مرچ مسالہ

مرچ مسالہ
تبسسم حجازی
1986

عورت کیا ہے۔۔۔اس پر بے شمار آرا فلسفے اور کہانیاں ہیں۔۔۔یہ خدا کی ایک تخلیق ہے ، کائنات کا حسن ہے۔ زمانے کی تکمیل ہے یا زمین پر خدا کے وجود کا سب سے خوبصورت ثبوت یا مرد کی ایک ضرورت ہے ۔۔مختلف مذاہب اور عقائد کی رو سے عورت کا وجود مرد کے وجود کا ایک حصہ ہے ۔ادب کی زبان میں کہا جائے تو عورت مرد کے وجود سے جدا ہونے والا لافانی حسن ہے جس کے بنا اور جس کے انکار سے دنیا کا ہر مرد ادھورا ہے ۔ عورت نہ صرف دنیا میں مرد کو لانے کا ذریعہ ہے بلکہ انسان کی پہلی تربیت گاہ بھی ہے ۔ بچے کی نگہداشت سے لے کر اسے معاشرے کا فعال شخص بنانے تک ہر قدم پر عورت کا وجود ماں بہن بیوی کی شکل میں اس کا معاون ہوتا ہے ۔

گذرے وقت کے ساتھ عورت کی سوچ کو محدود کردیا گیا اور عورت کے لیے عقل و شعور , تعلیم اور سوچنے کے تمام در اس طرح بند کیے گئے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو افزائش نسل کا ایک ذریعہ اور گلدان میں سجا پھول سمجھنے لگی لیکن اٌس دور میں بھی جب عورت کو مرد کی چتا پر زندہ جلا دیا جاتا تھا جب عورت کاری کر دی جاتی تھی جب عورت مرد کی ضرورت پوری کرنے کا نام تھا تب بھی خواتین کے ایک طبقے نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور معاشرے میں اپنی بقا کی کوشش جاری رکھی اور عورت کے پہچان کی لڑائی کسی مرد کے خلاف نہیں بلکہ صدیوں سے قائم اس استحصالی سوچ کی خلاف ہے جس کا شکار آج نہ صرف مرد ہیں بلکہ بہت ساری خواتین بھی اس گھٹن کو جائز و احسن سمجھتی ہیں۔۔

کیتن مہتا کی بنائی ہوئی خوبصورت فلم مرچ مسالہ کی تھیم یہی ہے کہ عورت کتنی بھی کمزور ہو اور ظالم کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو جب عورت اپنی عزت اور وقار کے لئے کھڑی ہو جائے تو پہاڑ بن جاتی ہے ۔۔فلم کی کہانی برٹش دور کی ہے لیکن آج بھی اتنی ہی relevant ہے۔

فلم کچھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے بارے میں ہے جہاں مرچوں کی کاشت ہوتی ہیں اور گاؤں کی تقریبا ساری عورتیں مرچ کوٹنے والے کارخانہ میں کام کرتی ہیں۔ گاؤں کا مکھیا سریش اوبرائے ایک کرپٹ انسان ہے اپنی بیوی دیپتی نول کو جوتی کی نوک پر رکھتا ہے بیٹی کو اسکول بھیجنے سے انکاری ہے اور عیاشی کو اپنا حق اور شان سمجھتا ہے۔ گاؤں قحط سالی کا شکار ہے ایسے میں صوبہ دار نصیر الدین شاہ لگان کی وصولی کے لئے آتا ہے اور گاؤں والوں کا پیسہ اور ان کی عورتوں کی عزت کو اپنا حق سمجھ کر وصول کرتا ہے۔اسی گاؤں کی ایک عورت سن بائی سمیتا پاٹل ہے جس کا شوہر کام کے لئے شہر گیا ہوا ہے۔ صوبہ دار سن بائی کو دیکھ کر دست درازی کرتا ہے اور جوابا سن بائی اسے تھپڑ مارتی ہے۔ یہ تھپڑ صوبہ دار کی مردانگی پر بہت بڑا تازیانہ ہوتا ہے اور وہ اس کا بدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے ۔سن بائی کو خریدنے کی کوشش ،مکھیا کے ذریعے پریشر ڈالنے کی کوشش لیکن سن بائی مرچوں کی فیکٹری میں جا چھپتی ہے جہاں کا بوڑھا چوکیدار ابو اس کی حفاظت کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ گاؤں کے مرد صوبیدار کے عتاب سے بچنے کے لئے یہی چاہتے ہیں کہ سن بائی اس کے پاس چلی جائے لیکن وہ اپنی عزت کے لئے ڈٹ کھڑی ہوتی ہے اور اس کا ساتھ دینے کے لئے چند کمزور عورتیں اور ایک بوڑھے چوکیدار کے سوا کوئی نہیں ہوتا ۔۔کہانی کا انجام کوئی فیری ٹیل یا کمرشیل فلموں کی طرح سب ٹھیک ہوجاتا ہے جیسا نہیں ہے لیکن پھر بھی فلم ایک مثبت پیغام کے ساتھ ختم ہوتی ہے ۔۔
فلم کی کہانی بظاہر سیدھی سادی ہے مرکزی پلاٹ کے علاؤہ دیگر سماجی مسائل جہالت ، علم سے دوری ، کرپشن، استحصال ، کاسٹ سسٹم اور جہیز ان سب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
فلم کی آرٹ ڈائریکشن عمدہ ہے مناظر حقیقت سے قریب ہیں۔ فلم کی کہانی غمگین اور تکلیف دہ ہونے کے باوجود فلم کے ہر سین میں شوخ رنگ استعمال ہوئے ہیں خاص کر سرخ رنگ جو جذبات بغاوت اور انقلاب کا رنگ سمجھا جاتا ہے ۔۔فلم میں دو فولک گیت ہیں جو فلم کی مناسبت سے اچھے لگتے ہیں۔ فلم کی اصل جان اس کی ڈائریکشن اور اداکاری ہے۔ کیتن مہتا نے عورتوں کے کئی رنگ بڑی خوبصورتی سے پیش کئے ہیں۔ اپنے حق کے لئے لڑنے والی ، محبت میں سب کچھ لٹانے والی ، اپنی نسوانیت کا غلط استعمال کرنے والی ۔۔لیکن اس کے باوجود کوئی بھی عورت بے چاری نہیں لگتی۔فلم آرٹ قسم کی ہونے کے باوجود سست نہ ہو کر تفریحی اور کسی حد تک تھرلنگ ہے ۔۔صوبیدار کا کردار برٹش راج کے افسران کے ظلم اور آوارگی کی مثال کے طور پر بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ پہلی بار گاؤں والوں کا گراموفون سن کر ریکشن والا سین کلاسک ہے ۔
اداکاری کی بات کریں تو فلم میں آرٹ فلموں کے ٹاپ اسٹار سمیتا پاٹل اور نصیر الدین شاہ اور اوم پوری دیپتی نول موجود ہیں جو اداکاری کا معیار تسلیم کئے جاتے ہیں اور سمیتا پاٹل نے ایک مضبوط عورت کا کردار بڑے شاندار انداز میں نبھایا ہے لیکن سب سے متاثر کن اداکاری نصیرالدین شاہ کی ہے ۔ظلم اور آوارگی سے بھرپور ایسا کردار جس سے شدید نفرت محسوس ہوتی ہے۔ ان کے علاؤہ اوم پوری نے ابو میاں کے بوڑھےچوکیدار کے رول میں کمال کیا ۔ فلم میں دو الگ الگ بیک گراؤنڈ کی عورتیں دکھائی ہیں جو سسٹم کے خلاف اور ظلم کے خلاف کھڑی ہوتی ہیں ایک غریب نچلی ذات کی سن بائی او دوسری اونچی ذات اور امیر گھر کی بہو دیپتی نول دونوں نے مختلف لیول پر عورت کی جدو جہد کو بہت عمدگی سے پردے پر پیش کیا۔ دیپتی نول اپنے شوہر کی سختی اور جبر کے باوجودِ بار بار آواز اٹھانے کی کوشش کرتی دوسروں کو جگاتی اور آخر میں سن بائی کی مدد نہ کر پانے ہر اس کا اظہارِ بے بسی دل کو چھو جاتا ہے۔ اسی طرح سمیتا پاٹل کا بنا ڈائلاگ کا آخری سین مضبوطی اور ہمت کا ایسا میسج دیتا ہے کہ دیکھنے والا اسے بھول نہیں پاتا ۔

ان کرداروں کے علاؤہ چھوٹے چھوٹے کرداروں میں سریش اوبرائے ، بنجامن گیلانی ، رتنا پاٹھک ، سپریا پاٹھک ، دینا پاٹھک ، موہن گوکھلے، ہریش پٹیل ، اشوک سراف جیسے اداکاروں نے فلم کے ہر سین کو جاندار بنایا ہے۔۔ان کے علاؤہ پریش راول بھی ایک سین کے رول میں نظر آتا ہے ۔

مرچ مسالہ ایک ایسی فلم جو معاشرے کے ہہت سے مسائل پر سوال اٹھاتی ہے جو سو سال بعد ہھی کسی نہ کسی صورت میں آج بھی معاشرے میں موجود ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ کوئی بورنگ سی آرٹ فلم نہ ہو کر ایک دلچسپ تھرلنگ ڈرامہ بھی ہے ۔کیتن مہتا نے ایک میسج فلم اور ایک کمرشیل تفریحی فلم کے بیچ اچھا توازن رکھا ہے۔ اس لئے یہ فلم آج بھی ذوق و شوق سے دیکھی جاتی ہے ۔