کراہت
کراہت
حمیرا ثاقب
ات کے دو بجے جب سب گہری نیند سو رہے تھے تو سیرت کو عجیب سی گھبراہٹ ہوئی اور ایکدم اُس کی آنکھ کُھل گئی… چاند کی روشنی ملجگی سی تھی اور ماحول پر تاریکی ہی غالب تھی…. چھوٹے سے صحن میں دو قطاریں بنائے گھر کے سب لوگ مدہوش سو رہے تھے۔ پیڈسٹل فین کی مخصوص سی گھوں گھوں سے ماحول کی خاموشی ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی…. سیرت کی چارپائی صحن کے انتہائی کونے میں تھی۔ اُس نے تنزیلا کو چھت کی سیڑھی کی طرف بڑھتے دیکھا تو حیرت اور خوف کے مارے اس کی سانسیں اٹک گئیں…. اُسے یوں لگا جیسے اُس کے جسم نے حرکت کرنا بند کر دی ہے… اُس کے دیکھتے دیکھتے تنزیلا وہ دس بارہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنی چھت سے ساتھ والی چھت پر اُتر گئی… دونوں چھتوں کے درمیان صرف تین فٹ کی دیوار حائل تھی… جسے اُس نے بآسانی عبور کر لیا… سیرت کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی…. اُسے اپنے سکوت پر بھی حیرت تھی اور تنزیلا کی دیدہ دلیری پر بھی…. بھائی، ماں، دو بہنیں اور جواں سال بھابھی کے درمیان سے اُٹھ کر یوں دیوار پھلانگتے اسے ذرا سی بھی جھجھک نہ آئی تھی…. سیرت دم سادھے پڑی رہی…. اُس کے حلق میں پیاس سے چبھن ہونے لگی تھی مگر اُس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ اُٹھ کر برآمدے میں رکھے کولر سے پانی ہی پی لیتی…. اُسے ایک انجانا سا خوف تھا کہ اگر اُس کے پانی پینے کے عمل کے دوران تنزیلا نیچے اُتر آئی یا اُس کا شوہر یا کوئی اور اُٹھ گیا تو تنزیلا کی خالی چارپائی دیکھ کر سیرت کی خاموشی کی وجہ ضرور دریافت کی جائے گی…
اللہ جانے کتنی دیر بعد تنزیلا دبے پاؤں اپنی چھت پر اُتری تھی اور سیڑھیاں اُتر کر اپنے بستر کے پاس آئی، جوتا پہنا اور باتھ روم میں گُھس گئی جو صحن ہی کے ایک کونے میں تھا…
سیرت پھٹی آنکھوں کے ساتھ اُسے جاتا اور پھر دس منٹ بعد واپس آتا دیکھتی رہی… چارپائی پر سکون سے ٹانگیں پسار کر تنزیلا نے آنکھیں بند کر لی تھیں….
”سیرت…! اٹھو فجر کی نماز پڑھ لو…“ راشد نے سیرت کا کندھا ہلایا تو وہ ہڑبڑا گئی۔۔۔
اللہ جانے رات کس وقت اُس کی آنکھ لگ گئی تھی… خالی ذہن کے ساتھ وہ اُٹھی اور وضو کر کے نماز پڑھنے لگی… دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو رات دو بجے کا وہ بدصورت منظر پھر اُس کی نگاہوں میں گھوم گیا… اُس نے استغفار پڑھتے ہوئے دعا ختم کی اور اُٹھ گئی…. راشد مسجد سے واپس آیا تو دوپٹے کی بُکل مارے شرافت کی مثال بنی تنزیلا نے دروازہ کھولا تھا…. راشد اپنے کمرے میں آ گیا… سیرت نارمل ہونے کی پوری کوشش کر رہی تھی… اُسے قرآن مجید پڑھتے دیکھ کر راشد مُسکرایا… اور بستر کے دوسرے کونے میں چت لیٹ گیا…
”کیا بات ہے سیرت!! تم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہیں…“ راشد اُس کی غائب دماغی کو محسوس کر رہا تھا…
سیرت چونکی تو گرم گرم چائے اُس کے ہاتھ پر چھلک گئی…
”سی“ اُس کے منہ سے بے اختیار نکلا…. راشد نے دیکھ لیا تھا… وہ اُٹھ کر نعمت خانے میں کھٹ پٹ کر کے شہد نکال لایا اور سیرت کے ہاتھ پر لگانے لگا…. صغریٰ بیگم بیٹے کی فریفتگی پر جل بھن گئیں….
”چلو اب اتنا بھی سُول نہیں ہو گیا اِسے۔ تم ناشتہ کرو…. خود ہی لگا لے گی شہد۔“ اُس نے زہر خند لہجے میں کہا تو سیرت نے ہاتھ کھینچ لیا مگر راشد سُلگ کر بولا تھا….
”اماں…!! پلیز“
”اوئے خوئے…! او زن مریدا…!! کبھی ماں بہن کی تو ایسی ایسی سائیڈ نہ لی… پلیز…..“ صغریٰ بیگم نے چبا چبا کر کہا تھا۔
سیر ت چپ چاپ جا کر ہاتھ دھونے لگی اور راشدنے چائے زہر مار کی اور فیکٹری کے لیے نکل کھڑا ہوا….
سیرت کسی مشین کی طرح معمول کے کاموں میں لگی ہوئی تھی…. مگر رات کا منظر سَن سَن کر کے بار بار اُس کی نگاہوں کے سامنے آ جاتا۔۔۔
تنزیلا آدھے گھنٹے سے آئینے کے سامنے کھڑی کبھی بال سنوار رہی تھی تو کبھی لوشن چہرے اور ہاتھوں پر ملتی….. سیرت نے دوپہر کے لیے چاول چُنتے ہوئے ایک نظر بھر کر اُس کے چہرے پر رات کے واقعے کا کوئی ملال کا تاثر تلاش کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ تو اپنا آپ سنوارنے میں اتنی مگن تھی کہ اُسے کوئی بھی اندازہ نہ ہوا…. سیرت اب برآمدے کے ایک گوشے میں بنے چھوٹے سے کچن میں کھڑی پیاز بھون رہی تھی… جب اُس کےحساس کانوں نے بیپ سنی…
”موبائل“ سیرت چونکی… مگر کس کا…؟؟ اُس کے اتنا سا سوچنے میں ہی تنزیلا نے اپنے والے کمرے میں جا کر کنڈی چڑھا لی تھی…. سیرت کے رگ و پے میں دکھ اور غصہ اکٹھے جوش مارنے لگا… صغریٰ بیگم کسی خیر سگالی دورے پر تھیں اور چھوٹی دونوں لڑکیاں سکول گئی ہوئی تھیں….
جب سیرت چاول بنا کر دہی کا رائتہ بنا چکی تو صغریٰ بیگم نے آ کر بیرونی دروازہ بجایا تھا اور تنزیلہ کھٹ سے کمرے کی کنڈی کھول کر باہر کا دروازہ کھولنے چلی گئی…. سیرت نے ایک نظر یہ منظر دیکھا تھا اور سر جھٹک کر دوبارہ کام میں مشغول ہو گئی….
چھوٹی دونوں کے آتے ہی سیرت نے صغریٰ بیگم والے کمرے میں دسترخوان لگا دیا تھا ۔۔۔
”میری کمیٹی مل گئی ہے۔“ صغریٰ بیگم نے تنزیلہ کو مخاطب کیا تھا۔۔۔
”اماں۔۔! تین ہزار مجھے دے دو نا۔۔۔! تنزیلہ نے ماں کا کندھا ہلایا تھا۔۔۔۔
”نا! کس لیے تجھے دے دوں تین ہزار ۔۔۔ سو کام کرنے ہیں میں نے “ صغریٰ بیگم نے اس کا ہاتھ جھٹکا تھا….
”اوہو اماں!! چار پیسے آتے ہی تم نے تو ماتھے پر آنکھیں رکھ لیں….“ تنزيلہ نے بدلحاظی سے کہا تو سیرت کا نوالہ حلق میں پھنسنے لگا…. بیٹی کو بگڑتے دیکھ کر صغریٰ بیگم نے اُسے چمکارا…”پتر تیرے لیے ہی سامان لانا ہے میں نے بھی۔ رضیہ آپا شبرات کے بعد تاریخ مانگ رہی ہے… “ تنزیلہ نے منہ بنایا تھا… اور چاول کھانے لگی تھی….
دو کمروں، ایک برآمدے اور ایک صحن کے اِس تین مرلے کے مکان میں جہاں گرمیوں کی راتیں شدید حبس اور تپش کی وجہ سے صحن میں سونا ناگزیر تھا…. سیرت کو کوئی گوشۂ عافیت نہ ملا جہاں وہ تنزیلہ کی ساری کتھا شوہر کے گوش گزار کر سکتی…. اپنے کمرے میں وہ شوہر کو الگ لے جا کر بتانا چاہتی تو صغریٰ بیگم کی چھیدتی نظریں اور پاس سے گزرنے پر طنزیہ بُڑ بُڑ سہنے کا حوصلہ بے چاری سیرت میں نہ تھا۔ پانچ بہنوں اور ایک چھوتے بھائی کے کنبے میں سے اُٹھ کر آنے والی سیرت کے لیے راشد جیسا خیال رکھنے والا شوہر ایک ایسی نعمت غیر مترقبہ تھا کہ وہ کسی صورت اُس کے لیے کوئی مشکل پیدا کرنے کا سوچ بھی نہ سکتی تھی…. اور نہ ہی ساس اور نندوں کے مقابلے کی اُس میں ہمت تھی…. اس لیے وہ چاہ کر بھی راشد کو اُس خطرے سے آگاہ نہ کر سکی جو کہ مُنہ پھاڑے اُن کے خاندان کے لیے سامنے آنے والا تھا….
”اماں…!! تنزیلہ کیوں روٹی نہیں کھا رہی….؟” راشد نے نوالہ توڑتے ہوئے ماں سے استفسار کیا تھا….
”بیٹا اُس کی طبیعت بہت خراب ہے…. پیٹ میں درد بتا رہی تھی…. میں نے دہی دیا ہے۔ اب روٹی نہ ہی کھائے تو بہتر ہے….“ صغریٰ بیگم کے نرم لہجے اور طویل وضاحت پر جہاں راشد نے مطمئن ہو کر نوالہ مُنہ میں ڈالا تھا۔۔۔ وہیں سیرت کے لیے مُنہ میں موجود نوالے کو حلق سے اتارنا مشکل ہو گیا تھا۔۔۔ اُسے ساس کے سفید جھوٹ پر بہت حیرت ہوئی تھی…. کون سا پیٹ درد اور کون سا دہی….
راشد کے فیکٹری آنے سے پہلے تک صغریٰ بیگم اور تنزیلہ اپنے والے کمرے میں نہ جانے کون سی کانفرنس کر رہی تھیں….
گھٹی گھٹی آواز میں صغریٰ بیگم اُسے جو کوسنے دے رہی تھی ان سے صورت حال کی سنگینی کا احساس نہ صرف سیرت کو ہو رہا تھا بلکہ دونوں چھوٹی لڑکیاں بھی بولائی پھر رہی تھیں۔۔۔ تنزیلہ سے چھ سال چھوٹی دونوں جڑواں تھیں اور ہر لحاظ سے بالکل ایک جیسی تھیں۔۔۔ دونوں ہی ماں اور بڑی بہن کی گھریلو سیاست سے بے نیاز اپنی سادہ اور معصوم سی بھابھی سے دلی لگاؤ رکھتی تھیں۔۔۔
اور اب ماں نے اُس ساری کانفرنس کو پیٹ کا درد بنا کر بیٹے کی آنکھوں میں دھول جھونکی تھی۔۔۔ تو سیرت نے سوچ لیا تھا کہ رات کے کھانے کے بعد وہ ساری بات راشد کو لازمی بتا دے گی۔۔۔ وہ جب رات کے برتن سمیٹ رہی تھی تو راشد پانی کا گلاس لینے کچن میں آیا۔۔۔”وہ بات سُنیں!! میں نے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔“ سیرت نے ساری ہمتیں جمع کی تھیں۔۔۔ راشد مسکرایا۔” اچھا میں نے بھی ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔“ سیرت نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ دبی سی ہنسی ہنس رہا تھا۔۔۔
صغریٰ بیگم کو کب برداشت تھا۔۔۔”یہ بے شرمی کے چونچلے اپنے کمرے میں کیا کرو۔۔۔ میرا لڑکیوں والا گھر ہے۔۔۔“ اُس کی اتنی ناروا بات سن کر سیرت سُن ہو گئی۔۔۔ راشد کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے۔۔۔ وہ باہر نکل گیا۔۔۔۔ سیرت پھر کچن صاف کرنے لگی۔۔۔
سارے کاموں سے فارغ ہو کر جب سیرت نے سُکھ کا سانس لیا تو تب تک سارے لوگ اپنے اپنے بستر پر لیٹ چکے تھے۔۔۔ راشد بستر پر نیم دراز سیرت ہی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ لیکن اب سیرت کے لیے نہ بات کرنا ممکن تھا اور نہ ہی دونوں میاں بیوی دو گھڑی اپنے کمرے میں ہی جا سکتے تھے کہ ابھی ابھی صغریٰ بیگم نے بے شرمی کے چونچلے کا بہت سخت طعنہ اُن کو دیا تھا۔ ۔۔
سیرت چپ چاپ اپنی چارپائی پر لیٹ گئی۔۔۔
سیرت کی دائیں آنکھ میں کئی دن سے سوزش تھی اب صبح جو اُٹھی تو آنکھیں کافی سوجی ہوئی تھیں اور بہت درد بھی ہو رہا تھا۔۔۔ راشد کی فیکٹری سے بھی آج چُھٹی تھی۔۔۔
صغریٰ بیگم کمال مہربانی سے بولیں”راشد پُتر! تم سیرت کو اُس کی امی کی طرف لے جاتے۔۔۔ کل آتے ہوئے اُدھر نڑ والے موڑ پر جو آنکھوں کا ڈاکٹر بیٹھتا ہے اُسے چیک بھی کروا لینا۔۔۔
سیرت نے اس ساری مہربانی کا سیاق و سباق سمجھ لیا تھا۔۔۔ کچھ تو تھا جو صغریٰ بیگم بیٹے کو بھی سسرال رُکنے کا عندیہ دے رہی تھیں۔ورنہ وہ تو مکلاوے کی رسم والے دن بھی رات سسرال میں نہ رُکا تھا۔۔۔
حیران تو راشد بھی تھا مگر وہ راضی ہو گیا۔ جب سے باہر سونا شروع کیا تھا۔۔۔ دونوں آپس میں بات چیت کو بھی ترس گئے تھے۔
راشد اور سیرت نے سیرت کے میکے میں بھرپور خوشگوار دن گزارا۔ کوئی نکتہ چینی نہیں، کوئی روک ٹوک نہیں ۔۔۔ دونوں ہنس ہنس کر بات کر رہے تھے۔ سیرت کی ماں نہال ہو ہو جا رہی تھی۔۔۔ اُس نے چھوٹا گوشت منگوا کر بنایا۔۔۔
دوپہر کو دونوں آرام کے لیے ماں کے کولر والے کمرے میں لیٹے تو آہستہ آہستہ سب اٹھ کر چکے گئے تو سیرت کو اندر تک سکون سا محسوس ہوا کہ اُس کی ماں کتنی سمجھ دار ہے۔۔۔ بے شرمی کے چونچلے والی بات سے آنکھیں دھواں دھواں ہوئیں تو وہ چونکی۔ راشد کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔
رات کو بھی سیرت کی ماں نے کہا کہ بیٹا تم دونوں کو لر والے کمرے میں ہی لیٹ جاؤ ہم باہر صحن میں سو جائیں گے۔۔۔سیرت نے اپنے دل کو آیت الکرسی پڑھ کر مضبوط کیا اور راشد کو ساری بات بتانے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔
سیرت کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب راشد سفید چہرے کے ساتھ بالکل دم سادھے اُس کی ساری بات سنتا رہا۔۔۔ نہ تو وہ ایک لفظ بولا اور نہ ہی سیرت کو کسی بھی بات سے ٹوکا اور نہ کوئی سوال کیا۔۔۔
سیرت نے مدھم انداز میں ساری کتھا راشد کے گوش گزار کر دی تھی۔۔۔ ایک طرف اُسے بات شوہر کو بتا دینے کا سکون تھا تو دوسری طرف راشد کے چہرے کی سفیدی سے بہت تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔
”میرا آپ کو بتانا ضروری تھا نا۔۔۔!!“ سہرت نے خاموش بیٹھے راشد کو بلایا تھا۔۔۔
”ہاں ہاں…!تم نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔ بالکل پریشان نہ ہو۔۔۔
میں تمہاری بات پر اس لئے بھی یقین کروں گا کیونکہ میں اس کے چالے بہت دن سے دیکھ رہا ہوں ۔۔۔۔اور میں تو اب تک اس کی شادی کر بھی چکا ہوتا مگر اماں بضد ہیں کہ دو ٹرک جہیز دے کر ہی بھجوانا ہے۔۔۔ اب میری تنخواہ اور ابا جی کی پنشن سے گھر کا سرکل چلے یا دو ٹرک جہیز بنے۔۔۔ تم خود بتاؤ۔۔۔ چار پیسے تمہارے ہاتھ پر رکھوں تو اماں فوراً رن مرید اور پتہ نہیں کیا کیا بنا دیتی ہیں۔۔۔“ راشد کا صحت مند چہرہ ستا ہوا تھا۔۔۔ ایک اچھی بیوی کی طرح سیرت اپنے شوہر کے درد کو اپنے دل پر محسوس کر رہی تھی۔۔۔
”میرا خیال ہے کہ کوئی مسئلہ ہی بنا ہے۔ آپ صبح ہی گھر چلے جائیں۔ میں ابو جی کے ساتھ جا کر آنکھیں چیک کروا لوں گی۔۔۔ میں دو دن اِدھر ہی رہ لیتی ہوں۔زرا آنکھ بہتر ہو گی تو گھر آ جاؤں گی۔۔۔“ سیرت جملہ ادھورا چھوڑ کر راشد کی طرف دیکھنے لگی۔
تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔سیرت تم کتنی اچھی ہو۔ تم نے تنزیلہ کی عزت کو اپنی عزت سمجھا ہے۔۔۔ ورنہ اُس کا رویہ میرے سامنے ہے۔۔۔اچھا ہے تم بھی دو دن ریسٹ کر لو۔ سارا دن گھر کے کام کر کر کے رنگ روپ کملا گیا ہے تمہارا۔۔۔“ راشد نے اُس کے ہاتھ پکڑ لیے تھے جو واقعی کافی سخت ہو گئے تھے کام کر کر کے۔۔۔
”آپ کی خاطر کرتی ہوں میں تو سب کچھ۔“ وہ یہ کہہ کر شرمائی تھی۔۔۔
”اشا جی۔۔!!“ راشد ہنسا تھا۔۔۔
راشد نے جا کر گھر کا دروازہ بجایا تو چھوٹی رابعہ نے دروازہ کھولا۔۔۔ راشد کو دیکھ کر اُس کا رنگ اُڑ گیا۔۔۔
” بھ… بھبھ… بھائی“ آپ وہ ہکلائی
”کیوں بھئی میرے سر پر سینگ نکل آئے ہیں!“ راشد کوشش کر کے ہنسا تھا اور اُسے اپنے سامنے سے ہٹایا تھا۔
رابعہ کا رنگ فق ہو گیا تھا۔۔۔۔ اس کی ماں والے کمرے کے دروازے پر رابعہ کی جڑواں راضیہ پانی کا پتیلا اندر پکڑا رہی تھی۔ اُس نے پتیلا کپڑے سے پکڑ رکھا تھا، مطلب پتیلا گرم تھا۔۔۔ صغریٰ بیگم دروازے پر نمودار ہوئی۔۔۔ پتیلا لے کر اندر چلی گئی۔۔۔ اُس کی راشد پر نظر نہ پڑی تھی۔۔۔ راضیہ بھی گھبرا کر راشد کے قریب چلی آئی۔۔۔
”بھائی آپ نے تو کل آنا تھا۔۔۔“
”او ہو بھئی!! تم دونوں تھانے دارنیاں کیوں بن رہی ہو؟ میرا گھر ہے، میں آ کیوں نہیں سکتا۔۔۔“
”اماں اندر کیا کر رہی ہیں راضیہ؟؟“ اُس نے کمرے کی طرف جاتے ہوئے سرسری طور پر پوچھا تھا۔۔۔
”پتا نہیں!! تنزیلہ آپی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔“
”طبیعت خراب ہے تو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔۔۔“
”وہ ماسی نوراں بھی ہے اندر۔“ رابعہ کے منہ سے پھسلا تھا۔
دونوں لڑکیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور دونوں کے رنگ سفید ہو گئے۔۔۔ ماسی نوراں علاقے کی ایک بدنام دائی تھی جس کی شہرت یہ تھی کہ وہ عورتوں کے پکے، کچے، جائز، ناجائز حمل گرایا کرتی تھی۔۔۔ سیرت بھی شادی کے شروع میں ہی بیمار ہو گئی تھی۔۔۔ صغریٰ بیگم نے پیسے بچانے کے لیے ماسی نوراں کو بلانا چاہا تھا مگر راشد نے انکار کر دیا۔۔۔ اور سیرت کو ہسپتال لے گیا تھا۔۔۔ حمل تو نہ بچ سکا مگر سیرت بچ گئی تھی۔۔۔
”ماسی نوراں؟؟“ راشد کا انداز اب اتنا سرد ضرور تھا کہ دونوں لڑکیاں بہت گھبرا چکی تھیں۔۔۔ ایکدم رابعہ رونے لگی۔۔۔ ”بھائی! ہمارا کیا قصور ہے ۔۔۔ جو اماں نے کہا ہم وہ ہی کر رہی ہیں۔۔۔“ راشد نے اُٹھ کر اس کا سر تھپتھپایا
”مجھے پتا ہے ۔۔۔ پریشان نہ ہو تم۔۔۔“ راشد واپس بستر پر بیٹھ گیا۔۔۔دونوں چپ کر کے اُس کے کمرے سے نکل گئیں۔۔۔
صغریٰ بیگم نے آواز دے کر رابعہ کو بُلایا اور دونوں لڑکیاں اپنے والا کمرہ صاف کرنے لگیں۔۔۔اماں کچن میں جا کر کچھ بنانے لگی۔۔۔
کچھ دیر بعد ماسی نوراں، صغریٰ بیگم سے کھسر پھسر کرنے لگی۔۔۔ اور پھر وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی بیرونی دروازے کی طرف چلی گئی۔۔۔ اُس کے باہر جاتے ہی راشد اپنے کمرے کے دروازے پر آ کھڑا ہوا۔۔۔ صغریٰ بیگم نے اُسے کچن کی کھڑکی سے دیکھا تھا اور اُس کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے تھے۔۔۔ پھر ایک دم اُس نے سنبھالا لیا تھا۔۔۔
”راشد پُتر.!! تم کب آئے؟“ وہ اُس کے قریب چلی آئی۔۔۔
”ٹھکانے لگا دیا آپ نے؟؟“ راشد نے عجیب سے سرد لہجے میں ایکدم کہا تو صغریٰ بیگم سنبھل نہ سکی۔۔۔
”کیا بک رہے ہو؟؟“ اُس کا رنگ زرد ہو گیا تھا۔۔۔
”اچھا۔۔۔!! حالانکہ آپ کو میری بات کی سمجھ تو آ گئی ہے۔“ راشد کا انداز بدستور سرد تھا۔۔۔صغریٰ بیگم کے ہونٹ کچھ کہنے کے لیے کپکپائے مگر وہ بول نہ سکی۔۔۔
”اِس دن کے لیے آپ دو ٹرک جہیز تیار کرتی رہی تھیں۔۔!! میں نے کتنا کہا آپ سے کہ امّاں سادگی سے شادی کر دیتے ہیں۔۔۔خالہ کو ہمارے سارے حالات معلوم ہیں۔۔۔“
صغریٰ بیگم کی بولتی بند ہو چکی تھی۔۔۔
”میں دو لمحے اپنی منکوحہ بیوی کے ساتھ گزاروں تو آپ اُسے بے شرمی کے چونچلے کہتی ہیں اور یہاں بے شرمی کی ہر حد ختم ہو گئی ہے تو آپ چوری چوری پردے ڈال رہی ہیں۔۔؟؟ حد ہے اماں حد ہے۔۔۔“ راشد نے بہت کوشش کی مگر وہ جذباتی ہو گیا تھا۔۔۔”اور ہاں۔۔!! جسے گھر سے نکال کر آپ نے یہ گناہ مٹانا چاہا تھا۔۔۔ وہ سب کچھ پہلے سے جانتی ہے مگر میری عزت، میرے گھر کی عزت کے لیے خاموش ہے۔۔۔“ صغریٰ بیگم نے بلبلا کر بیٹے کی طرف دیکھا تھا مگر چپ رہی تھی۔۔۔
بولتی بھی تو کیا۔۔۔۔ سب کچھ لپیٹ کر اُس کے منہ پر مار دیا گیا تھا۔۔۔
اگر سادگی کو معاشرے میں عبادت سمجھ کر رواج دیا جائے اور بیٹیوں کو اپنی چادر میں رہنے کی تعلیم دی جائے تو تبھی معاشرت میں پاکیزگی پروان چڑھ سکتی ہے۔