آخری سیٹی

آخری سیٹی
دسمبر کی سرد راتوں میں رات کے کسی پہر کسی ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کی آمد اور شور شرابہ کے دوران مسافروں کا آنا جانا بڑا دلفریب لگتا ہے ۔
مجھ جیسے لوگ جو ریلوے اسٹیشن میں بنا کسی سفر کی طلب کے بھی ہر رات موجود ہوتے ہیں اور مسافروں کے چہروں پر کئی رنگ دیکھتے ہیں ۔
چُھک چھُک چلتی ریل زندگی جیسی ہوتی ہے جو تھوڑی دیر لیے اسٹیشن پر آتی ہے کچھ ادھورا کام پوری کرتی ہے چند مسافروں کو اپنوں سے ملا دیتی ہے اور کچھ چھین کر لے جاتی ہے۔
جانے والوں کو الوداع کہنے والوں کے چہروں پر اداسی کی ایک کیفیت ہوتی ہے ریل کی سیٹی ان کی اس کیفیت کو چھپا لیتی ہے وہ اداس دل سے بس ہاتھ ہلا دیتے ہیں۔
ریل سے اترنے والوں کے چہرے خوشی سے تمتماتے ہیں ۔ سرد موسم میں جیکٹوں میں ملبوس اور گرم لباس میں ناک لپیٹے مسافر منہ سے بھاپ نکالتے ریل سے خوشی خوشی اترتے ہیں ۔
ان کو چھوڑ کر ریل گاڑی آگے بڑھ جاتی ہے اور ریل کے اس دو منٹ آنے جانے کے دوران ریلوے اسٹیشن پر زندگی پوری رفتار سے بھاگتی ہے
گرم چائے ، ابلتے قہوے ، نان اور شامی کی آوازیں ، شام کے اخبار ۔۔
یہ سب دو منٹ کے لیے متحرک ہوتے ہیں اور پھر ریل آ کر گزر جاتی ہے اور اس کے بعد زندگی کی یہ تحریک رک جاتی ہے ۔
دیکھتے ہی دیکھتے چند منٹ میں اسٹیشن خالی ہو جاتا ہے ۔ سرد ہوا اور دھندلی شام میں کچھ گندی میلی چادروں میں لپٹے سونے کی ناکام کوشش کرتے فقیر ، دور سے روشن ایک لال سی بتی ۔خالی پٹری پر گونجتے سناٹے کی آواز ۔۔۔
اور اس سے کچھ ہی دور ایک اکیلا انسان ۔ اس منظر کو اپنے اندر سموتا ہوا میں ۔
یہ منظر روز ہی خود کو دہراتا ہے ۔
ہر دن کی آخری ریل 12.40 پر آتی ہے اور اس کے بعد اندھیرا سناٹا ویرانہ اور اجنبیت پھیل جاتی ہے ۔ریلوے اسٹیشن پر زندگی کی رمق دل توڑ دیتی ہے۔
ہزاروں لاکھوں مسافروں کو یہاں پناہ دینے والا ، استقبال کرنے والا یہ مسافر خانہ خاموشی کے شور میں گم ہو جاتا ہے چند درویش، کچھ فقیر اور میں ۔۔ اور ایک رش سے بھرپور، ویران ریلوے اسٹیشن ۔۔ سرد راتوں میں یہ زندگی کی بے وفائی اور انسانی امید کی کہانی محسوس ہوتی ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں