آنند

فلم-آنند 1971 ہندی

مرزا صہیب اکرام

آنند فلم میں مکھیہ بھومیکا راجیش کھنہ نے ادا کی ۔سہہ کلاکاروں  میں امیتابھ بچپن ،رمیش دیو ، سیما دیو اور سمیتا سنیال شامل ہیں ..فلم کو ڈائریکٹ اور پرڈیوس ہریکیش مکھر جی نے کیا.1971 میں ریلیز ہونے والی اس فلم نے اس وقت پونے دو کروڑ کا بزنس کیا.
اس فلم کو ہندی سینما کے اتہاس میں اہم استھان حاصل ہے . آئی ایم ڈی بی ریٹنگ کے حساب سے یہ فلم 8.8 پوانٹس کے ساتھ آج بھی ہندی سینما میں پہلے نمبر پر براجمان ہے..اس فلم کو ہندی سینما کے اتہاس میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلموں میں آنکا جاتا ہے.
اس فلم کو سرو شریشٹھ اداکار ، سرو شریشٹھ فلم سمیت پانچ فلم فیئر ایوارڈز سے سمانت کیا گیا تھا. گیت گلزار صاحب اور یوگیش نے لکھے .سنگیت کار سلیل چوہدری تھے ، گیت گانے کا شیریہ  مکیش اور لتا منگیشکر کے حصہ میں آیا.
آنند فلم ہے کینسر سے پیڑیت ایک ایسے انسان کی .جس کا جیون  ڈاکٹرز کے حساب سے چھ مہینے سے زیادہ نہیں ہے.مگر وہ ان چھ مہینوں کا ہر پل ایسے بھرپور انداز میں بتانا چاہتا ہے کہ موت بھی اس کی اس خوشی سے شرما جاۓ.
راجیش کھنہ آنند کی بھومیکا  میں دیکھنے والوں کو جیون کا اصل گیان دیتے ہیں.جب امیتابھ بچپن جو فلم میں ایک مایوس ڈاکٹر کا رول کر رہے ہیں ایک موقع پر دکھی ہوتے ہیں تو راجیش کھنہ ایسا جملہ بولتے ہیں جس میں وہ انسان کی ساری زندگی کا نچوڑ بیان کر جاتے ہیں . راجیش کھنہ کہتے ہیں ” بابو مشائے زندگی بڑی ہونی چاہیے لمبی نہیں  ” .
یہ ایسا پاٹھ ہے جسے انسان کو آج بھی سمجھنے کی ضرورت ہے . جینا سال ہو یا ہزار سال اگر آپ نے زندگی میں خوشیاں نہیں بانٹیں آپ نے لوگوں کے آنسو نہیں پونچھے آپ نے زندگی میں اچھے کام نہیں کیے تو آپ نے بس لمبی آیو پائی ہے بڑی زندگی نہیں.بڑی زندگی تو وہ ہے جس کا ایک ایک پل انسان زندگی سے بھرپور جئیے.منشیہ کو راشٹر ، رنگ ،ونش  اور دھرم سے اونچا  ہو کر جوڑے.انسان کو سب سے پہلے انسان سمجھے.
راجیش کھنہ  آنند کی شکل میں انسان کو جیون کی استھرتا  اور موت کی سچائی کا اسپشٹ آئینہ دکھاتے ہیں.انسان جو صدیاں جینے کے سپنے دیکھتا ہے جو کبھی مرنا نہیں چاہتا جو آنے والے کل کے انتظار میں اپنے تمام آج تیاگ کرتا چلا جاتا ہے .اس انسان کو آنند جھنجھوڑتا ہے کہ دیکھو کل نہیں آتی ، آج بہت سنکشیپ  ہے .اس کو اس قدر جی لو کہ کسی کل کی ضرورت نا رہے.
آنند ایک موقع پر موت کو ایک جملہ سے بے تچھ کر دیتا ہے کہ   ” موت تو ایک پل ہے “.  آنند زندگی کے تمام پلوں میں آخری پل موت کو سمجھتا ہے. وہ چاہتا ہے آنے والے خوفناک درد ناک پیڑا جنک کل کو یاد کر کے انسان اپنا اور اپنوں کا آج مت برباد کرے.وہ کہتا ہے ”  ہم آنے والے غم کو کھنچ تان کر آج کی خوشی پہ لے آتے ہیں اور اس خوشی میں زہر گھول دیتے ہیں ” .
آنند یہ سبق دیتا ہے جو ہونا ہے وہ ہو کر رہتا ہے مگر وہ چاہتا ہے لوگ اسے ایک مریض کے طور پر ایک بیمار یا کمزور انسان کی ساتھ ان پر ایک ہنستے کھیلتے خوشیاں بانٹتے زندہ دل انسان کے طور پر یاد رکھیں. اس کے جانے کے بعد لوگ اسکو جب یاد کریں تو ان کے چہروں پر غم نہیں  مسکان آئے. لوگوں کو اسکی پیڑا  یاد نا آئے بلکہ اس کا ہنستا کھیلتا پرسن مکھڑا یاد آئے.لوگ اسکی یاد سے بھی خوشی حاصل کریں.
آنند کے کردار میں راجیش کھنہ اداکاری کی اس شکھر پر ہیں جس کو الفاظ میں بیان کرنا سرل نہیں.پوری فلم بس ایک کردار ایک انسان کی ہے جس کا نام آنند ہے.فلم شروع ہوتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے .مگر آنند ہی آنند باقی رہ جاتا ہے.
آنند کی موت فلم کا کلائمکس اور آنند کی  ٹیپ ریکارڈر میں قید آواز کی گونج انسان کبھی بھلا نہیں پاتا. جب آنند کی موت کے بعد  پردے کے پیچھے سے اسکی  کی آواز آتی ہے کہ ” بابو مشائے زندگی اور موت اوپر والے کے ہاتھ  ہے اسے  نا تو آپ بدل سکتے ہیں نا میں ، ہم سب تو رنگ منچ کی کٹھپتلیاں ہیں ، جن کی  ڈور اوپر والے کی انگلیوں میں بندھی ہے ” . .یوں فلم اپنے امر سندیش کے ساتھ آنت کو پہنچتی ہے.
یہ ایسی فلم ہے جس میں ہیرو مر کر زندگی کا گیان پردان کرتا ہے . انسان کی نظر میں موت ویرتھ ہو جاتی ہے.انسان موت سے زندگی کے نئے ارتھ نکالتا ہے۔۔
راجیش کھنہ کی ادیھک تر  فلمیں انسانوں اور  بھاشاوں  کو جوڑتی نظر آتی ہیں. اس فلم میں راجیش کھنہ ہر انجان منیشیہ  کو دیکھ کر اے مراری لال کی آواز لگاتے ہیں. ان کا مراری لال ان کا کوئی رشتے دار نہیں ، بلکہ ہر عام انسان ان کا مراری لال ہے.وہ چاہتے ہیں کہ کسی انسان کو دوسرے کا غم بانٹنے کے لیے کسی سمبندھ  کی ضرورت نا ہو.اس سمبندھ کو استھاپت کرنے کے لئے بس انسان ہونا کافی ہو.آخر ان کو ایک مراری لال مل جاتا ہے جو فلم میں جونی واکر ہیں.جو فلم میں عیسی بھائی سورت والا کا رول کر رہے ہیں .یہ ایک تھیٹر کے مسلمان  اداکار ہیں.
آنند کا دنیا میں کوئی اپنا نہیں ہوتا. مگر جب وہ موت کا پل جی  رہا ہوتا ہے اسے رونے والوں میں ایک بھائی جیسا دوست، ایک ڈاکٹر ، ایک بہن ، ایک ماں ، ایک بھابی ، ایک مسلمان ، ایک عیسائی نرس شامل ہوتے ہیں.آنند خوشیاں بانٹتا بانٹتا ان تمام رشتوں کو رشتوں کا ادیش  سمجھا کر چلا جاتا ہے .یہ آنند کا سندیس بھی ہے .اور راجیش کھنہ کے ایک مہان کلاکار ہونے کی چنہہ 
 بھی.وہ انسانوں کو فلم اور واستوکتا  دونوں لوک  میں جوڑنے پر وشواس رکھتے تھے .
آنند راجیش کھنہ کی 17 نرنتر سپر ہٹ موویز میں سے  ہے . اس فلم میں سروشریشٹھ  کلاکار کا ایوارڈ بھی راجیش کھنہ کو ملا. ایسی سمپورن  فلم ہندوستان میں بہت کم بنی ہے .امیتابھ بچپن اور راجیش کھنہ کے آپسی سین صرف بیس دن میں فلمائے گئے تھے.
آنند ایک کلاسک کا استھان رکھتی ہے . جس کا حصہ بنے ہر انسان کو ہمیشہ اس فلم پر گرو رہا ہے .
پرسدھ فلمی لیکھکا انوپما رائے نے آنند کو ان سو فلموں کی لسٹ میں شامل کیا ہے جن کو انسان کو مرنے سے قبل ایک بار ضرور دیکھنا چاہیے.