افعانستان ماضی سے حال تک

افعانستان ماضی سے حال تک
مرزا صہیب اکرام

سنگلاخ پہاڑوں، گھنے جنگلات ، دلفریب وادیوں اور خوفناک صحراؤں کی سرزمین افغانستان ہے۔جس کو دنیا ایشیا کا دروازہ بھی کہتی ہے۔کسی دور میں یہ ترقی و خوشحالی کی وجہ سے اس خطے کا عروس البلاد کہلاتا تھا۔صدیوں سے رائج قبائلی روایات اور خون آلود ماضی سے چُور چُور حال تک افغانستان کے باسیوں نے صدیاں جنگ و جدل میں گزار دی ہیں۔
قبل مسیح سے لے کر سکندر اعظم تک اور محمود غزنوی سے چنگیز خان تک مختلف نسلوں کے حکمراں افغانستان پر حملہ آور ہوتے رہے ۔اور جب طاقت کا توازن بدلا تو افغانی حکمراں، مغلوں سے قبل اور پھر مغلوں کے کمزور دورِ اقتدار میں بار بار ہندوستان پر حملہ آور ہوتے رہے۔
کبھی دفاع اور کبھی اقدامی جنگ ۔اس ملک میں صدیوں سے یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن انگریز کی آمد کے بعد اس خطے نے ایک نئی انگڑائی لی اور یہاں پر ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
1921 میں برٹش سے آزادی کے بعد افغانستان میں بادشاہت آگئی۔ محمد ظاہر شاہ نے حکومت سنبھال لی جو “مصاحبین بارک زئی'” نسل سے تھا اور اس حکومت کو 1934 میں مان لیا گیا۔

1953 میں جنرل محمد داؤد خان پرائم منسٹر بنا اور روس سے نئے تعلقات بننے شروع ہوئے۔ اور افغانستان کے کیمونسٹ بلاک کا حصہ بننے سے ایک نیا دور شروع ہوا۔۔۔اور افغانستان میں کمیونزم جڑیں پکڑنے لگا اور آخر کار 17 جولائی 1973 جنرل محمد داؤد خان نے محمد ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر بادشاہت کا خاتمہ کردیا اور ری پبلک آف افغانستان بنا کر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کی حکومت قائم کی ۔۔جس کے روس کے ساتھ گہرے تعلقات تھے ۔۔داود خان نے ملکی قوانین میں کافی تبدیلیاں کی خاص کر عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اور ملک کو جدید شکل دینے کی کوشش کی ۔
خان کی حکومت صرف پانچ سال رہی ۔ اپریل 1978 میں کمیونسٹ پارٹی نے بغاوت کی جو انقلاب ثور کہلاتی ہے اور داؤد خان کو مار ڈالا اور کمیونسٹ پارٹی لیڈر نور محمد ترکئی صدر بن گیا اس کا انداز ڈکیٹیر شپ والا تھا ۔اس انقلاب یا بغاوت کے پیچھے حفیظ اللہ امین کا ہاتھ سمجھا جاتا یے ۔۔۔یہ افغانستان کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے اور اس کے اثرات اگلے 43 سال تک رہے۔اس کے بعد افغانستان کو کبھی بھی امن نصیب نہیں ہوا۔جنگوں کا ایسا چکر ویو شروع ہوا جس سے افغانی قوم آج تک باہر نہیں نکل سکی۔
ترکئی نے دسمبر 1978 میں سویت روس کے ساتھ 20 سالہ دوستی معاہدہ کیا جس کے باعث افغانستان میں سویت آرمی کا اثر بڑھ گیا۔یہ سویت کا افغانستان میں باضابطہ آنا تھا۔نور محمد ترکئی کے دور میں افغانستان میں عملاً روس پہنچ چکا تھا تاکہ وہ ترکئی حکومت کو دوام دے سکے۔

ستمبر 1979 میں ترکئی کا قتل ہوا ۔یہ قتل افغانستان میں نئی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔اس قتل کے بعد سویت فوج نے افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت بنادی جس میں بارک کمال کو وزیراعظم بنادیا گیا اور حفیظ اللہ امین مارا گیا ۔ اس کے بعد سے افغانستان جنگ کا اکھاڑا بن گیا ۔افغان مجاہدین اس کمیونسٹ حکومت ، سویت آرمی اور افغان آرمی کے خلاف لڑتے رہے ۔
سویت روس کے اس قبضہ کے خلاف دنیا بھر میں آواز اٹھی ۔ روس پر کئی پابندیاں لگی ۔۔امریکی صدر ریگن نے کھلے عام افغان مجاہدین کی مدد کا اعلان کیا ۔امریکہ کے علاؤہ برطانیہ ، پاکستان ، سعودی ،مصر اور چائنا سمیت تمام مسلم دنیا نے روس کے خلاف لڑنے والے گروہ کی مدد کی ۔یہ جنگ دس سال چلتی رہی ۔۔اس بیچ تقریبا تین ملین افغانی پاکستان پہنچے اور ڈیڑھ ملین ایران میں پناہ گزین بن کر پہنچے۔
1988 میں امریکہ کے آشیر واد سے القاعدہ بنی جو روس کے خلاف لڑائی میں افغانی مجاہدین کی مدد کے لئے تھی۔

1989 میں دس سال کی طویل جنگ کے بعد سویت روس ، امریکہ پاکستان اور افغانستان میں امن معاہدہ ہوا اور روس نے اپنی فوجیں افغانستان سے نکالنی شروع کردی ۔اس وقت نجیب اللہ افغانستان کا صدر تھا جسے مجاہدین نہہں مانتے تھے ۔اس کے خلاف وہ صبط اللہ موجدادی کو اپنا حکمران مانتے تھے ۔وہ نجیب حکومت کے خلاف لڑتے رہے جسے سویت یونین مدد کرتی رہی۔

1992 میں مشہور گوریلا لیڈر احمد شاہ مسعود کی قیادت میں مجاہدین نے کابل پر حملہ کیا اور نجیب کی حکومت ختم کرکے برہان الدین ربانی کو اسلامی حکومت کا صدر بنا دیا ۔

1992 سے 1996 تک افغانستان میں سول وار چلتی رہی جس میں پاکستان ،ایران اور سعودی عرب اپنا اثر بنائے رکھنے کے کئے مختلف گروپس کی حمایت کرتے رہے ۔1996 میں پاکستان کے حمایت شدہ طالبان نے القاعدہ کی مدد سے حکومت سنبھال لی ۔اس دوران مزید ایک ملین افغانی پناہ گزین اور پاکستان پہنچ چکے تھے ۔

طالبان کی حکومت کو امریکہ نے تسلیم نہیں کیا ۔
1997 میں طالبان نے نجیب کو کھلے عام موت کی سزا دی ۔
اس دوران مسعود کی قیادت میں شمالی اتحاد اور جنوب میں حامد کرزائی کے گروپس طالبان سے لڑائیوں میں مصروف رہے ۔
2000 تک افغانستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کنفرم ہوئی اور امریکہ نے افغانستان پر اسے پناہ دینے کے جرم میں پابندیاں لگا دی ۔
مارچ 2001 میں طالبان نے بدھا کا تاریخی مجسمہ توڑا جس پر بین الاقوامی احتجاج ہوا۔
9 ستمبر 2001 کو شمالی اتحاد کا سربراہ احمد شاہ مسعود مارا گیا۔

11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کے بعد امریکہ نے افغانستان کو اسامہ کو حوالے کرنے کی ڈیمانڈ کی پوری نہ ہونے پر 7 اکتوبر 2001 کو افغانستان پر فضائی حملہ کردیا ۔
جس کے بعد شمالی اتحاد نے طالبان کو شکست دے کر کابل اور پھر قندھار تک قبضہ کرلیا اور طالبان کو مکمل شکست ہوئی ۔
22 دسمبر 2001 کو حامد کرزئی نے امریکہ کے تعاون سے عارضی حکومت قائم کردی جسے جرگہ کی حمایت حاصل تھی ۔ اس وقت نیٹو کی فوج کابل کی سیکیورٹی سنبھال رہی تھی ۔
اکتوبر 2004 میں باقاعدہ الیکشن ہوئے اور حامد کرزئی 55 فی صد ووٹوں سے صدر منتخب ہوا ۔۔اس بیچ نیٹو امریکی فوج اور طالبان کے بیچ جھڑپیں چلتی رہیں ۔۔
2007 میں طالبان لیڈر ملا داداللہ مارا گیا ۔
ایک دعوے کے مطابق مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو امریکہ نے ہلاک کر دیا۔
2012 میں کرزئی نے امریکی فوج کے انخلا کی بات کی ۔
ستمبر 2014 میں اشرف غنی افغانستان کا صدر منتخب ہوا ۔

بارک اوباما کا دور ختم ہونے تک 2017 کی ابتدا تک افغانستان میں 5500 امریکی فوجی رہ گئے تھے ۔
فروری 2019 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوا جس میں یہ طے کیا گیا کہ امریکی فوج مئی 2021 تک ملک سے نکل جائے گی ۔

امریکی فوج کے انخلا اور خاموش معاہدے کے بعد طالبان نے کابل کی جانب پیش قدمی شروع کی۔لیکن ان کا واضح اعلان رہا کہ وہ کابل پر حملہ آور نہیں ہونا چاہتے بلکہ طے شدہ معاملات کے تحت آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن اشرف غنی کے اچانک افغانستان سے فرار کے کابل اور گردونواح میں ماحول خراب ہونے لگا جس کے بعد طالبان نے 15 اگست 2021 میں کابل پر قبضہ کر کے اعلان کیا کہ وہ آنے والے چند ہفتوں میں تمام چھوٹے بڑے گروہوں بشمول حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ سب کو حکومت کا حصہ بنائیں گے۔
امارت اسلامیہ کے نام سے افغانستان پر قبضے کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں اس وقت افغانستان پر ہیں۔1997 سے 2001 قائم ہونے والی حکومت میں خواتین کے حقوق ، آزادی اظہار ، ذرائع ابلاغ کی آزادی اور شہری حقوق اور مذہبی رواداری کے حوالے سے ساری دنیا افغانستان کی حکومت کی ناقد رہی تھی ۔
لیکن اس بار طالبان نے قبضے کے ساتھ ہی دنیا کے سامنے ماضی کے برعکس اپنا نیا امیج بنانے کی بھرپور کوشش شروع کی ہے جس میں وہ اپنی روایات اور اصولوں کے ساتھ خواتین کی تعلیم نوکری اور شخصی آزادی کی ضمانت دیتے نظر آ رہے ہیں ۔
اپنے ملکی اور سرحدات کے حوالے سے وہ مزید کسی جنگ سے گریز کی پالیسی کا بار بار اعادہ کر رہے ہیں۔
اس نئے سیٹ اپ میں تمام ہمسایہ ممالک کی نظریں ان ہر جمی ہوئی ہیں۔پاکستان نئی حکومت سے تعلقات قائم کر چکا ہے۔ دوسری جانب انڈیا اور ایران بھی نئی صف بندی کر رہے ہیں۔

اس سب کے ساتھ جو خطرناک یا افسوس ناک پہلو ہے وہ یہ ہے کہ نئی حکومت کے قیام اور کابل میں اقتدار نئے ہاتھوں میں جانے کے باعث لاکھوں افغانی شہری اس وقت وہاں سے بھاگنا چاہتے ہیں۔کیونکہ وہ ماضی کے تلخ تجربات کے بعد کسی صورت بھی نئی حکومت پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ان کے ذہنوں میں 90 کی دہائی کے اختتامی سالوں میں ہونے والے چند سانحات آج بھی تازہ ہیں۔بدھا کے مجسمے کو گرانا ، نجیب کو سزائے موت دینا اور خواتین کے حوالے سے سخت پالیسی ملک سے باہر جانے والے افغانوں کے ذہن پر نقش ہے۔
پورے افغانستان میں بظاہر نئے سیٹ اپ کا غلبہ ہے لیکن پنجشیر جو احمد شاہ مسعود اور شمالی اتحاد کا گڑھ ہے وہاں پر سابق نائب صدر امر اللہ صالح اور احمد شاہ مسعود کا بیٹا احمد مسعود طالبان کے خلاف مزاحمت کے نام سے صف بندی کر چکے ہیں۔
طالبان اور پنجشیر اتحاد کے مابین مذاکرات کی ناکامی کے بعد اب پنجشیر میں طالبان نے حملہ کر دیا ہے اور وہاں پر ایک خون ریز جنگ کی توقع کی جا رہی ہے۔
اپنی تاریخ کے آئینے میں لہو لہو افغان قوم ایک بار پھر امن خوشحالی اور ترقی کی خواہشمند ہے ۔کئی نسلیں جنگوں کی نظر ہو چکی ہیں۔40 سال کی طویل جنگ سے لاکھوں افغانی راہ عدم سدھار چکے ہیں۔تعلیم معیشت رواداری اور عدم تشدد آج افغان قوم کی پہلی خواہش ہے۔
حامیوں کے مطابق سپر پاورز کا قبرستان اور مخالفین کے مطابق لٹیروں کی سرزمین کہلانے والی سرزمین میں ایک بار پھر مسند اقتدار پر ایک نیا گروپ نئے انداز کے ساتھ براجمان ہونے جا رہا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ماضی کی طرح غلطیوں کو دہرا کر خود کو کسی نئی مصیبت میں الجھانے کو ترجیح دی جائے گی یا تمام طرز کے شدت پسند گروہوں کا خاتمہ کرکے اس خطے میں ایک پر امن ملک کے طور پر ایک نیا سفر شروع کیا جائے گا ۔کیونکہ پر امن افغانستان ہی اس پورے خطے میں امن کی پہلی سیڑھی ہے۔اسی وجہ سے تمام ہمسایہ ممالک کی نگاہیں اس جانب اٹھی ہوئی ہیں۔سفارتی محاذ پر پاکستان اس وقت باقی ممالک سے قدرے آگے ہے۔تجزیہ نگار اس کو پاکستانی کی خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔دوسری جانب افغانستان میں کروڑوں ڈالر خرچ کرنے والا بھارت نئے سیٹ اپ سے افسردہ ہے ۔وہیں ہر چائنہ اور روس تجارتی محاذ پر افغانستان کا ساتھ دینے کے لیے آگے بڑھ چکے ہیں۔

مخالفین کے مطابق موجود حکومت کو ماضی کے حالات کی روشنی میں دیکھا جائے تو کوئی امید نہیں ہے لیکن حامی اس دور میں ایک نئے افغانستان کی جھلک کی نوید سنا رہے ہیں۔
ساری دنیا کی نگاہیں اس خطے پر ہیں ۔ سب دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس وقت غالب گروہ ملک میں کون سا آئین اور سیاسی نظام رائج کرے گا جس پر تمام مقامی فریقین اور عالمی برادری اتفاق کر سکے ۔اور حق حکمرانی میں افغانی عوام کی شمولیت ہو سکے تاکہ دنیا ایک نیا افغانستان دیکھ سکے۔