے۔۔۔۔” راحم نے دوبارہ لپٹنا چاہا تھا مگر تناوش پیچھے ہو گیا۔۔۔
“کیا تو مجھ سے پیار نہیں کرتا۔۔۔ یاد ہے تو نے کہا تھا تو میرے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔۔”
“غلط کہا تھا۔۔۔۔ اور پلیز مجھے کلاس میں جانا ہے۔۔۔
راحم نے اس کے ہاتھ پکڑ کر اسے روکنا چاہا مگر تناوش ہاتھ کھینچ کر پیچھے ہو گیا۔۔۔
اب راحم کے گندے ارادے اسے روک نہیں سکتے تھے کیونکہ اس نے درِ باطل کی دربانی کو چھوڑ کر اس وحدہُ لاشریک کے در کی دربانی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو انسان کے اندر سے گندگی صاف کر کے اسے پاکیزہ بنا لیتا ہے اور پھر اپنے در پر اُس کی میزبانی فرماتا ہے۔