الفانسے

الفانسے/شکرال کا ناسور

تبسم حجازی

تعارف

آج کل ڈائجسٹوں میں قسط وار ناولوں کا زور ہے یا یہ کہ لیں کہ یہ سلسلے ڈائجسٹ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔اردو ادب میں 70 کی دہائی میں سب رنگ ڈائجسٹ نے اس چیز کو رائج کیا ۔لیکن ان سلسلے وار ناولوں سے بھی قبل ابن صفی نے ناولوں کی سیریز لکھنے کا آغاز کیا تھا ۔۔۔پچاس کی دہائی میں شائقین جس بے تابی سے ابن صفی کے آنے والے ناولوں کا انتظار کیا کرتے تھے اس کی مثال ملنی مشکل ہے اور اگر وہ ناول کسی سیریز کا حصہ ہوں تو قارئین کے اشتیاق کا کیا عالم ہوتا ہوگا یہ ہمارے لئے سمجھنا محال ہے۔۔ایسی ہی ایک سیریز 1956 کے آخر میں لکھی الفانسے ہے۔
یہ جاسوسی دنیا کی شعلہ سیریز کے بعد لکھی گئی ہے اور عمران سیریز کا پہلا طویل سلسلہ ہے جو چار ناولوں پر مشتمل ہے۔
اس سیریز کی ایک اہم چیز تھریسیا کا تعارف ہے۔۔تھریسیا کا ذکر شعلہ سیریز میں سرسری سا ہے لیکن اس کا کردار بیک گراونڈ ، ظاہری شخصیت اور صلاحیتوں کو تفصیل کے ساتھ پہلی باراس سیریز میں بیان کیا گیا ہے، دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس میں سیکریٹ سروس کی ٹیم پوری طرح سے ترتیب پاتی ہے اور آخری ناول تک اس کے ممبرز چند اضافوں کے ساتھ وہی رہے۔۔اور سب سے بڑھ کر عمران کا کردار بطور عمران اور بطور ایکسٹو مکمل نظر آتا ہے۔ اس سیریز کے اختتام پر ، خاص طور پر درندوں کی بستی پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ Imran has arrived ۔

سیاسی اور سماجی پس منظر

اس ناول کی کہانی کی شروعات ایک گھر سے ہوتی ہے جو 1930 میں ایک جرمن جاسوس کی ملکیت تھا اور جہاں تھریسیا کچھ ایسے کاغذات چرانے پہنچتی ہے جو برطانیہ کے وزارت خارجہ کے دفتر سے چرائے گئے تھے ۔آگے چل کر اس سازش کا سرا شکرال سے جا ملتا ہے۔
شکرال کیا ہے اس بارے میں لوگوں کی مختلف آرا ہیں کوئی اسے وائلڈ ویسٹ سے ملتا جلتا علاقہ سمجھتے ہیں اور بعض اسے آزاد شمالی علاقوں کا ترمیم شدہ رنگ۔۔ابن صفی نے شکرال سے متعلق دو عمران سیریز لکھی ہیں اور چند جاسوسی دنیا کے ناولوں کے علاوہ شکرال پر الگ سے بھی کہانیاں موجود ہیں ( تفصیل کے لئے 2018 ایونٹ میں لکھا محسن قاضی کا مضمون دیکھ لیں ) ان کہانیوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شکرال ایک شمالی سرحدی علاقہ ہے وہاں تک پہنچنے کے راستے انتہائی دشوار گذار ہیں اور وہاں کے باشندہ نیم وحشی ،بہادر، جنگجو اور کسی حد دنیا سے کٹے ہوئے ہیں اور اسی لئے اس علاقہ کو مختلف بین الاقوامی سازشوں کے لئے منتخب کیا جاتا ہے ۔شکرالیوں کی جو وضع قطع بیان کی گئی ہے ، سر پر بڑے بالوں والی ٹوپی ، چمڑے کی جیکٹ، تنگ زیر جامہ اور گھٹنوں تک آتے جوتے، وہ پاکستان کے کوہستانی علاقوں سے زیادہ بارہویں تیرہویں صدی کے ترک یا منگولوں جیسی لگی۔
اس سے پہلے لکھی شعلہ سیریز اور اس سیریز میں ملک کے کچھ مخصوص علاقوں میں ہونے والی غیر ملکی مداخلت کا ذکر کافی ڈھکے چھپے انداز میں ہے۔ شاید اس طرح لکھنا اس وقت کے سیاسی حالات کا تقاضہ تھا ۔
اس ناول میں پچاس کی دہائی کے برصغیر کے ماحول کا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔شاہراہوں کے نام، عمارتوں کے نام ،کئی یوریشین کرداروں کی موجودگی، عمران کے ماتحتوں کا شراب پینا جیسی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزی تہذیب کا کتنا اثر موجود تھا۔ ساتھ ہی ٹرانسمیٹرز اور مشین گنز کا اس دور میں استعمال کچھ حیران کن بھی محسوس ہوتا ہے لیکن ان کے علاوہ کسی اور طرح کے سائنسی حربہ کا ذکر نظر نہیں آتا۔

مزاح اور کردار نگاری

اس سیریز میں جہاں کئی نئے کردار متعارف کرائے گئے ہیں وہاں کچھ کردار ختم بھی ہوئے ہیں
الفانسے جو ایک نام نہیں لقب ہے ،جو گروہ میں پہلے تھریسیا کے ماتحت کا درجہ رکھتا تھا لیکن تھریسیا کے فرانس سے فرار کےبعد گروہ کی نئی ترتیب میں وہ تھریسیا کے برابر آجاتا ہے۔الفانسے نام فرانس،جرمنی، اسپین سبھی جگہ کافی عام ہے اس کے معنی رائل اور بہادر کے ہیں ۔چھٹی صدی کے بادشاہوں سے لے کر مارڈرن آرٹسٹ اور جاپانی کامکس تک یہ نام نظر آتا ہے لیکن ابن صفی کے کردار سے قریب ترین لگنے والی شخصیت اس دور کے مشہور امریکن گینگسٹر Alphonse Capone , the scarface کی ہے۔الفانسے ایک ذہین ،طاقتور اور نڈر ولن کا کردار ہے جو اتنے مضبوط اعصاب کا ہے کہ اپنے بدن میں لگی گولی خود نکال لیتا اور اس قدر چالاک کہ عمران کے ماتحت اس کے سامنے طفل مکتب لگتے ہیں لیکن پھر بھی مجھے کنگ چانگ یا ایڈلاوا جیسے ولن کے مقابلے میں یہ کردار کچھ کمزور لگا۔خاص طور پر درندوں کی بستی میں الفانسے کا رول بہت مختصر ہے اور آخری معرکہ میں باآسانی شکست کھا جاتا ہے
اس ناول میں تھریسیا کے بیک گراونڈ کو مختصرا بتایا گیا ہے ۔دیڑھ سو سال پرانے ایک گروہ کی سربراہ تھیریسیا کہلاتی ہے اور موجودہ تھریسیا دوسری جنگ عظیم میں جاسوسہ کا کام بھی انجام بھی دے چکی ہے۔تاریخ میں تھریسیا کا نام دو حوالوں سے ملتا ہے۔ ایک تھریسیا آف Dietrichstein جو جرمن نوبل خاتون تھی اور انتہائی خوبصورت ہونے کے باعث
le celesta Therese (heavenly beauty)
کہلاتی تھی ۔اور دوسری ماریہ تھریسیا جو اٹھارویں صدی میں کوئین آف بوہیمیا تھی۔ابن صفی کی تھریسیا کچھ حد تک ان دونوں کا مجموعہ محسوس ہوتی ہے ۔اس سیریز میں تھریسیا کا کردار ابتدائی اسٹیج کا ہے اس کے ناقابل بیان خدوخال اور صوتی تاثر کے ذریعہ مغالطہ پیدا کرنے والی صلاحیت کے علاوہ یورپ کو نچا کر رکھنے والی تھریسیا اس میں نظر نہیں آتی۔
ایکسٹو کی ٹیم کے نئے کرداروں میں سب سے اہم صفدر کا کردار رہا جو عمران سیریز کا ایک اہم رکن اور لوگوں کا پسندیدہ کردار ہے۔ اور جس طرح ناشاد اور جعفری کے غیر سنجیدہ کرداروں کو ختم کرکے ایکسٹو کی ٹیم کی تنظیم نو ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابن صفی نے اس ٹیم کو لے کر کافی آگے جانے کا سوچا ہوگا اور اس کا ثبوت بوغا، کنگ چانگ اور ایڈلاوا ، لرزتی لکیریں جیسی کئی سیریز ہیں جو سنجیدہ قسم کی بین القوامی سازشوں سے متعلق ہیں ۔ ایکسٹو کی ٹیم کا جو کردار اس سیریز میں تھوڑا کمزور لگا وہ جولیا کا تھا ۔یہاں جولیا ایک جاسوس سے زیادہ ایک نسوانی کردار محسوس ہوتی ہے جس کا مقصد ہلکی پھلکی تفریح مہیا کرنا ہے۔خاص طور پر مشکل حالات میں جولیا کا ریئکشن ایک سیکریٹ ایجنٹ کی شخصیت کے منافی لگا کچھ جگہوں پر جیسے ڈینی کے گھر یا ریٹائرڈ آفیسر کے گھر جولیا کی موجودگی اور عمران جولیا کی نوک جھونک غیر ضروری محسوس ہوتی ہے۔
اایک کردار جو اس ناول میں متعارف ہونے کے بعد کئی اور ناولوں میں نظر آیا وہ ڈینی کا ہے ۔جس کا عمران سے تعلق سمجھانے کے لئے بعد میں کالی تصویر نامی ناول لکھا گیا۔
اس کے علاوہ شہباز کوہی کا کردار جو کافی دلچسپ اور اگلی شکرال سیریز میں بھی موجود ہے ۔بہادر ،گرم جوش اور جذباتی سا نوجوان جسے عمران اپنا روحانی بھائی کہتا ہے ،شکرال کی تہذیب اور روایتوں کی نمائندگی کرتا محسوس ہوتا ہے
اور سب سے اہم عمران کا کردار ڈیولپمنٹ ہے ، کھلنڈرے عمران سے صف شکن بننے کا سفر۔کالے چراغ کے پیش رس میں ابن صفی نے لکھا ہے کہ یہ ناول وہ تنہا عمران کے حساب سے لکھنا شروع کر چکے تھے لیکن قاریوں کے اصرار پر اسے ایکسٹو والا سلسلہ بنانا پڑا ۔ کالے چراغ میں عمران اپنی ٹیم سے دور اپنے الٹے سیدھے طریقوں سے کام چلاتا ہے اور یوں ظاہر کرتا ہے جیسے سیکریٹ سروس والے اسے استعمال کر رہے ہوں ،اگلے دو ناولز میں آہستہ آہستہ وہ اپنی ہی ٹیم کا حصہ بن جاتا ہے اور درندوں کی بستی میں بطور عمران انھیں لیڈ کرتے ہوئے ،مشکل ترین حالات میں عمران اور ایکسٹو کا بھرم قائم رکھتا ہے ۔ساتھ ہی ایک ماہر کمانڈر کی طرح لڑائی کے داو پیچ سمجھ کر اور دشمن کے اگلے وار کا اندازہ لگانا اور مختلف ہتھیاروں کا استعمال بر محل کرنا جیسی کئی حیرت انگیز صلاحیتیں عمران کے کردار میں نظر آتی ہیں
ایک کردار جو بہت مختصر لیکن اہم تھا وہ بلیک زیرو کا تھا اور جو اس مشن کے لئے بڑی خاموشی سے اپنی جان کی قربانی دے دیتا اور سوائے عمران کے کسی اور کو خبر تک نہیں ہوتی۔
اس سیریز کے شروعات کے تین ناول میں ہی مزاح کی گنجائش تھی اور ان میں دوسرے ابتدائی ناولوں کی طرح عمران کنفوشس کے خود ساختہ اقوال سناتا نظر آتا ہے۔لیکن اس میں آہنی دروازہ جیسا برجستہ مذاق یا بعد کے ناولوں جسے طنزیہ جملے کم ہی نظر آئے۔عمران کا مخصوص ٹیکنی کلر لباس مجھے اس دور کے انڈین اداکار شمی کپور کا مذاق اڑاتا لگا ۔۔ایک ناول میں عمران نمی کپور کا حوالہ بھی دیتا ہے۔

جاسوسی تکنیک اور ایکشن

اس ناول کے ابتدائی تین ناولز میں عمران اور اس کے ساتھی دشمنوں سے ذہنی جنگ اور مختلف نفسیاتی طریقوں سےلڑتے ہیں ۔ تھریسیا کا پامسٹ بننا ،الفانسے کا روزی کے ذریعہ عمران کو بلوانا ، کرنل نادر کو نفسیاتی طریقہ سے ٹارچر کرنا یہ سب لطف تو دیتا ہے لیکن اس سیریز کا ہائی پوائنٹ شکرال میں ہونے والی لڑائی ہے۔۔بہت ہی زبردست قسم کا ایکشن پیش کیا گیا ہے ۔
دوڑتے گھوڑے کی رکابوں پر کھڑے ہوکر رائفل سے پلین گرانے والا عمران ،جتنا بھی غیر حقیقی لگے قاری کو کبھی نہیں بھولتا۔پھر بیک وقت ، مشین گن، تیر کمان ، کلہاڑی اور چاقو کی لڑائی ایک الگ ہی منظر پیش کرتی ہے ۔یہ سیریز کئی دفعہ پڑھی ہے لیکن اس بار پہلی بار ، ارطغرل دیکھنے کے بعد کلہاڑیوں کی جنگ کیسی ہوتی ہوگی یہ تصور کرنا ممکن ہوا۔

خلاصہ

الفانسے سیریز میں تھریسیا کی آمد نے وہ بنیاد مہیا کی جس پر پیاسا سمندر ، بوغا،شوگر بینک، لرزتی لکیریں اور جنگل کی شہریت جیسی شاندار عمارتیں کھڑی ہوئی ۔
کچھ باتیں جو اس سیریز میں واضح نہیں ہوئی وہ یہ تھریسیا اور الفانسے یہ کاغذات کسی ملک کے لئے چراتے ہیں جو برطانیہ بھی ہوسکتا ہے یا کوئی اور یورپی ملک بھی لیکن عمران کی ان کاغذات کے لئے اتنے تگ ودو کا جواز کیا تھا۔ اور وہ کاغذات کسی جاسوس نے چرائے تھے تو ان کے ساتھ سونے کی مہر موجودگی ہونا بھی کچھ عجیب لگتا ہے۔اور ان پرانے کاغذات سے شکرال کا پتہ کیسے چلتا ہے۔ اور الفانسے اور تھریسیا کاغذات حاصل کئے بغیر کس طرح شکرال لوٹ جاتے ہیں۔
میں نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ “ ابن صفی کےناول ترتیب سے پڑھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ابن صفی اپنے دور کے بہترین سیاسی اور سماجی مبصر تھے”۔ پچھلی چار سیریز اور اس سیریز کے تبصرہ سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ ہر ناول کے ساتھ ابن صفی کی تحریروں میں کس طرح تبدیلی اور پختگی آتی گئی۔ ابتدائی ناولوں کے مقابلہ میں ستر کی دہائی کے آخر میں لکھے ناولوں میں سیاسی اور معاشی مسائل پر کی گئی باتیں نہ صرف واضح بلکہ کافی کاٹ دار ہیں اوریہی چیز کرداروں کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ اور تراشیدہ اور یادگار ہوتے چلے گئے۔
اس ناول میں عمران ڈینی کی ہیروں میں حصہ دینے کی پیشکش کے جواب میں کہتا ہے “ہیرے تو سینکڑوں روزانہ میری جوتیوں کے نیچے سے نکل جاتے ہیں “ ڈینی کو عمران کے اس جملہ کہ اہمیت کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ ایک خوں ریز معرکہ سے گذرتا ہے اور سیکڑوں لاشوں کو دیکھتا ہے۔۔شاید یہ ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہمیں ان مادی اشیا کی بے قیمت ہونے کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب ہم موت کو قریب سے دیکھ لیں ۔