اسٹرابیری

اسٹرابیری
ربیعہ سلیم

سمیرا کہنے لگی
“مردوں کے پاس ایک کہانی کو چھپانے کیلئے کتنی کہانیاں ہوتی ہیں ۔اور ہم عورتوں کے پاس ہزار درد چھپانے کا بس ایک ٹوٹکا ۔
” اینویں ۔۔امی یادآگئی تھیں .میں سمیرا کی بات سن کر چپ رہی میرے دائیں ہاتھ میں چار کلو کا تربوز تھا ۔
وہ بولتی رہی .
” ہم سیدھی سادھی عورتوں کو مرد بھی ایسے گھنے ملتے ہیں جن کی ساری زندگی خود کو بگاڑنے میں گذری ہوتی ہے اور ساری دنیا چاہتی ہے کہ ہم انہیں اور اس گھر کو سنواریں ۔”
مجھے پنجابی کی ایک کہاوت یاد آگئی جو ان مردوں کے بارے میں تھی جن کی پیدائش پہ دیواریں کانپتی ہیں۔میں کہاوت سوچ کر ہنس دی ۔
سمیرا کو میرا اس طرح ہنسنا برا لگا تنک گئی ۔
تم ہنس رہی ہو میرا خصم گھر میں ایسے تنتناتا پھرتا ہے جیسے بچے ہوئے شوربے کا اکیلا آلو ہو ۔”
ہم عورتیں بھی ناں ۔
مرد کو سرہانے کا سانپ سمجھتی ہیں ۔سانپ تو ایک بار ڈستا ہے ۔
یہ تو اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے سوبار ٹوکتے ہیں ۔
اور ہم عورتیں اخراجات سے پیسے ٹُک ٹُک کر ایک جوتی ایک سوٹ کا خواب کتنی بار دیکھتی ہیں ۔
سمیرا کچھ کہہ رہی تھی مگر میں کہاں سن رہی تھی ۔
میرے چاردیواری میں تو اس کے گھر سے زیادہ حبس تھا