نہرو اور قائد اعظم محمد علی جناح کے نام ایک طوائف کا خط از کرشن چندر

نہرو اور قائد اعظم محمد علی جناح کے نام ایک طوائف کا خط
کرشن چندر
بیلا اور بتول دو لڑکیاں ہیں، دو قومیں ہیں، دو تہذیبیں ہیں۔ دو مندر اور مسجد ہیں۔ بیلا اور بتول آج کل فارس روڈ پر ایک رنڈی کے ہاں رہتی ہیں جو چینی حجام کی بغل میں اپنی دوکان کا دھندہ چلاتی ہے۔ بیلا اور بتول کو یہ دھندہ پسند نہیں۔ میں نے انہیں خریدا ہے۔ میں چاہوں تو ان سے یہ کا م لے سکتی ہوں۔ لیکن میں سوچتی ہوں میں یہ کام نہیں کروں گی جو راولپنڈی اور جالندھر نے ان سے کیا ہے۔ میں نے انہیں اب تک فارس روڈ کی دنیاسے الگ تھلگ رکھا ہے۔ پھر بھی جب میرے گاہک پچھلے کمرے میں جا کراپنا منہ ہاتھ دھونے لگتے ہیں، اس وقت بیلا اور بتول کی نگاہیں مجھ سے کہنے لگتی ہیں۔ مجھے ان نگاہوں کی تاب نہیں۔ میں ٹھیک طرح سے ان کا سندیسہ بھی آپ تک نہیں پہنچا سکتی ہوں۔ آپ کیوں نہ خود ان نگاہوں کا پیغام پڑھ لیں۔ پنڈت جی میں چاہتی ہوں کہ آپ بتول کو اپنی بیٹی بنالیں۔ جناح صاحب میں چاہتی ہوں کہ آپ بیلا کو اپنی دختر نیک اختر سمجھیں۔ ذرا ایک دفعہ انہیں اس فارس روڈ کے چنگل سے چھڑا کے اپنے گھر میں رکھیں اور ان لاکھوں روحوں کا نوحہ سنئے، یہ نوحہ جو نواکھالی سے راولپنڈی تلک اور بھرت پور سے بمبئی تک گونج رہا ہے۔ کیا صرف گورنمنٹ ہاؤس میں اس کی آواز سنائی نہیں دیتی، یہ آواز سنیں گے آپ؟

آپ کی مخلص: فارس روڈ کی ایک طوائف