چارپائی

مشتاق احمد یوسفی
چارپائی
غور کیجئے تو مباحثے اور مناظرے کے لیے چارپائی سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ اس کی بناوٹ ہی ایسی ہےکہ فریقین آمنے سامنے نہیں بلکہ عموماً اپنے حریف کی پیٹھ کا سہارا لےکر آرام سے بیٹھتے ہیں اور بحث وتکرار کے لیے اس سے بہتر طرز نشست ممکن نہیں، کیونکہ دیکھا گیا ہےکہ فریقین کو ایک دوسرے کی صورت نظر نہ آئے تو کبھی آپے سے باہر نہیں ہوتے۔ اسی بنا پر میرا عرصے سے یہ خیال ہے کہ اگر بین الاقوامی مذکرات گول میز پر نہ ہوئے ہوتے تو لاکھوں جانیں تلف ہونے سےبچ جاتیں۔ آپ نے خود دیکھا ہوگا کہ لدی پھندی چارپائیوں پر لوگ پیٹ بھر کے اپنوں کی غیبت کرتے ہیں مگر دل برے نہیں ہوتے۔ اس لیےکہ سبھی جانتے ہیں کہ غیبت اسی کی ہوتی ہے جسے اپنا سمجھتے ہیں اور کچھ یوں بھی ہے کہ ہمارےہاں غیبت سےمقصود قطع محبت ہے نہ گزارش احوال واقعہ بلکہ محفل میں لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔
لوگ گھنٹوں چارپائی پر کسمساتے رہتے ہیں مگر کوئی اٹھنے کا نام نہیں لیتا۔ اس لیےکہ ہر شخص اپنی جگہ بخوبی جانتا ہے کہ اگر وہ چلا گیا تو فوراً اس کی غیبت شروع ہو جائے گی۔ چنانچہ پچھلے پہر تک مرد ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈالے بحث کرتے ہیں اور عورتیں گال سےگال بھڑائےکچر کچر لڑتی رہتی ہیں۔ فرق اتنا ہےکہ مرد پہلے بحث کرتے ہیں، پھر لڑتے ہیں۔ عورتیں پہلےلڑتی ہیں اور بعد میں بحث کرتی ہیں۔ مجھے ثانی الذکر طریقہ زیادہ معقول نظر آتا ہے، اس لیے کہ اس میں آئندہ سمجھوتے اور میل ملاپ کی گنجائش باقی رہتی ہے