قلوپطرہ
قلوپطرہ فرعونوں کے خاندان کی نمائندہ خاتون کہی جا سکتی ہے ۔وہ خاندان جہاں نسل در نسل فرعون مسند اقتدار پر قابض رہتے تھے اور عورتوں کا کردار اور زندگی زچگی سے آگے نہ بڑھتی ۔اس ماحول میں قلوپطرہ کا حکومت میں آنا ، اقتدار سنبھالنا اور پھر اس کو عقل و شعور کے ساتھ قائم رکھنے کی کوشش کرنا قلوپطرہ کی ذہانت و فطانت کا ثبوت تھا ۔
آج سے 2 ہزار سال قبل کی ایک خاتون کا حکومت کرنا ایک خواب اور افسانوی قصہ محسوس ہوتا ہے لیکن قلوپطرہ نے اس افسانے میں حقیقت کے رنگ بھرے تھے۔تاریخی طور پر جب قلوپطرہ کا ذکر کیا جائے تو کہا جاتا ہے وہ اپنے حسن کے جلوؤں، اپنی بھر پور نسوانیت اور قاتل اداؤں کے ساتھ اقتدار پر قابض نظر آتی ہے جس نے اپنے سراپے کے بل بوتے پر مسند کو سنبھالا۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ قلوپطرہ نے اقتدار حاصل بھی لڑ کر کیا اور اس کو دوام بھی ہمت و حوصلہ سے دیا ۔
قلوپطرہ۔۔اس نام کے ساتھ ہی ایسا اساطیری کردار ذہن میں آتا ہے جو انتہائی حسین، چالاک عورت کا ہے۔جس کے حسن کے قصیدے تاریخ میں بھرے پڑے ہیں۔لیکن قلوپطرہ صرف مجسمہ حسن و جمال نہیں تھی وہ اپنے دور میں مصر کی آخری حکمران تھی جس کے بعد مصر رومن ایمپائر کا حصہ بن گیا تھا ۔
اسکالرز کے مطابق قلوپطرہ کی پیدائش 69 قبل مسیح کو تلومی فرعون خاندان میں ہوئی ۔ان کے والد الیتیس سکندر اعظم کے جنرل تھے اور مصر میں تلومی خاندان کے بانی تھے ۔اپنے والد کی موت کے باعث اٹھارہ سال کی عمر میں قلوپطرہ اپنے دس سالہ بھائی کے ساتھ تخت کی حقدار ٹھہری۔ ملکہ بننا کوئی آسان کام نہیں تھا اس لیے ملکہ بنتے ہی کئی مسائل اس کے سامنے آگئے جن میں قحط اور دریائے نیل کی سطح میں کمی کے علاؤہ اپنے والد کا رومن حکومت سے لیا بہت بڑا قرض بھی شامل تھا ۔بیرونی مسائل اور پھر معاشرتی سطح پر کمزوری کے ساتھ ساتھ وہ محلاتی سازشوں میں بھی گھری ہوئی تھی لیکن اس تنہا عورت نے اس سب کا سامنا کیا۔
قلوپطرہ نے اپنے بھائی کا حق ماننے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں مصر میں خانہ جنگی چھڑ گئی ۔قلوپطرہ نے رومن جنرل جولیس سیزر کی مدد حاصل کی اور حکومت کا پلڑا اپنی طرف جھکا لیا ۔۔
قلوپطرہ اور جولیس سیزر کا تعلق بہت سی کہانیوں قصوں کا حصہ بنتا رہا ۔۔جولیس کی موت کے بعد ان کا بیٹا سیسیریون اپنی ماں کے ساتھ تخت کا وارث بنا۔ بیٹے کی موجودگی میں بھی عملی طور پر تمام مصائب کا سامنا قلوپطرہ نے ہی کیا اور اس کے بعد بھی قلوپطرہ کی مصر کے تخت کو بچانے کی لڑائی جاری رہی ۔اس نے سیزر کی موت کے بعد مارک انتھونی سے شادی کرلی جس سے تین بچے ہوئے ۔انتھونی کے ساتھ مل کر قلوپطرہ نے کئی لڑائیاں لڑیں اور آخر کار 30 قبل مسیح میں سیزر کے بھانجے اکٹوین نے مصر پر حملہ کردیا اور مارک انتھونی اور قلوپطرہ کے بحری بیڑے کو شکست ہوئی۔۔
قلوپطرہ اور اس کے تینوں بچے گرفتار کرلئے گئے لیکن قلوپطرہ نے رومن حکومت کی فتح یابی کے جشن کا حصہ بننے سے صاف انکار کرتے ہوئے زہر کھا کر 10 اگست کو اپنی جان دے دی اسے اپنے مقبرہ میں شاہانہ انداز سے دفن کیا گیا ۔
قلوپطرہ نے اپنے دور حکومت میں اپنی مملکت کے سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے ۔ ملکی معاملات اور معاشی مسائل سے لے کر مذہبی تقریبات کی سربراہی تک کی۔ اس نے جہاں اقتدار کو اپنے پاس رکھا وہیں اس نے تمام مشکلات کا سامنا بھی کیا اور ہمیشہ تدبر اور عقل و شعور کے ساتھ اپنا اقتدار بچاتی چلی گئی ۔
قلوپطرہ کے بارے میں کچھ باتیں جو عام طور جانی نہیں جاتی جیسے کہ وہ مصری نہیں یونانی تھی۔ قلوپطرہ آرٹ اور داستانوں میں اپنی خوبصورتی اور نسوانیت کے استعمال کے لئے مشہور ہے لیکن حقیقت میں وہ کہیں ذہین عورت تھی اسے بارہ کے قریب زبانیں آتی تھی ۔اس نے ریاضی ،فلسفہ ، نجوم اور لسانیات کی تعلیم حاصل کی تھی۔قلوپطرہ کے ہئیر اسٹائل اور جیولری کو اس وقت کے روم میں بھی نقل کیا جاتا تھا اور یہ بھی کہ قلوپطرہ نے کئی لڑائیوں میں بحری بیڑے کی قیادت کی ہے ۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تاریخ کے چند ایسے حکمرانوں میں شامل رہی ہے جن کے عروج و زوال سے قطع نظر ان کے ذکر کے بنا تاریخ ادھوری محسوس ہوتی ہے ۔وہ دنیا میں عورتوں کی توانا آوازوں میں اولین نمبر پر یاد کی جاتی ہے جس نے عورت ہوتے ہوئے نا صرف اقتدار حاصل کیا بلکہ مرتے دم تک اس کی شان کو برقرار رکھنے کی کوشش بھی کی۔
حالیہ تبصرے