اسلامی تاریخ کے دو ابواب

اسلامی تاریخ کے دو ابواب

تبسم حجازی

ان کی چشمِ کرم کو ہے اس کی خبر، کس مسافر کو ہے کتنا شوقِ سفر
ہم کو اقبال جب بھی اجازت ملی، ہم بھی آقا کے دربار تک جا ئیں گے

                                             

زندگی میں آپ بہت سے منصوبے بناتے ہیں لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا ہوجانا سمجھایا نہیں جاسکتا ۔۔2016 کے آخر میں 2017 کی چھٹیوں کےلئے بنتا یورپ کی ٹرپ کا پلان کیسے عمرہ اور ترکی کی ٹرپ میں بدلا اس کا اندازہ نہیں لگا سکتی لیکن جب ارادہ بن گیا تو سب کچھ بہت آسان ہوتا چلا گیا۔ جس سفر کے لئے چودہ پندرہ سال سے سوچا جا ریا تھا وہ بس یوں لگا کہ لمحوں میں طے پا گیا ۔ اس ٹرپ کی خاص بات یہ تھی کہ بچوں کو مسلمانوں کی تاریخ کے دو خوب صورت ابواب سے متعارف کرانے کا موقع میسر آیا ۔
ہم لوگ عموما چھٹیوں کے سفر پر پیکج لے کر یا ٹور گروپس کے ساتھ جانا پسند نہیں کرتے ۔۔چھٹیوں کو ہوم ورک یا کام کی طرح کرنے کی بجائے اپنی مرضی اور آسانی سے لطف اندوز ہونے اور خود نئی جگہوں کو دریافت کرنے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔ اسی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ساری ٹرپ کی پلاننگ ہم نےخود ہی کی۔ فلائٹس اور مختلف ہوٹلز کی بکنگ سے لے کر ویزا تک ہر وہ چیز جو آن لائن کرنا ممکن تھا کرلیا اور باقی سب اللہ توکل چھوڑ دیا ۔۔۔اور خوش قسمتی سے چند چھوٹی موٹی مشکلات کے باوجود سب کچھ بہت سہولت سے ہوا۔۔۔عمرہ کے سفر کا تجربہ ذاتی اور مرعوب کن ہوتا ہے ، اسے بیان کرنا مشکل ہے۔کعبہ شریف اور روضہ مبارک کو دیکھنے کا تجربہ لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں یہ صرف محسوس کیا جاتا ہے۔
ہمارے لئے ایک مشکل مرحلہ 10 12 سالہ بچوں کو اس سفر کی اہمیت کا احساس دلانا تھا ۔روحانی پہلو ان کے لئے سمجھنا مشکل تھا اس لئے کوشش رہی کہ وہ ہر چیز کو اسلامی تاریخ کے نظریہ سے دیکھ سکیں اور ان جگہوں سے تعلق کو محسوس کریں ۔
سعودیہ کا سفر انسان اپنے اندرونی سکون کی تلاش میں کرتا ہے . مہینوں اور سالوں تک گردش دنیا میں الجھا انسان جو وقت کی دھول میں بھاگتا دوڑتا اندر باہر سے بہت زخمی ہو چکا ہے جس کی روح گھائل ہوتی ہے. وہ انسان جو کاروبار دنیا کی لگن میں محو ہو کر اتنا پھنس جاتا ہے کہ اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کب رسی کھینچ لی گئی ہے . وہ انسان جب اس سرزمین پر جب قدم رکھتا ہے تو در حقیقت یہ سفر جسمانی اور روحانی علاج کا باعث ہوتا . اللّه کا گھر ہو یا نبی محترم کا عشق محبت سے معمور مدینہ انسان بس ان لمحات میں اتنا کھو جاتا ہے کہ اس کا رکا وقت کب بیت جاتا ہے وہ جان نہیں پاتا . ہاں لیکن روح کے داغ اور دماغ کے فتور ، دولت و شہرت کی دنیا کے باسی جو غرور و تکبر کو نشان عظمت سمجھتے ہیں وہاں پر ان کا بوسیدہ وجود ٹوٹ کر ایک نیا تازہ بھرپور وجود جنم لیتا ہے. یہ بس ہیں سب مقدر کے فیصلے اور رب کی رضا کہ اس برستی رحمت سے کون کتنا سمیٹ لے جاۓ . ہم سب بھی اسی لگن کو لے کر اپنے بچوں کو اپنی اساس سمجھانے اس جگہ پہنچے تھے .

اپریل 2017کو ہم لوگ ترکش ائرلائن سے جدہ اترے۔امریکہ سے جدہ کے 25 گھنٹے کے طویل سفر کےفورا بعد عمرہ کرنا شاید کچھ مشکل ہوتا اس لئے پہلے مدینہ جانے کا قصد کیا ۔۔حج ٹرمینل پر کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد بالآخر مدینہ کا سفر شروع ہوا۔۔جمعہ کی صبح مدینہ پہنچے ۔پہلے دن صرف روضہ پر حاضری دی اور باقی وقت سفر کی تھکان میں گذرا اور دوسرے دن عام طور پر کی جانے والی زیارتوں میں گذرا جن میں مختلف مساجد، مسجد قبلتین، مسجد قبا،جامعہ خندق کے علاوہ جبل احد ،جبل مرہ اور وادی جن وغیرہ شامل ہیں ۔ اس سے اگلے دن اسما ء الحسنہ میوزیم دیکھا جہاں مختلف زبانوں میں بہت اعلی انداز میں اللہ سبحان تعالی کے مختلف ناموں کے معنی سمجھائے جاتے ہیں ۔بچوں کے لئے یہ بڑا معلوماتی رہا ۔ اس کے علاوہ جنت البقیہ اور مسجد نبوی میں سکون کی تلاش میں باقی وقت گذرا۔ تھوڑی بہت شاپنگ کرتے ہوئے مدینہ سے رخصت لی اور مکہ کی طرف عازم سفر ہوئے ۔ مدینہ سے مکہ کا سفر 7 8 گھنٹے میں مکمل ہوا اور مکہ پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی ۔عمرہ کا فریضہ بچوں کے ساتھ انجام دینا بہت ہی خوشگوار تجربہ ریا ۔۔طواف کرتے ہوئے ، صفا مروا میں دوڑتے ہوئے بار بار شکر ادا کیا کی یہ سعادت نصیب ہوئی ۔مکہ کے اگلے دو دن کی زیارتوں منی ، عرفات،مسجد نمرہ ، غار حرا اور غار ثور شامل تھے آخری رات پوری جاگتے ہوئے حرم شریف میں گزارکر بہت سی یادیں سمیٹ کر واپسی کا سفر شروع کیا۔
اس سفر میں بچوں نے اسلامی تاریخ کا ایک خوبصورت رخ دیکھا ۔حرمین شریفین میں لاکھوں لوگوں کے ہجوم کے ساتھ خود کی شناخت کا تجربہ انھیں یاد رہے گا.
کچھ چیزیں جو وہاں تکلیف دہ لگیں مثلا ائر پورٹ سے لے کر ہوٹلز اور دکان داروں تک اکثر مقامات پرکسٹمر سروس نہایت مایوس کن تھی اور وہاں رہنے والے انڈین پاکستانی ورکرز کے ابتر حالات دیکھ اور جان کر بھی دکھ ہوا۔۔

#ترکی
مری عروج کی لکھی تھی داستاں جس میں
مرے زوال کا قصہ بھی اس کتاب میں تھا

بچپن سے لے کر چند سال پہلے تک ترکی کا نام خلافت عثمانیہ کے لئے چلائی گئی تحریک خلافت کے حوالے سے سنا تھا یا ترکی میں پھیلی حد سے زیادہ مغربیت کے حوالے سے ۔۔ترکی کے بارے میں اس لاعلمی کے باعث 2010 میں برازیل کی ایک کانفرنس میں پرائم منسٹر اردگان کو دیکھنے کا ملا آسان موقعہ گنوا دیا تھا جس پر آج بھی دل افسردہ ہوتا ہے۔۔2013 میں “جنت کے پتے” نامی ناول پڑھ کر ترکی کے بارے میں کچھ تجسس جاگا اور پھر آہستہ آہستہ ترکی جس طرح سیاسی سطح پر نمایاں ہوتا ہوگیا اور ساتھ ہی وہاں ہونے والی دن بدن تبدیلیوں نے اسے بر صغیر کےلوگوں کا پسندیدہ ٹورسٹ مقام بنا دیا ۔

خطہ قسطنطنيہ يعنی قيصر کا ديار
میری امت کي سطوت کا نشان پائدار
صورت خاک حرم يہ سر زميں بھي پاک ہے
آستان مسند آرائے شہ لولاک ہے
نکہت گل کي طرح پاکيزہ ہے اس کي ہوا
تربت ايوب انصاري سے آتي ہے صدا
اے مسلماں! ملت اسلام کا دل ہے يہ شہر
سينکڑوں صديوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے يہ شہر

ترکی آنا ایک خواب جیسا تھا . وہ جگہ جس کی عظمت کے قصے جس کے عروج و زوال کی داستانیں ہم نے آج تک سنی تھیں . وہ سر زمین جہاں سے اسلام کا ایسا سورج طلوع ہوا تھا جس پر صدیوں تک مسلم دنیا کو ناز تھا . لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ملک تہذیب کلچر اور روایات کا امین بھی ہے جس نے آج تک اپنی عظمت رفتہ کو سینے سے لگا رکھا ہے . جہاں پر آج سلطنت تو موجود نہیں لیکن ہر گلی کوچہ اپنے اندر ہزاروں راز چھپا کر صدیوں کا صدر طے کر رہا ہے . آج بھی ان جگہوں پر چلتے چلتے انسان کھو جانا چاہتا ہے کہ شاید وہ تاریخ کے کسی ایسے پنے پر پہنچ جاۓ جہاں پر خیمہ زن قوم دنیا کے مقدر کا فیصلہ رقم کر رہی تھی . یا انسان کسی گلی جا نکلے جس کا دوسرا سرا اس کو عظمت کے اس دور میں لے جاۓ جب ترقی کامیابی اور خوشخالی کا سورج سوا نیزے پر تھا .
وہ محلات جو آج سیاحوں کی دیکھنے کی جگہ ہیں کبھی یہاں سے جاری حکم نامے دنیا میں مقام رکھتے تھے . انسان اس عظیم سر زمین کے سفر کے دوران حال سے ماضی اور ماضی سے حال میں بس بھاگتا چلا جاتا ہے وہ اس سفر میں کبھی عروج پا کر نہال ہوتا اور کبھی زوال دیکھ کر عبرت حاصل کرتا ہے لیکن یہ سارا روحانی سفر جو ماضی سے حال اور حال سے ماضی میں انسان جیتا ہے اس سب کے دوران کہیں کہیں مستقبل کی راہ کے اسباب کی تلاش میں بھی آنسو بہاتا ہے . عظمت رفتہ کے قصے فسانے بن چکے ہیں محلات عبرت کی جاہ ، کہ باقی بس اقدار و روایات بچتی ہیں اور اس زمین پر کھوج کے دوران وہ لمحہ سب سے زیادہ مسحور کن ہوتا ہے جب انسان اس قوم کو اپنے آپ سے جڑا دیکھتا ہے .
عمرہ کے بعد واپسی میں تین دن کے لئے ترکی رکنا تھا ۔۔مکہ میں جو ہوٹل کا تجربہ ہوا تھا اس کے بعد ترکی کے بارے میں کوئی زیادہ خوش امیدی نہیں تھی کیونکہ ہم نے ہوٹل کی جگہ اپارٹمنٹ رینٹ کیا تھا ۔۔۔لیکن حیرت کا پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب اس اپارٹمنٹ کے مالک نے ہماری فلائٹ سے ایک رات پہلے واٹس ایپ کرکے پوچھا کہ ہماری فلائٹ کا وقت کیا ہے ۔۔اور یہ جان کر کہ ہم رات کافی دیر سے استنبول پہنچیں گے اس نے خود آکر ہمیں ائر پورٹ لینے انے کی آفر کی ۔اتنی personalized سروس ملنے پر بہت خوشی ہوئی ۔ استنبول ہوالامانی(ہوائی اڈہ) پر کوئی پریشانی نہیں ہوئی ۔چند منٹوں میں ویزہ امیگریشن سب کچھ ہوگیا ۔۔۔۔اپنے میزبان کے ساتھ آدھے گھنٹے میں جب اپارٹمنٹ پہنچے تو سفر کی ساری تھکان دور ہوگئی ۔روایتی ترکش تہذیب سے سجا خوبصورت سوئٹ تھا۔۔سنگ مرمر کے سماور سے لے کر ترکش قالین اور پردوں تک ہر چیز نفاست کا پتا دے رہی تھی. بونس کے طور پر برتنوں کے ساتھ سجا کچن بھی ہمارا منتظر تھا۔۔۔ہمارے میزبان نے بتایا کہ نیچے کے فلور پر اس کا ریسٹورنٹ ہے اور ناشتہ ان کی طرف سے ہوگا۔۔۔صبح اٹھ کر سب سے پہلے تو ترکش ناشتہ کا ارادہ کیا ۔۔ریسٹورنٹ کی سجاوٹ میں سیاحوں کے خیال سے ترکی کی روایت کا خیال رکھا گیا تھا اور ترکی کی ہر چیز کی طرح یہ ناشتہ بھی یورپ اور ایشیائی انداز کا کچھ ملا جلا رنگ لئے ہوئے تھا۔۔تازہ بریڈ ، زیتون، فیٹا چیز یا پنیر ،سلاد، انڈے اور مغربی انداز کے مختلف کولڈ میٹ جو بچوں کے لئے بڑی ٹریٹ تھے لیکن جس چیز نے ہم دونوں کو سارا وقت الجھن میں رکھا وہ مختلف انداز کے ساس تھے۔۔جو اپنے ذائقہ کی بنا پر ساس سے زیادہ ہمارے انداز کے چٹنی اور مربہ جیسے لگ رہے تھے۔۔۔یہ عقدہ دوسرے دن حل ہوا جب ایک ایسے ہی دوسرے ریسٹورنٹ میں،جو ایک چھوٹی سی فیملی چلا رہی تھی، ناشتہ کیا اور اس کی مالکہ سے ان ساس کی ترکیب پوچھی۔ ان میں ایک تو گلقند جیسی چیز تھی اور دوسری کچھ حد تک آم کے مربہ جیسی۔ہماری دلچسپی دیکھ کر ان لوگوں نے کافی چیزیں پیک کرکے ساتھ دے دیں.

رات دیر ہونے کے باعث اپارٹمنٹ کی لوکییشن کا ٹھیک سے اندازہ نہیں ہوا تھا ۔۔صبح پتہ چلا کہ یہ ترکی کا قدیم رہائشی علاقہ ہے۔۔تنگ گلیاں ، ایک یا دو منزلہ مکان جن کی کھڑی سی سیڑھیاں ، گھروں کے نیچے موجود چھوٹی چھوٹی دکانیں ، گلیوں میں سائیکل دوڑاتے بچے یہ سب دیکھ کر ممبئی ، شکاگو اور لندن کی یاد آگئی شاید سبھی بڑے شہروں کی چکاچوند میں کچھ قدیم روایات ، تابناک ماضی کسی بھولی بسری کہانی کی طرح بہت سے راز خود میں چھپائے ہوۓ گزرے زمانے کی نشانی کے طور پر خاموش نظر آتے ہیں ۔۔۔دوسری خوشگوار بات یہ تھی کہ ہم سلطان احمت مسجد یا Blue Mosque سے اتنے قریب تھے کہ اذان کی آواز اپارٹمنٹ تک آرہی تھی ۔۔ترکی تاریخی مقامات سے پھر پور جگہ ہے استبول سے قونیہ تک کئی مقامات ایسے ہیں جنہیں دیکھنے کی خواہش تھی لیکن محدود وقت اور بچوں کے ساتھ کچھ مخصوص یادیں ہی سمیٹی جاسکتی تھیں ۔۔ ہماری فہرست میں سلطان احمت مسجد، آیا صوفیہ، توپ کاپی میوزیم ، گرینڈ بازار ، باسفورس برج اور استقلال اسٹریٹ شامل تھے ۔

#سلطان احمت مسجد
سب سے پہلے چہل قدمی کرتے ہوئے ہم احمت اسکوائر پہنچے جہاں قدیم Byzantine دور کے Hippodrome ( اسپورٹنگ سینٹر) کی ایک یادگار موجود ہے۔۔یہاں ٹورسٹوں کی بھیڑ تو تھی ہی ساتھ کئی رفیوجی بچوں کو بھیک مانگتے دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ دنیا کے ہر ملک کا رفیوجی اس دور جدید میں بھی جب لاوارث نظر آتا ہے عقل ماوف ہو جاتی ہے کہ گلوبل ویلج آخر کہاں ہے جب زمین کے ٹکروں کے وقتی حاکم ان کو رنگ و نسل کی بنیاد پر دوسروں کے لئے حرام کے دیتے ہیں .
وہاں سے چلتے ہوئے اور استنبول کی خنک صبح کا لطف اٹھاتے سلطان احمت مسجد پہنچے ۔۔۔سترھویں صدی میں بنی یہ مسجد ایک قدیم تاریخی ورثہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی اور ترکی طرز تعمیر کا خوب صورت نمونہ بھی ہے ۔وسیع احاطہ فوارہ اور تیرہ چھوٹے بڑے گنبد دیکھنے والوں کو دور سے ہی متاثر کرتے ہیں ۔۔ایک خاص بات یہ کہی جاتی ہے کہ یہ مسجد 6 میناروں والی چند مساجد میں سے ایک ہے ۔ان چھ گنبد کے بارے میں ایک کہانی سنائی جاتی کہ کس طرح آرکیٹیکٹر نے سلطان کی سنہری (التین )گنبد کی خواہش کو چھ (التی) سمجھ کر ڈیزائن تیار کردیا تھا ۔جس کے باعث سلطان کو علما کی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ اس وقت تک صرف حرمین کی مسجد کے چھ مینار تھے۔۔نیلی مسجد نماز کے اوقات کے علاوہ سیاحوں کے لئے کھلی ہوتی ہے۔ مسجد کا اندرونی حصہ 20000 نیلے، ہاتھ سے رائے گئے ٹائلز سے سجا ہے جن پر مختلف tulip pattern بنے ہیں ۔۔اس کے علاوہ رنگ برنگے شیشوں سے سجی کھڑکیاں، اعلی درجہ کی کیلی گرافی کے علاوہ ماربل سے بنے محراب و منبر دیکھنے کے قابل ہیں۔ خوش قسمتی سے اسے ایک سے زائد بار دیکھنے کا اور نماز جمعہ پڑھنے کا موقعہ بھی مل گیا۔
#آیا صوفیا
نیلی مسجد کے بعد آیا صوفیہ دیکھا گیا اس کی تاریخ اور اہمیت جاننے کے لئے ضروری لگا کہ ٹورسٹ گائیڈ کو ساتھ لے لیں ۔کچھ معاملوں میں ترکی بلکل گھر جیسا محسوس ہوا ان میں سے ایک یہ کہ ہر جگہ آپ کو بھاو تاو کرنا ضروری ہوتا ہے،چاہے وہ گائیڈ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ عادت اتنے برسوں سے باہر رہتے بلکل چھوٹ چکی تھی اس لئے بہت مشکل ہوئی ۔چھٹی صدی عیسوی میں بادشاہ جسٹنیان کے حکم پر بننے والے آیا صوفیہ( holy wisdom ) دیکھتے ہوئے گائیڈ نے بازنطینی حکومت سے موجودہ حکومت کی تاریخ کے بارے میں بہت کچھ بتایا ۔۔۔بازنطینی دور حکومت میں قسطنطنیہ کا سب سے بڑا کیتھرڈل تھا پھر رومن چرچ بنا اور سلطنت عثمانیہ کے دور میں پندھرویں صدی میں سلطان محمد نے اسے خرید کر مسجد کی شکل دی گئی۔اس میں مینار، منبر اور محرابوں کا اضافہ ہوا ۔1935 میں ترک حکومت نے اسے میوزیم۔بنا دیا جو 2020 تک ریا ۔ جس طرح ہم نے اسے میوزیم کی شکل میں دیکھا تھا وہ تاریخ کا ایک پنا تھا جو اب پلٹ چکا ہے ۔
آیا صوفیہ بازنطینی طرز تعیر کی باقی ماندہ مثالوں میں سے ایک ہے۔۔اس کا امپریل گیٹ کافی مشہور ہے جو 7 میٹر لمبا ہے یہاں سے بادشاہ چرچ میں آیا کرتے تھے ۔ اس کے مرکزی گنبد کا قطر 102 فٹ ہے اور اونچائی 185 فیٹ ہے ۔اتنے وسیع گنبد کے باوجود اندر بھرپور روشن ہوتا ہے جس کی وجہ 40 کھڑکیاں ہیں ۔اس کی تعمیر میں موزیک اور ماربل کا استعمال ہوا ہے اس کا فلور، مرمرا سے نکلنے والے سفید ماربل کا بنا ہے جس کی بہت تعریف کی جاتی رہی ہے۔۔اس میں مینار کا اضافہ عثمانیہ دور کا ہے جہاں اس کی وسعت حیران کرتی ہے وہیں اس کے سونے چاندی کے تہہ چڑھے شیشہ، رنگ برنگے موزیک کے خوبصورتی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔اس کے علاوہ بھی خوب صورت آرائشی چیزیں اس عمارت کی تزئین کو بڑھاتی نظر آتی ہیں۔ جیسے ایک ہی ماربل کے ٹکڑے سا بنا سماور جو سلطان مراد کے دور میں لایا گیا تھا۔ یہ مسجد کئی بار قدرتی آفات سے گذرنے کے بعد بھی بڑی اب و تاب سے کھڑی ہمیں عہد رفتہ کی کہانیاں سناتی ہے۔
#توپ کاپی سرائے
اگلا پڑاو تھا “توپ کاپی سرائے” جس کا نام بہت سنا تھا لیکن اس نام کے معنی سمجھ میں آئے اس کی انگریزی جاننے کے بعد ۔۔Canonon Gate Palace . پندرھویں صدی میں تعمیر ہونے والا محل، خلافت عثمانیہ کے سلاطین کی رہائش گاہ اور انتظامیہ کا مرکز ہوتی تھی۔اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد میوزیم کی شکل میں اس دور کی یاد دلاتا یے اس میں کئی عمارات ، باغات اور سینکڑوں کمرے ہیں جن میں چند عام لوگوں کے لئے کھلے ہیں جن میں ایک عثمانیہ دور کا حرم بھی ہے۔۔ یہاں عام میوزیم کی طرح کپڑے ہتھیار منیچر ارٹس بہت سی چیزیں ہیں اور بہت سے اسلامی تبرکات بھی۔۔مرمرا سمندر کے قریب خوب صورت پہاڑی لوکیشن پر بنا خوب صورت محل عثمانیہ دور کی خوب صورت یادگار ہے۔ مختلف صحن ، حرم ،دیوان خانہ ، ترکش حمام ۔۔۔۔اور کئی ایسی چیزیں ہیں کہ انسان دنوں گھومتا رہے تو بھی تشنگی کم نہ ہو .۔ہمارے پاس وقت کی قلت تھی اس لئے ہم نے مخصوص چیزیں دیکھیں۔۔ داخلہ کا مین گیٹ باب ہمایوں یا Imperial Gate کہلاتا ہے ۔۔۔ایک مخصوص راستہ جو “دیوان یولو” کہلاتا ہے اسے آیا صوفیہ سے جوڑتا ہے ۔۔اندرونی گیٹ باب السعادیت کہلاتا ہے۔۔یہاں کے منیچر ( Miniture) اور پورٹریٹ سیکشن میں بہت سے قدیم قرآنی نسخہ جات، کوفی خط میں کی گئی کیلی گرافی کے نمونوں کے علاوہ سولہویں صدی میں بنایا دنیا کا نقشہ بھی ہے جو پہلا ورلڈ میپ کہلاتا ہے۔
وہ کمرے جہاں اسلامی تبرکات ہیں سلطان کے مخصوص کمروں میں شمار ہوتے تھے ۔ یہ تین چار کمروں پر مشتمل جگہ ہے ۔۔ایک کمرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک،موئے مبارک، تلوار، کمان ، عبایا، مہر اور بینر (جو عقاب کہلاتا تھا) موجود ہیں اور وہ چادر بھی جو کعب بن زہیر کو قصیدہ بردہ شریف لکھنے پرعطا ہوئی تھی۔ ۔دوسرے کمرے میں خانہ کعبہ کی چابیاں ،حجر اسود کا کیس ہیں ۔۔اس کے علاوہ حضرت ابراہیم کا پیالہ ،یوسف علیہ السلام کا عمامہ، حضرت موسی علیہ السلام کا عصا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کا نشان جیسی نادر چیزیں موجود ہیں ۔۔خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ اکرام کی تلواریں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا لباس دیکھنے کا موقعہ ملا ۔۔140 کے قریب قدیم قرانی نسخہ موجود تھے ۔۔یہاں وہ قرآن مجید بھی موجود ہے جس پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہہ کے خون کے نشان ہیں لیکن وہ صرف رمضان میں دیکھا جاسکتا ہے۔یہ تبرکات سولہویں سے انیسویں صدی کے خلافت عثمانیہ کے دور میں یہاں لائے گئے ہیں ۔ان کی تاریخی حقیقت کے بارے میں بحث سے قطع نظر یہاں آکر آپ خود کو ایک دوسری دنیا میں محسوس کرتے ہیں. وہ دنیا جو عقیدت اور جذبات کی دنیا ہے . ایسا روشن ماضی جس میں تصور میں محسوس کر کے بھی ناقابل بیان مسرت حاصل ہوتی ہے . ایسا لگ رہا تھا جیسے عہد رفتہ ہمارے سامنے زندہ و جاوید ہو رہا ہو . ترک عروج کی نشانیاں اپنی عظمت کے قصے ہر ایک کو سنا رہی تھیں .یہاں فوٹو گرافی کی ممانعت ہے لیکن نیٹ پر کئی تصاویر نظر آتی ہیں ۔
#گرینڈ بازار
استنبول آکر کوئی گرینڈ بازار نہ دیکھے یہ ممکن نہیں ۔۔ہزاروں دکانوں اور پیچ در پیچ گلیوں سے مزین یہ استنبول کا قدیم ترین بازار اور دنیا کا پہلا مال کہا جاتا ہے جہاں روز دو سے چار لاکھ سیاح آتے ہیں ۔۔پندھرویں صدی میں بننے والی اس مارکیٹ کے دونوں اطراف قدیم مساجد ہیں بایزید مسجد اور نوروسمانئیے مسجد ۔یعنی استنبول کے قدیم علاقہ میں یہ آسانی ہے کہ گھومتے پھرتے کہیں بھی آپ جائیں مساجد موجود ہیں ۔۔گرینڈ بازار کے کئی گیٹ ہیں یہاں کی دکانوں اور گلیاں کچھ اس طرح بنی ہیں کہ پہلی بار آنے والا شخص بآسانی ان میں گم ہوجائے.
یہاں کپڑے ، جوتے، چمڑے کی مصنوعات، زیور،،ترکش قالین، لینٹرن، کھانے پینے کی مختلف اشیا ۔۔۔ہر چیز دستیاب ہے۔۔عموما دکانوں پر قیمت طے شدہ نہیں ہوتی اور خوب سودے بازی ہوتی ہے ۔۔اس لئے ہم نے خریداری چند اسکارف، کپڑے اور souvenir اور ترکش مٹھائی اور چائے تک محدود رکھی۔۔لیکن جن دکانوں پر بھی رکے یا جن دکانداروں سے تھوڑی بہت بات چیت ہوئی وہ بہت خوشگوار تھی ۔دکاندار غیر ملکی سیاحوں سے ڈیل کرتے ہیں اس لئے ان سے خوش اخلاقی تو متوقع تھی لیکن انڈین اور پاکستانیوں کے ساتھ ان کی گرم جوشی اور خلوص نے دل خوش کردیا ۔۔
ارطغرل سیریل میں جب ہانلی بازار کا قصہ شروع ہوا تو پہلا خیال یہی ایا کہ یہی شاید گرینڈ بازار ہو لیکن ایسا لگتا نہیں کیوں کہ وہ واقعات تیرہویں صدی کے ہیں اور گرینڈ بازارپندرھویں صدی میں بنا۔
#باسفورس برج
باسفورس برج دنیا کے چند طویل ترین سسپنشن برج میں سے ایک ہے جب 70 کی دہائی میں یہ بنا تھا تو امریکہ کے باہر بننے والا طویل ترین برج تھا ۔۔اب اس کی وہ تعمیراتی اہمیت تو نہی رہی لیکن جغرافیائی اہمیت اب بھی ہے ۔۔ترکی کے بیلربے اور اورتکوئی علاقہ کو جوڑتا یہ برج دراصل دو براعظموں کو جوڑتا ہے ۔۔اس کے بعد دو برج اور بھی تعمیر ہوئے لیکن باسفورس یا پہلے برج کی اہمیت اپنی جگہ یے ۔اس آٹھ لین کے برج سے تقریبا روز دو لاکھ گاڑیاں گذرتی ہیں۔۔پہلے اس برج ہر پیدل جانے کی اجازت تھی لیکن اب نہیں رہی اس لئے یا تو کار کے ذریعہ یا پھر کشتی کے ذریعہ آپ براعظم کی سرحد کو کراس کرسکتے ہیں ۔کشتی کے سفر کے دوران کئی اور محلات اور مسجدیں کو بھی دیکھنے کا موقعہ ملا۔۔۔بوٹ نے جہاں اتارا وہاں حسب معمول مختلف چیزوں کے خوانچہ فروشوں کے علاوہ کھانے کے اسٹال بھی تھے۔چھوٹی چھوٹی مچھلیاں سالم آگ پر بھون کے بریڈ رول کے ساتھ بیچی جارہی تھی یہ ایک مختلف اور لذیذ چلتا پھرتا لنچ تھا ۔
#ٹاقسم اسکوائر اور استقلال جدیسی
استنبول کے یورپی حصہ میں موجود تاقسم اسکوائر کا نام ترکش لفظ تقسیم سے نکلا ہے ۔کسی زمانے میں یہاں سے شہر میں پانی کی تقسیم ہوا کرتی تھی ۔۔یہاں ری پبکلک ترکی کے قیام کی یادگار بھی ہے اور کئی سیاسی تحریکوں کا مرکز بھی رہ چکا ہے ۔۔آج کے دور میں یہ ایک مصروف ترین علاقہ ہے۔یہاں سے استبول کی مشہور شاپنگ اسٹریٹ استقلال جدیسی شروع ہوتی ہے ۔کہا جاتا ہے ویک اینڈ پر یہاں 25 سے تیس لاکھ لوگ آتے ہیں ۔ڈیڑھ کلومیٹر اسٹریٹ پر کپڑوں کے بوتیک، شو رومز۔کیفے ،نائٹ کلب، پب سبھی کچھ موجود ہے ۔۔کچھ عمارتیں انیسویں صدی کی یادگار ہیں اور کچھ جدید دور کی نمائندہ.
اپریل کی رات بہت سرد تھی ہم سب کے اکلوتے جیکٹ سردی کے لئے ناکافی تھے اس لئے ایک ساتھ دو تین کپڑے چڑھا کر رات کے 12 بجے اس اسٹریٹ کی سیر کی۔۔تھوڑی بہت شاپنگ کے بعد ایک کیفے میں ترکش کنافہ اور کافی کا لطف لیا ۔کنافہ عربی میٹھا ہے عمموما فلسطین اور مصر کا کنافہ بہترین مانا جاتا ہے۔۔ سویوں یا باریک نوڈلز میں cheese کو لپیٹ کر بیک کرتے ہیں اور اوپر سے شوگر سیرپ ڈالا جاتا ہے۔۔ترکی میں آخری رات اس مٹھاس کو محسوس کرتے گذری ۔۔
ترکی میں گھومتے ہوئے جو چند باتیں محسوس کیں۔ ان میں اسے ایک یہ کہ استنبول کافی مہنگا شہر ہے ایک چپس یا چاکلیٹ کا پیکٹ امریکہ سے تین گنا قیمت پر ملتا ہے شاید اس کی وجہ سیاحوں کی بھیڑ ہو ۔۔دوسری بات یہ کہ ترکش لوگ بہت خوش لباس ہوتے ہیں خواتین نے یورپین اور ماڈرن لباس پہنے ہوں یا اسلامی انداز کے ان میں اسٹائل اور فیشن کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
امریکہ اور مغربی ممالک کے ائیر پورٹ پر سبھی مسلمانوں کو چاہیے انڈین ہوں یا عرب انھیں یکساں مشکوک انداز سے دیکھا جاتا ہے لیکن جب ہم مڈل ایسٹ پہنچتے ہیں تو مسلمان سے پہلے”ہندی ” کہلانے لگتے ہیں ۔انڈیا کے ائرپورٹ پہنچتے ہی پھر سے انڈین کی جگہ مسلم سمجھ کرعزت افزائی ہوتی ہے لیکن ترکی وہ جگہ جہاں آپ فخر سے خود کو انڈین مسلم کہ سکتے ہیں اور لوگ آپ کو گرمجوشی سے ملیں گے ۔
واپسی کا سفر کچھ تکلیف دہ رہا ۔ترکی میں داخلہ جتنا اسان تھا ویاں سے امریکہ کی فلائٹ میں سوار ہونا اتنا ہی مشکل ان دنوں نئے نئے آئے ٹرمپ نے ترکی سمیت کئی مسلم۔ممالک سے آنے والے مسافروں کے لئے الیکٹرونک سامان ساتھ رکھنے ہر پابندی لگائی تھی ۔۔جس کے باعث بورڈنگ سے پہلے اور لینڈنگ کے بعد گھنٹوں لائن میں گذرے ۔
استنبول کا اتاترک ائر پورٹ ایک مصروف ترین اور خوبصورت ائیر پورٹ ہے۔شوروزمز ،ریسٹورنٹ ہر چیز اعلی درجہ کی ہے سوائے فری وائی فائی کے جو ہم لوگوں کے لئے بڑا حیران کن تھا کہ اتنے بڑے بین الاقوامی ائیرپورٹ پر فری وائی فائی میسر نہیں ۔ ایک ترکش ریسٹورنٹ میں ترکی کے آخری کھانے لحماکن ( Lahmacun) یا ترکش پزا کا لطف لیتے ہوئے دوبارہ آنے کے قصد کے ساتھ قسطنطنیہ کو الوداع کہا۔۔۔۔۔
میرا چہرہ مری قامت مری عظمت کے نشاں
میری تاریخ کے صفحے مجھے واپس کر دے