ایڈلاوا

ایڈلاوا

تبسم حجازی

تعارف

ایڈلاوا 1974 میں لکھی گئی پانچ ناولوں پر مشتمل سیریز ہے۔۔۔جلد ۲۲ میں چار ناول شامل ہیں لیکن اس قصہ کی شروعات اصل میں ادھورا آدمی سے ہوتی ہے جس میں کرنل ہوریشیو ایکسٹو کو بے نقاب کرنے کی سازش کرتا ہے۔ اس سازش کے اصل مجرم تک پہنچنے کے لئے عمران اور اس کی ٹیم اٹلی کا سفر کرتی ہے۔سلسلہ کی شروعات جیمسن اور جوزف کے روم پہنچنے سے ہوتی ہے۔۔اس ڈبل ایجنٹ کو انجام تک پہنچانے کے بعد عمران اور اس کی ٹیم بین الاقوامی خیراندیش نامی ادارہ کی تلاش میں نکل پڑتی ہے ۔یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو ہتھیاروں اور ایٹمی مادوں کی اسمگلنگ کرتا ہے اور ملکوں کے راز چرا کر بیچتا ہے۔اس ادارہ کے سربراہ کی تلاش عمران کو لاگودی بولسینا، کومو جھیل اور ٹریسنی پارک جیسے کئی علاقوں تک لے جاتی ہے اور عمر ان اور ٹیم کے ساتھ قاری بھی اٹلی کی خوبصورت جھیلوں اور مضافات کی سیر کرتا ہے۔اٹلی کے جن مقامات کا ان ناولوں میں ذکر ہے وہ حقیقت میں موجود ہیں کچھ کی تصاویر اوران کا جغرافیائی مقام اس تحریر کے ساتھ موجود ہے۔
اس ناول کے پیش رس میں ایک جملہ ہے “ملک کے دشمنوں کا خون بہتے دیکھنے کی خواہش ایسی غلط بھی نہیں ہے”۔۔اس جملے کا اس دور یعنی 1973- 1974 کے حالات سے کیا تعلق ہے اور یہ کس دشمن کا ذکر ہے اس بات کی وضاحت مطلوب ہے۔

سیاسی پس منظر

ابن صفی کے بہت سے ناولوں کی طرح یہاں بھی مجرم ایڈلاوا اجتماعی انتقام کے جذبہ کے تحت جرم کا راستہ اختیار کرتا ہے ۔۔لیکن یہاں معاملہ صدیوں پرانا ہے ۔۔اس دور کا جب نوآبادیوں کی تلاش میں نکلے یورپی اقوام نے امریکہ کے براعظموں میں ظلم اور غارت گری مچائی تھی۔ پندھوریں اور سولہویں صدی میں جنوبی اور وسطی امریکہ میں انکا سلطنت ایکویڈور ،پیرو سے لے کر کولمبیا اور چلی تک پھیلی ہوئی تھی۔ 1532 میں اسپینی سپہ سالار فرانسیسکو پزا رو گو نزالویز نے انکا قوم پرحملہ کیا اور ان پر مظالم ڈھائے ۔ایڈلاوا کا تعلق اسی انکا قوم سے بتایا گیا ہے۔یہ تاریخی پس منظر ایڈلاوا کی سفید فام بلخصوص اسپینی نسل سے نفرت اور انتقام کا سبب ہوتا ہے ۔انکا قوم کی زبان جسے صفدر اور جولیا بولنے کا دعوی کرتے ہیں وہ Quechua کہلاتی تھی اور آج بھی پیرو میں بولی جاتی ہے۔اس زبان کے چند الفاظ آج بھی انگریزی میں مستعمل ہیں جیسے LLama, Coccain, Quienwa ..
ایک اہم چیز جو ناول میں دو تین بار دہرائی گئی ہے اور درست نہیں ہے وہ مونٹے زوما ذکر ہے ۔مونٹے زوماایزٹیک نسل سے تعل رکھتا تھا انکا سے نہیں اور اسکی حکومت میکسیکو میں تھی اور اسپینی سپہ سالار کورٹے کے حملے کے بعد مونٹے زوما کی فیملی نے بھاگ کر بیرن آئی لینڈ میں پناہ لی تھی ۔۔اسی بیرن آئی لینڈ کا سفر فریدی ویران جزیرہ ناول میں کرتا ہے۔
اس قدیم تعلق کے علاوہ اسلحہ کی اسمگلنگ ، ایٹمی طاقت بننے کی دوڑ ،افریقی ممالک میں مسلح بغاوت کی سازش جیسے چند واقعات سے 70 کی دہائی کے دوسرے سیاسی حالات کی جھلک نظر آتی ہے۔

سماجی پس منظر

یہ ستر کی دہائی کا ناول ہے اس لئے اس دور کے اہم مسائل جیسے منشیات اور ہپی ازم کا تذکرہ آنا عجب نہیں لیکن اہم بات یہ لگی کہ ان سب کے لئے صیہونی طاقتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔۔جیمسن اور ویریو (میریانا کا چچا) منشیات اور فحش لٹریچر پر باتیں کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ یہ سب صیہونی طاقتوں کی سازش ہے۔
اس دور میں یورپ میں پھیلی اس منشیات کی وبا اور غیر ملکی ،خاص طور پر ایشیائ اقوام کا جو عوامی تصور تھا اسے بڑے لطیف انداز سے پیش کیا گیا ہے جب جیمسن اور عمران خود کو محکمہ صحت کا ملازم بتاتے ہوئے ڈوک پر جانے کی اجازت مانگتے ہیں تو رشوت کے طور پر ایک جہازراں ان سے چرس مانگتا ہے اور انکار کرنے پر حیرت سے کہتا ہے غیرملکی ملازم ہو اور چرس فروشی نہیں کرتے۔۔

مزاح اور کردار نگاری

اس سیریز میں عمران کے علاوہ جو کردار متاثر کرتے ہیں وہ جیمسن ،میریانا اور الفروزے ہیں ۔خاص طور پر الفروزے کا کردار بہت دلچسپ اور پر مزاح ہے اور کسی حد تک کنگ چانگ سیریز کے ڈیڈ لی فراگ کی جھلک لئے ہوئے ہے۔الفروزے کا گا کر لطیفے سنانے کا منظر اور عمران سے ملاقات کا منظر ہر بار بڑھتے ہوئے اپ کو متبسم کردیتا ہے۔میں عمران اور جیمسن کی ثقیل اردو میں گفتگو اور چٹکیئ دافع بردباری والا مکالمہ ابن صفی کے شستہ مزاح کی عمدہ مثال ہے۔۔
اس ناول میں جیمسن کی کردار سازی بہت خوبصورتی سے ہوئی ہے۔ابتدائی ناولوں میں جب جیمسن اور ظفرالملک کے کردار متعارف کرائے گئے تھے تو ظفر ایک اہم کردار لگا تھا جس پر انور کی طرح علیحدہ سیریز بھی لکھی جانے کا امکان تھا اور جیمسن کا کردار سائیڈ کِک جیسا تھا لیکن کنگ چانگ ، ایڈلاوا اور زیبرا مین جیسی سیریز میں جس طرح یہ کردار آگے بڑھا ہے اس نے جیمسن کو صفدر اور جوزف کے بعد عمران کی ٹیم کا اہم ترین ممبر بنا دیا۔ اس ناول میں عمران جیمسن کے کام سے خوش ہو کر نہ صرف متبنی کرلیتا ہے بلکہ اپنی منقولہ وغیر منقولہ جائداد بھی اس کے نام کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔اور جیمسن سیریز کے اختتام پر وطن لوٹنے کی بجائے ،جوزف کے ساتھ عمران کے پیچھے پیچھے بیمبو کیسل پہنچ جاتا ہے کیونکہ اسے عمران سے دوری منظور نہیں ہوتی۔
میریانا بھی اس سیریز کا ایک اہم کردار ہے جو برائی سے تائب ہو کر اس لڑائی میں عمران کا ساتھ دیتی ہے ۔اس طرح کے کردار دیگر ناولوں میں بھی نظر آتے ہیں لیکن میریانا کا دردناک انجام اسے یادگار بنا تا ہے۔
ان اہم کرداروں کے علاوہ کئی ایسے کردار بھی ہیں جن کا کہانی میں رول بہت مختصر سا ہے لیکن وہ اتنی خوبصورتی سے تراشے گئے ہیں کہ یادوں میں محفوظ رہتے ہیں ۔مثلاً
جینی گارڈو اور اس کی بہنیں -جینی گارڈو بڑا روایتی سا اطالوی کردار جو جرائم کی دنیا سے تائب ہو کر گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہا ہے ۔وہ اپنی بہنوں کو بہت عزیز رکھتا ہے۔افریقی لوگوں سے متعلق اچھی رائے نہ رکھتے ہوئے بھی انسانی ہمدردی کے تحت نہ صرف جوزف اور جیمسن کو پناہ دیتا ہے بلکہ بھیڑیوں نامی گروہ سے انھیں بچانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
جیمس ہارلے ۔ ایک پیچیدہ کردار ،ایک ڈبل ایجنٹ جو بظاہر ایکسٹو کا ایجنٹ بھی ہے اور دوسری طرف ایک گروہ بناکر خیر اندیش کے جرائم کا ساتھ بھی دے رہا ہے اور ان سب کے باوجود ظاہری پوزیشن میں پولیس کمشنر کا دوست ہے اور اس کا فائدہ اٹھا کر اپنے جرائم پر پردہ ڈالے ہوئے ہے۔
زلیخا موگمبی – ایک بہادر اور ایماندار لڑکی جس کا تعلق نائجیریا سے ہے۔جو اپنے بھائی کے ساتھ بزنس کرتی ہے اور یہ پتہ چلنے پر کہ اس کا بھائ وطن سے غداری کررہا ہے وہ اس کو پکڑوانے میں عمران کی پوری مدد کرتی ہے۔
پلو نیو ۔ ایک نیک دل عیسائ شخص جو محنت کرکے اپنے بچوں کو پالتا ہے ۔جب اسے اپنے بیٹے وٹالینی کے مرنے کی خبر ملتی ہے تو یہ صدمہ اسے ناقابل برداشت لگتا ہے۔لیکن جب وٹالینی واپس آجاتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ وہ اسمگلروں کے ساتھ کام کرتا رہا ہے تو پلونیو کا جواب ہوتا ہے اس سے بہتر ہوتا تم مر ہی جاتے۔
مسٹر ویریو – میریانا کے چچا جن کا پہلا نام ناول میں نہیں ہے، ایک بڑا دلچسپ کردار ہے۔ویریو نے دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر مسولینی کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا ۔جب انھیں میریانا کی مشکل کا پتہ چلتا ہے وہ اپنا گھربار چھوڑ کر اس کی حفاظت کے لئے جنگل میں جا کر چھپنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں اور اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی بھتیجی کو بھی زندگی میں کچھ جدوجہد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔عمران کو ایڈلاوا کے پس منظر کے بارے دی گئی جانکاری اور جیمسن سے مختلف موضوعات پر ہونے والی دلچسپ گفتگو سے اس کی ذہنی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ زندہ دل جہازراں انٹونییو ، ہیلی پائلٹ جو عمران کی چند روزہ صحبت میں ذہنی طور پر تبدیل ہوجاتا ہے، گارڈو کی ذہین بہنیں ، نینا سائرو جیسے کردار بھی بھلائے نہیں جاتے۔

جاسوسی تکنیک

ابن صفی کے ستر کی دہائی میں لکھے بیشتر ناولوں کی طرح یہ بھی ایک اسپائی تھریلر ہے۔اس لیے قاری ناول کی شروعات سے مجرم سے واقف ہوتا ہے لیکن ایک بڑے غیر ملکی مافیا کے سربراہ کو انجام تک پہنچانے کا سفر اس سیریز کے لطف کو کم نہیں ہونے دیتا۔۔اس سیریز کے کئی پلاٹ پوائنٹس ایک سے زائد بار پڑھنے کے بعد مکمل طور پرواضح ہوتے ہیں ۔جوزف کا روم میں پرنس ہربنڈا کی شکل میں پہنچنا ، عمران کا نینا سارو کے ذریعے جیمس ہارنے کو تلاش کرنا، جوزف کا موگمبی سے اسلحہ کی سازش کا راز اگلوانا اور الفروزے کو یونانی طالب علم بن کر الجھانا اور آخر میں صفدر کا انگریزی میں بات کرکے عمران کو خطرہ سے آگاہ کرنا ۔

خلاصہ

اس سیریز کے چار ناول مکمل طور پر ملک سے باہر ہیں اور عمران اپنے ممبرز کے ساتھ اور بہت ہی کم وسائل کے ساتھ ایک ایسی تنظیم کا سامنا کرتا ہے جس نے ملک میں باطنی حکومت قائم کر رکھی۔اسی مہم کے دوران ایک افریقی ملک کو پہنچنے والے ہتھیاروں کی ایک کھیپ تباہ کردی جاتی ہے ہےاور آخرکار اس کا سربراہ انجام تک پہنچتا ہے یعنی برائی کی شکست ہوتی ہے لیکن اس کہانی کا اختتام اپ کو کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔۔
ایڈلاوا کے جرائم کے پیچھے چھپے مقصد اور اس کے دکھ کو سمجھ کر عمران بھی کچھ افسردہ ہوجاتا ہے ۔ اور ایڈلاوا ایک خطرناک تنظیم چلا رہا تھا اور بین الاقوامی سازشوں میں ملوث تھا لیکن کیا عمران اور اس کی ٹیم کو اس کے خلاف کاروائی کرنے کا اختیار تھا ؟ اس مہم میں میریانا، وٹالینی، ہیلی پائلٹ، انٹونیو جیسے کئی لوگ مارے جاتے ہیں ان کی موت کا ذمہ دار کون کہلائے گا؟
ایک سنسنی خیز اور ایکشن سے بھرپور سیریز کا اختتام ایک ایسے فلسفیانہ جملے ہر ہوتا ہے جو ہر کسی کو اپنی زندگی کا جائزہ لینے پر مجبور کردے۔
“عمل اور رد عمل کا نام زندگی ہے۔ منطقی جواز تو بعد میں تلاش کیا جاتا ہے”
کیا ہم سب ہی زندگی کا بیشتر حصہ دوسرے کی باتوں اور عمل کے جواب میں ردعمل ظاہر کرنے میں نہیں گذار دیتے ؟