فلاسفر

شفیق الرحمن
فلاسفر
کافی سوچ بچار کے بعد ایک تجویز رفو کے دماغ میں آئی۔ بولے، ’’تو تمہیں سزا ہی دینی ہے نا انہیں؟‘‘

’’یقیناً!‘‘ میں نے سر ہلا کر کہا۔

’’تو کیوں نہ ان سے محبت کی جائے؟‘‘ وہ میرے کان میں بولے۔

آہاہاہا۔۔۔! کتنی اچھی تجویز تھی۔ محبت کے آگے تو بھوت بھی ناچتے ہیں، اور یہ تو ہیں محض فلاسفر! ہم دونوں نے ہاتھ ملائے۔ یہ بہترین تجویز تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ محبت کون کرے؟ ہم میں سے کوئی بھی اس ذمہ داری کو سر لینا نہیں چاہتا تھا۔ ایسی ویسی محبت ہوتی تو کر بھی لیتے۔ فلاسفر سے محبت کرنی تھی۔ معاملہ خطرناک تھا۔ میں نے بڑی عاجزی سے کہا، ’’بھئی اب تم ہی کرلو۔‘‘ کیوں کہ وہ ذرا دبلے پتلے سے تھے اور ان کی صحت محبت کرنے کے لیے زیادہ موزوں تھی۔ وہ تقریباً گڑگڑا کر بولے، ’’نہیں نہیں! مجھے معاف کردو تو بہتر ہوگا۔ اول تو میں نے ابھی تک کچھ پڑھا نہیں اور دوسرے یہ کہ مجھے زکام سا رہتا ہے ہر وقت۔ پھر ایمان کی بات تو یہ ہے کہ مجھے عینک سے بھی ڈر لگتا ہے!‘‘ میں نے بھی بڑے بڑے بہانے پیش کیے، مگر ایک نہ چلی۔ آخر فیصلہ ہوا کہ میں اسی اتوار سے محبت شروع کر دوں۔ اس کے لیے پروگرام بنایا جائے اور ریہرسل بھی باقاعدہ کیے جائیں۔

اگلے دن ایک چھوٹا سا انگریزی کا افسانہ شکیلہ کو سنانے گیا۔ پہلے تو وہ سنتی ہی نہ تھیں۔ بڑی مشکل سے انہوں نے مجھے دس منٹ دیے۔ میں نے افسانہ شروع کیا کہ کس طرح چلتی ریل میں سے ایک لڑکی دریا میں گر پڑی جو نیچے بہہ رہا تھا۔ پل کے نیچے ہیرو نے جو کشتی چلا رہا تھا، لپک کر لڑکی کو کرکٹ کی گیند کی طرح ’’کیچ‘‘ کرلیا اور چیخ کر بولا، ’’ ہاؤ اِز اِٹ!‘‘ ریل کے گارڈ نے جو خوش قسمتی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا، امپائر کی طرح انگلی اٹھائی اور چلا کر کہا، ’’آؤٹ!‘‘ پھر ہیرو ہیروئن کی آنکھیں چار ہوئیں۔

’’آنکھیں چار ہوئیں؟‘‘ انہوں نے چونک کر پوچھا۔

’’جی نہیں! معاف کیجیے۔۔۔ آنکھیں چھ ہوئیں!‘‘ میں نے ان کی عینک کی طرف اشارہ کرکے کہا، ’’اور اگر ہیرو نے بھی کہیں چشمہ لگا رکھا ہو تو پھر آنکھیں آٹھ ہوئیں۔ اور نگاہیں شیشوں کو پار کرکے ایک دوسرے سے لڑگئیں۔۔۔ اور۔۔۔!‘