لرزتی لکیریں

لرزتی لکیریں / زیرو لینڈ کی تلاش سیریز

تبسم حجازی

 

تعارف

لرزتی لکیریں میری پسندیدہ تریں سیریز میں سے ایک ہے۔ اس سیریز کے کچھ ناول اسکول کے دور میں پڑھے تھے اور یہ عمر کا وہ دور تھا جب اخباروں میں مسلم ممالک کے حالات ( جو کہ اس ناول کی اشاعت کے وقت سے اب تک کچھ خاص نہی بدلے) پڑھ پڑھ کر اپ کچھ مایوسی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ایسے میں اس سیریز نے Moral Booster کا کام کیا تھا عمران کچھ سپر ہیرو سا لگا تھا اور یہ سوچ بڑی خوش کن تھی ہم میں بھی ایسا سپر ہیرو ہو سکتا ہے جو بنا cape یا wand کے ان طاقتوں کو نچا کر رکھ دے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اب یہ احساس تو ہو گیا کہ ایسا صرف فکشن میں ہو سکتا ہے لیکن امید اب بھی قائم ہے کہ ایسا شاید کوئ آہی جائے !!!
یہ سیریز ابن صفی کی طویل تریں سیریز ہے اور سات ناولوں پر مشتمل ہے اتنے لمبے عرصہ تک کہانی میں دلچسپی اور تجسس بنائے رکھنا بڑے کمال کی بات ہے۔۔لیکن مجھے یہ سیریز پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اختتام میں کچھ اختصار سے کام لیا گیا ہے ،تھوڑی تفصیل اور ،اس آخری معرکہ کو زیادہ یادگار بنا دیتی۔ یہ سیریز اس لئے بھی اہم ہے کہ کی یہ تھریسیا اور سنگ ہی سلسلے کا آخری ناول ہے۔ ان ناولوں میں اپ کو جاسوسی کو علاوہ عالمی سیاست پر تبصرہ بھی ملے گا،، star wars والا سائنس فکشن بھی اور کچھ کچھ فیملی کے جذباتی سین بھی جو اپ کو ابدیدہ کردیں ۔ یوں تو سیریز کے سبھی ناول دلچسپ ہیں لیکن “ٹھنڈا سورج “اس سلسلے کا سب سے روشن ستارہ ہے۔ میری دانست میںاگر کسی نے صرف ایک ناول پڑھنا ہو تو یہ پڑھے۔ آئیے اب ناولوں کو مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں
 

عالمی سیاست

ابن صفی کے بہت سے ناولوں کی طرح یہ ناول بھی دوسری جنگ عظیم کے بھاگے ہوئے ایک نازی جاسوس سے شروع ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم پچھلی صدی کا ایک اہم سانحہ اور تاریخ ساز واقعہ ہے نہ صرف اس سے ہونے والی تباہی کے باعث بلکہ اس کے بعد دنیا میں ہونے والے power rebalance کے باعث بھی۔۔ اس لئے ابن صفی کے کئی ناولوں میں اس کا حوالہ آتا ہے، کبھی حمید کے مزاج کی توجیہ کے طور پر تو کبھی کسی جاسوس کے چھپائے خزانے کی کہانی کے طور پر۔۔اس سیریز میں مفرور جاسوس کے پاس ایک خفیہ اڈے کی تصویر ہوتی ہے۔ جس کا نام ہوتا ہے “باول دے سوف”۔(جو کہ اصل میں فرنچ رائٹر موپاساں کی ایک ناول کا نام تھا اور اس کے لفظی معنی ہیں Bowl of Fat )۔۔۔ چونکہ یہ تصویر جنگی نوعیت کے ہوتی ہے اس لئے مختلف ممالک کے ایجنٹ عمران کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ لیکن اصل سیاسی کھیل نظر آتا ہے،عمران کے مریخ کی سیر کے بعد۔۔۔مریخ کے حوالے سے ٹھنڈا سورج کا ابتدائ پیراگراف قابل ذکر ہے جس میں ابن صفی کسی ملک کا نام لئے بغیر چند جملوں میں اس وقت کی عالمی سیاست کا خلاصہ کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس پیراگراف کے حوالے سے احمد صفی صاحب نے بڑا دلچسپ واقعہ بتایا تھا ۔۔۔۔۔ایک جگہ سر ڈگبی روموناف کی کسی بات کے جواب میں کہتے ہیں “ اگر تم فرینکلن کی بات کر رہے تو وہ تو اپنی حماقت مآب قوم کی نمائندگی کر رہا ہے اور روئے سخن ژول رومے کی طرف ہے تو وہ اپنی روائتی وضع داری کا اثیر ہے”۔ دو جملوں میں دو قوموں کے عمومی روئیوں کی تشریح!!! اس کے بعد کس طرح بڑی طاقتیں عمران کو گھیرنے کے لئے مختلف طریق کار اختیار کرتی ہیں اور کس طرح عمران کوشش کرتا ہے کہ حکومت کسی دباؤ میں آکر فیصلہ نہ کرے ،وہ بھی اپنے اپ میں ایک دلچسپ اسٹڈی ہے۔ اس کے علاوہ جیمسن کی زبانی زیرو لینڈ کی حکومت اور حکمرانوں کے خادم کہلانے والی باتوں کا بڑا اچھا مذاق اڑایا گیا ہے۔۔۔۔
کیلی گراہم کا کردار بھی کافی دلچسپ ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر ملک اور محکمہ میں اچھے اور ایماندار لوگ ہوتے ہیں لیکن اکثر حکومتوں کی پالیسی کے سامنے بے دست وپا ہوتے ہں ۔۔۔عمران جب کیلی گراہم سے مل کر اس مسلۂ کا حل نکالنے کی کوشش کرتا ہے وہ ایک جملہ کہتا ہے۔۔جس سے سرد جنگ کے دور میں دنیا کے ممالک کی گروپ بندی واضح ہوجاتی ہے۔۔۔”پہلے ان دونوں نے مل کر ان اڈوں کو تباہ کیا تھا اور اس وقت دیوار برلن کا وجود نہیں تھا ۔۔۔”۔
 

سائنس فکشن

ابن صفی کے آخری کچھ سیریز میں بہت زبردست سائنس فکشن پیش کیا گیا ہے یہ سیریز بھی ان میں سے ایک ہے۔مجھے لگتا ہے ابتدائئ ناولوں میں لوگوں کی آسانی کے لئے سائنس فکشن کو کافی simplify کر کے لکھا کیا گیا تھا) اس سیریز میں ایک طویل،لسٹ ہے سائنسی ایجادات کی ۔۔۔ ایک ایسی آبدوز جو سمندر میں متحرک چٹانیں بن جائے اور سڑک پر ایمبولینس۔۔۔ ایک مشین جس میں بٹن دبانے سے کھانا بھی فراہم ہو اور گرل فرینڈ بھی اور عمران جیسوں کے لئے نصیحت بھی ( فرینکلن اور میڈیلینا کا قصہ نسلی سیاست پر بڑا لطیف طنز ہے)۔۔ا۔ voice recognition مشین کا بھی ذکر ہے اور آگ کا وہ دائرہ بھی جس سی عمران پکڑا جاتا ہے۔اایک ایسی مصنوعی دھند ہے جس میں تموج بھی پیدا کیا جا سکتا ہے اور ایک ٹھنڈا سورج جس سے کیپ کینڈی میں برفباری کروائی جا سکتی ہے۔ لرزتی لکیریں جنھیں آج ہم لیزر کہ سکتے ہیں۔۔۔غرض کہ حیرت انگیز ایجادات کی ایک طویل فہرست ہے۔ لیکن وہ چیز جو اس سیریز کی ہائ لائٹ ہے وہ ہے مریخ کی مخلوق فرینی کروچی۔۔۔۔ جس کا نام سنتے ہی چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے اور عمران کا وہ جملہ یاد آتا ہے “خداوند کیا میری شادی کے دن قریب آگئے ہیں “۔۔۔عموماً سائنس فکشن بور کرنے کی حد تک سنجیدہ ہوتے ہیں لیکن یہاں جس طرح مریخ کی شہزادی کو پر مزاح میں انداز میں پیش کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ پے۔ اور قارئین کی فرینی کروچی سے محبت کا یہ عالم ہے کہاں گروپ کے ایڈمن اس کی تلاش میں مریخ کی خاک چھان آئے ۔
 

جاسوسی تکنیک

یہ ایک اسپائ تھرلر ہے اس لئے اس میں سسپنس کا پہلو بہت کم ہے لیکن کچھ ایسے طریقہ کار یا ٹوئسٹ نظر آئیں گے جو اپ کو حیران کردے ۔۔۔جیسے جولیا کا مسز شیمران بن کر پہنچنا۔۔۔ عمران کا میجر فہیم کی فیملی سے معلومات نا ملنے پر ان کے ملازم سے معلومات حاصل کرنا۔۔۔۔ویران جزیرہ پر عمران کا مارسیانا پر گوریلا نما آدمیوں کا،راز فاش کرنا۔۔۔ جوزف کو ایٹمی توانائ گھر ،تھریسیا سے چھڑوانے سے پہلے عمارت کا بلیو پرنٹ حاصل کرنا، کوؤں اور انجن کی آواز سن کر رکشا والے سے تھریسیا کے چھپنے کی جگہ معلوم کرنا۔۔۔،، سنگ ہی کو نیگیٹو کے نام ہر بے ہوش کرنے والی نلکی دینا۔۔۔بلی والے انجیکشن کا استعمال۔۔۔۔ اور آخر میں جرنل گریسکی کو بے وقوف بنانا۔۔۔۔ایک رولر کوسٹسر رائیڈ کی طرح اپ کبھی عمران کو کبھی غالب اور کبھ مغلوب پاتے ہیں۔۔۔۔ بس اینڈ میں تھریسیا سے معرکہ کچھ اور زوردار ہونا چاہئے تھا۔۔۔جس زیرو لینڈ کا ذکر قاری اتنے برسوں سے سن رہے تھے اس کی تباہی کا سین زرا طویل ہوتا تو کیا بات تھی۔
 

فیملی

عمران کے ناولوں میں اکثر بڑے touching ایموشنل سین نظر آتے ہیں ، گمشدہ شہزادی کا مسز ہڈسن والا سین، میریانا کی موت، اور خوفناک منصوبہ میں عمران پر کتے کے حملے والا سین۔۔۔
اس سیریز میں بھی کئی ایسے منظر نظر آئیں گے، عمران کی موت کی خبر سنکر سنگ ہی کا جرنل گریسکی پر حملہ، ڈیلیا موران سے مل کر ثریا کا رونا۔۔۔۔سنگ ہی کا کیلی سے عمران کی دوست ہونے کے باعث پر شفقت برتاؤ۔۔۔
عمران سیریز کی اکثر ناولوں میں اس کی فیملی موجود ہوتی ہے لیکن اس سیریز کی خاص بات یہ ہے کہ رحمان صاحب جو عمران سے اکثر نالاں نظر آتے ہیں وہ آخر کار اس کی اہمیت اور کارکردگی کے قائل ہو جاتے ہیں ۔ وہ سین جب وہ اماں بی کو عمران کی زندگی کی خبر دیتے ہوۓ کہتے ہیں “ شاید مجھ سے بھی اونچی پوزیشن رکھتا ہے”تو بہت خوشی ہوتی ہے ۔کہ وہ اسپائ جو اپنے ملک کے لئے اور انسانیت کی بقا کے لئے اپنی جان کی بازی لگاتے ہیں کم سے کم ان کے اپنوں کو تو ان کی اہمیت اور قربانی کا اعتراف کرنا چاہئے۔

خلاصہ

اس ناول کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ لگتا ہے کہ کس طرح حکومت عمران کے لئے کچھ نہی کر پاتی ۔ حالانکہ آخر میں اس بات کو غیر واضح رکھا گیا ہے لیکن عمران اور جوزف کی باتوں سے یہ اشارہ ملتا ہےکہ عمران مریخ کی تباہی اپنے بل بوتے پر کرنے نکل پڑتا ہے لیکن اسے برازیل کی حکومت سے مدد مل جاتی ہے۔ اور اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم آج بھی اسی پوزیشن میں ہیں اور اپنے ہیروز کو ا سی طرح disown کر رہے ہیں