اجالے اپنی یادوں کے

اجالے اپنی یادوں کے
بشیر بدر

فیصل عظیم۔

اردو ادب میں بہت سے شعرا کرام آئے اور گئے لیکن گنے چنے شعرا کرام ہی ایسے گزرے ہیں جن کو ان کی زندگی میں ایسی مقبولیت ملی جس نے ان کے نام اور کام کو چہار عالم میں معتبر کر دیا۔
بشیر بدر ایسے ہی بے مثال شاعر گزرے ہیں جو اپنی زندگی میں ہی مقبولیت کے نام عروج پر پہنچے اور انہوں نے وہ عزت جو فنون لطیفہ سے جڑے افراد کو مرمت کے صدیوں بعد ملتی ہے اسے اپنی حیات میں پایا ۔ ان کو ایسی محبتیں ملیں جیسی کسی فلم اسٹار یا گائیک کو ملا کرتی تھی ۔ ان کے نام سے وہ بھی واقف رہے جو اردو شاعری سے معمولی سا شغف بھی رکھتے تھے ۔
برصغیر انڈ و پاک میں بشیر بدر کی شاعری اور ان کا نام ایک وبا کی طرح معروف ہوا تھا ۔
کہا جاتا ہے کہ اردو شاعری کے باب میں مرزا غالب کے بعد بشیر بدر ہی دوسرے شاعر ہیں جو غیر اردو داں طبقوں میں بھی مقبول ہیں اور جانے جاتے ہیں۔

لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس کیوں نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

حالات زندگی
سید محمد بشیر جو بشیر بدر کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی پیدائش برٹش انڈیا کے شہر فیض آباد میں 15 فروری 1935 کو ہوئی ۔ان کے والد محکمٰہ پولیس میں ملازم تھے ۔ابتدائی تعلیم کانپور میں ہوئی لیکن والد کی موت کے باعث تعلیم ادھوری چھوڑ کر محکمہ پولیس میں ملازمت کرلی کئی سالوں بعد علی گڑھ یونیورسٹی سے پہلے بی اے اور ماسٹرز کیا اور 1974 میں اپنا پی ایچ ڈی مکمل کیا اور میرٹھ یونیورسٹی میں 17 سال پڑھایا ۔ان کی پہلی شادی کم عمری میں ہوگئی تھی ۔1984 میں پہلی بیوی کے انتقال کے بعد 1986 میں دوسری شادی کی۔ 1987 کے میرٹھ دنگوں میں ان کا گھر جلا دیا گیا اس کے بعد وہ بھوپال چلے گئے۔
۔انہیں 1999 میں پدم شری ایوارڈ اور ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ بھی دیا گیا ۔۔گذرتے وقت کے ساتھ ان کی صحت گرتی گئی اور وہ ڈیمینشیا کا شکار ہو کر سب کچھ بھول چکے ہیں۔

یہ پھول مجھے کوئی وارثت میں ملے ہیں
تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا

ادبی سفر
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا

بشیر بدر نے پہلی غزل بہت کم عمری میں اسکول کے دوران لکھی تھی جو رسالہ نگار میں چھپی اور اس نے بشیر بدر کو ادبی حلقوں میں پہچان دلا دی۔ صرف بیس سال کی عمر تک وہ برصغیر کے ادبی رسالوں میں مشہور ہوچکے تھے۔

بشیر بدر کے چھ مجموعہ کلام اکائی (1969) ، امیج (1973) ،آسمان (1993) , آس ، آہٹ ،آمد (1994) شائع ہوچکے ہیں ۔ ایک مجموعہ دیوناگری میں ،اجالے اپنی یادوں کے بھی آچکا ہے۔ اس کے علاؤہ اردو تنقید پر مبنی دو کتابیں”آزادی کے بعد اردو غزل کا تنقیدی مطالعہ ” اور ” بیسویں صدی میں غزل” بھی آ چکی ہیں ۔

بشیر بدر جدید اردو شاعری کا ایک معتبر نام تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ملک زادہ منظور کہتے ہیں کہ “جدید اردو غزل گوئی کا کوئی بھی منظر نامہ بشیر بدر کے نام کے بغیر نامکمل ہے۔ ” ڈاکٹر جمیل جالبی انھیں عہد حاضر کی آواز مانتے ہیں ۔
بشیر بدر نے اپنی شاعری میں روایتی موضوعات کی جگہ روز مرہ کے حالات اور واقعات کا احاطہ کیا ۔۔ان کی شاعری میں فلسفہ کی جگہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں و غم ملتے ہیں جن کا بیان وہ نہایت سادگی سے کرتے ہیں۔ عام بول چال کی زبان کے الفاظ کو شاعری میں استعمال کرکے انھوں نہ صرف اردو غزل کے الفاظ و اصطلاحات میں گراں قدر اضافہ کیا بلکہ اردو غزل کو غیر اردو دان طبقہ میں مقبول کردیا وہ مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے ۔پروفیسر خلیق انجم کہتے ہیں کہ” اس وقت ہندوستان اور باہر بشیر بدر اردو شاعری کی آبرو ہیں۔ ”

بشیر بدر کے مقبول عام ہونے کی ایک اہم وجہ ان کی انفرادیت رہی ہے ان کے کلام میں جو سادگی اور شوخی ہے وہ دل کو چھو لیتی ہے ۔

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی،
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا،
جی چاہتا ہے سچ بولیں
کیا کریں ۔حوصلہ نہیں ہوتا،
گفتگو ان سے روز ہوتی ہے،
مدّتوں سامنا نہیں ہوتا
خدا ایسے احساس کا نام ہے،
“رہے سامنے اور دکھائی نہ دے

اردو شاعری کا یہ عظیم اثاثہ آج اپنی مٹتی ہوئی یاداشتوں کے ساتھ زندہ تو ہے مگر وہ بشیر بدر جو مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے اور جن کے بنا برصغیر کا ہر بڑا مشاعرہ ادھورا ہوا کرتا تھا آج یہ عظیم مصنف اپنا نام بھی اور کلام بھی بھولتے چلے جا رہے ہیں