بھیم راؤ رام جی امبیڈکر

بھیم راؤ رام جی امبیڈکر

24 April 1891 – 6 Dec 1956

انسان کو امیر و غریب رنگ و نسل خطے زمین اور مذہب کی بنیاد پر دنیا بھر میں بلند و کم تر سمجھا جاتا ہے۔لیکن دنیا کے بعض حصوں میں ایسا وقت بھی گزرا ہے جب انسانوں کو انسان کا درجہ بھی نہیں دیا جاتا تھا ۔ہندوستان میں ذات پات بھید بھاؤ اور رنگ و نسل کی تفریق صدیوں پر محیط ہے ۔یہاں یہ ماحول اتنا پرانا اور مضبوط تھا کہ اس خطے کے باشندے اس کو مذہب سمجھ کر قبول کرتے تھے ۔ ہندوستان میں انسان کو چار ذاتوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔سب سے بلند براہمن پھر شتریہ اس کے بعد ویش اور سب سے آخر میں شودروں کا درجہ تھا ۔
شودروں کو کسی بھی قسم کے معاشی سماجی اور انسانی حقوق حاصل نہیں تھے ۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو ان شودروں کے اندر بھی سب سے نچلے درجے پر فائر تھا اس کو دلت کہا جاتا تھا ۔
اس شدید نفرت سماجی دوری اور غیر انسانی دور میں بھیم راؤ رام جی امبیڈکر کی پیدائش ایک مہار دلت فیملی میں مہو نامی شہر کے فوجی کیمپ میں ہوئی ۔۔ان کے والد رام جی سکپال فوج میں صوبہ دار تھے ۔ان کی فیملی رتناگیری سے تھی اور مراٹھی بیک گراؤنڈ رکھتی تھی ۔
دلت ہونے میں اور جانور ہونے میں اس دور میں زیادہ فرق نہیں تھا ۔ یہ طبقہ تمام انسانی اور معاشرتی حقوق سے قطعی دور تھا۔
امبیڈکر نے بچپن سے بہت چھوت چھات برداشت کی۔انھیں اور دوسرے دلت بچوں کو اسکول میں دوسرے بچوں سے الگ بٹھایا جاتا تھا اور جس بوری پر وہ بیٹھتے تھے وہ گھر سے لانا پڑتی تھی۔
اس بدترین ماحول میں امبیڈکر نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ایک حساس انسان ہونے کے باعث اس دوہرے معیار کو امبیڈکر بچپن سے قبول نہ کرسکے۔ ان کے ذہن نے انسان کے بنائے ان غلیظ اور بیہیمانہ قوانین کو ماننے سے انکار کر دیا۔

ذات پات جیسی لعنت میں الجھے خاندان میں مذید مسائل والد کے ریٹائر منٹ کے بعد آئے ۔پہلے ماں کی موت کے بعد بچپن ممتا کے بغیر گزرا ۔۔پھر بہن بھائیوں کی زیادہ تعداد اور کم مالی وسائل آڑے آتے رہے۔
14 بھائی بہن میں سے صرف امبیڈکر ہائی اسکول تک پہنچے ۔ان کا فیملی نام سکپال تھا امبیڈکر ان کے ایک ٹیچر نے رکھا جو ان کی طرح امباڈاوے گاؤں کے تھے۔

بھیم راؤ کا جنم ہی شاید بوسیدہ روایات کے خلاف قدرت کا تحفہ تھا اس لیے وہ جیسے جیسے پروان چڑھنے لگے اسی طرح اچھوتوں کو امید ملنے لگی ۔
1897 کا سال اچھوتوں کے لیے بہت خاص تھا جب پہلی بار ایک اچھوت کو الفسثن ہائی اسکول ممبئی میں داخلہ ملا۔
امبیڈکر کی شادی صرف پندرہ سال کی عمر میں نو سالہ رمابائی سے ہوئی۔
تعلیمی زندگی میں امبیڈکر کا راستہ مذہب رنگ یا نسل کی دیوار نہ روک سکی ۔
انہوں نے 1907 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور الفسثن کالج میں داخلہ لے کر 1912 میں ممبئی یونیورسٹی سے اکنامکس اور پولیٹیکل سائنس میں ڈگری حاصل کرنے والے پہلے اچھوت قرار پائے۔
1913 میں بائیس سال کی عمر میں نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویٹ کرنے کے لئے انھیں بڑودہ اسٹیٹ نے اسکالرشپ دیا تھا۔یہ ان کی کامیابی کی جانب سفر کا تیزی سے آغاز تھا ۔ اس کے بعد 1915 میں انہوں نے اکنامکس اور سوشیالوجی،فلاسفی اور ہسٹری میں اپنا ماسٹرز مکمل کیا۔
ان کی تھییس کا نام تھا Ancient Indian Commerce تھا ۔پھر 1916 میں انہوں نے اپنا دوسرا ماسٹر کیا اس بار تھیسس کا موضوع تھا
National Dividend of India
امبیڈکر نے اس کے بعد لندن اسکول آف اکنامکس میں داخلہ لیا لیکن اسکالر شپ ختم ہونے ہر انھیں مجبورا انڈیا واپس آنا پڑا ۔ ارادہ مضںوط اور نظر منزل پر تھی اس لیے جلد ہی 1921 میں واپس جاکر اپنا ایک اور ماسٹر مکمل کیا ۔۔ اس بار ان کا تھیسز تھا
The problem of the Rupee
1923 میں انھیں یونیورسٹی آف لندن نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تھی اسی سال انہیں لندن میں گرے ان BAR سے ایک اور ڈاکٹریٹ ملی ۔
1952 میں کولمبیا سے تیسری اور عثمانیہ سے چوتھی اعزازی ڈاکٹریٹ بھی ملی۔ جو ان کی عظمت کو خراج تحسین تھا۔
معاشی حالات کی تنگی اور محنت کے عادی امبیڈکر نے اپنی تعلیم کے دوران مختلف نوکریاں کیں اور ہر جگہ اپنے دلت ہونے کی وجہ سے بہت مشکلات کا سامنا کیا۔زندگی کے ہر میدان میں ان کا راستہ روکا جاتا رہا لیکن وہ کبھی رکے نہیں ۔
1918 میں وہ ممبئی کے سڈنیم کالج میں پروفیسر بنے جہاں اسٹوڈنٹ میں پسندیدہ ہونے کے باوجود دلت ہونے کے کارن کولیگ ان سے دور رہتے تھے ۔ایک حساب سے ان کا سماجی بائیکاٹ کیا ہوا تھا ۔
امبیڈکر نے نوکری کے دوران ہی حق کہنا شروع کر دیا اور 1919 میں Southborouh کمیٹی کے سامنے انھوں نے دلتوں کے لئے اور دوسری مذہبی اقلیتوں کے لئے علحیدہ سیٹس اور ریزرویشن کی مانگ کی۔
اپنی آواز کو موثر انداز میں ہر جگہ پہنچانے کے لیے 1920 میں اپنا اخبار موک نائیک ۔۔( خاموشوں کا لیڈر) نکالا ۔ جو حقیقی معنوں میں مظلوموں کی آواز تھا ۔
1926 میں بطور وکیل ممبئی ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کی اور برہمنوں کے خلاف دو کیس جیتے جن کی اس دور میں بہت زیادہ معاشرتی اہمیت تھی ۔۔
1927 میں انھوں نے چھوت چھات کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی۔جس میں دلتوں کے مندر میں داخلہ اور عوامی جگہوں سے پانی پینے کی اجازت حاصل کرنا تھی۔
مہاڈ میں کنویں سے پانی لینے کے ستیہ گرہ کی تحریک شروع کی۔ 25 دسمبر 1927 کو ہزاروں لوگوں کے ساتھ مل کر منوسمرتی کی کاپیاں جلائیں جو اس کاسٹ سسٹم کو پروموٹ کرنے والی اور نفرت کو بڑھاوا دینے والی کتاب تھی۔
1930 میں پندرہ ہزار دلتوں کے ساتھ کالارام مندر میں داخلہ کے لئے ستیہ گرہ کی۔
1932 میں ایک اہم چیز پونہ پیکٹ سائن ہوئی جس کے تحت دلتوں کو الیکشن میں علحیدہ سیٹیں ملی ۔اس چیز کی گاندھی جی نے مخالفت کی تھی کیوں کہ ان کے خیال سے اس طرح سیاسی میدان میں ہندو بٹ جائیں گے۔
جہاں پر دلتوں کا کبھی داخلہ ممنوع تھا وقت نے دیکھا کہ 1935 میں اسی گورنمنٹ لا کالج ممبئی کے پرنسپل بنے۔اس کے بعد اپنا گھر بنایا جس کی لائبریری میں پچاس ہزار سے زائد کتابیں تھی۔
1936 میں انڈیپینڈنٹ لیبر پارٹی بنا کر الیکشن لڑا اور ملک بھر میں چودہ سیٹس جیتیں ۔
ان کی ایک اہم کتاب مئی 1936 میں شائع یوئی
Annihilation of Caste
جس میں ہندو لیڈروں کے رویوں پر تنقید کی۔
1950 میں امبیڈکر نے بدھ مت کی طرف دلچسپی دکھائی اور 14 اکتوبر کو ایک پبلک میٹنگ میں بدھ مذہب میں شامل ہوگئے۔ ان کے ساتھ ان کے پانچ لاکھ سپورٹرز نے بھی بدھ دھرم قبول کرلیا ۔
6 دسمبر 1956 کو امبیڈکر وفات سے تین دن قبل انکی آخری کتاب
The Buddha and His Dharma
مکمل کی ۔ان کی موت کے بعد ان کی بیوی اور بیٹے یشونت نے ان کے کام کو جاری رکھا ۔
انڈیا کی آزادی کے بعد امبیڈکر پہلے وزیر قانون بنے اور اس کے ساتھ ہی دستور ساز کمیٹی کے چیرمین بھی منتخب ہوئے ۔۔ان کے تیار شدہ دستور میں سب کے لئے یکساں حقوق ، آزادی اور چھوت چھات کے خاتمہ کی ڈیمانڈ تھی ۔۔اس کے علاہ پسماندہ طبقات اور عورتوں کے لئے ریزوریشن کے بھی شق تھی ۔
امبیڈکر پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے غیر ملکی یونیورسٹی سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ۔اقتصادی مسائل پر ان کے لکھے تھیسز نے انڈیا کی زراعت اور صنعت کو شکل دینے میں بڑا رول ادا کیا۔امبیڈکر کی سیاسی ،معاشی پالیسیاں اور اصلاحات اب بھی انڈیا میں گہرا اثر رکھتی ہیں ۔
انڈیا میں کئی یونیورسٹی اور ایئرپورٹ ان کے نام پر ہیں پارلمینٹ میں ان کا مجسمہ ہے ۔ان پر کئی ڈاکیومینٹری بن چکی ہیں ۔

2012 میں حکومت ہند کی جانب سے منعقد کردہ ملک گیر سروے میں امبیڈکر The Greatest Indian منتخب ہوئے۔
بھارت رتن بابا صاحب امبیڈکر جنھوں نے انڈیا کا دستور لکھا۔ایک ماہر معاشیات سیاست داں اور سماجی مصلح تھے جنھوں نے انڈیا میں دلتوں کے حقوق کے لیے عہد ساز جدو جہد کی۔
دلت گھرانے میں پیدا ہونے بھیم راؤ نے وقت اور تاریخ کا پہیہ موڑ کر ہندوستان میں انسانی حقوق کے لیے ایسی جدوجہد کی جو کبھی بھی فراموش نہیں کی جاسکے گی ۔ وہ تاعمر انسانی مساوات کے کیے کوشاں رہے ۔ان کو زندگی کے ہر موڑ پر پہلے سے زیادہ مسائل اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ہر دور سے سرخرو ہو کر نکلے ۔جس قوم اور ذات کے لوگوں سے جانور بھی افضل سمجھے جاتے تھے ۔بھیم راؤ نے اسی قوم کے فرد کے طور پر اپنی عظمت کا لوہا منوایا ۔وہ اپنی ساری زندگی مجبور طبقات کی نمائیندگی کرتے رہے ۔انہوں نے یہ سبق رہتی دنیا تک کے لئے چھوڑا کہ انسان کو ذات پات دھرم اور بھید بھاؤ کے پیمانے پر تولنے والے درحقیقت انسانیت کے دشمن ہیں وہ اپنے اصولوں اور حقوق کے لیے آخری سانس تک نبردآزما رہے ۔ حتی کہ زندگی کے آخری سالوں میں احتجاج کے طور پر جب دھرم بدلنے کا فیصلہ کیا تب پہلے سکھ ازم کی جانب راغب ہوئے لیکن وہاں بھی اونچ نیچ کا نظام دیکھا اس لیے بالآخر وہ بدھ مذہب کے مطالعہ کے بعد اپنے لاکھوں محبت کرنے والے اور اس بھید بھاؤ سے نفرت کرنے والے ہمنواؤں کے ہمراہ ہندو دھرم سے الگ ہو گئے ۔
بھیم راؤ امبیڈکر کسی بھی دھرم میں ہوتے وہ کسی بھی دور میں پیدا ہوتے وہ کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ان کا کام اور نام کبھی بھلایا نہیں جا سکتا تھا وہ اس خطہ زمین کے چند عظیم ترین انسانوں میں سے ایک تھے جن کا کوئی بھی مقصد ذاتی نہیں تھا ۔ وہ صرف سچائی اور مساوات کے لیے زندہ رہے اور اپنی آخری سانس تک انہوں نے اپنی ذات سے قبل اپنی قوم کا سوچا ۔ ان کے سامنے کبھی اپنے تو کبھی پرائے آتے رہے لیکن اس کی ہمت کو کوئی توڑ نہ سکا ۔
آج دنیا میں کسی بھی خطے میں جب رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی کو کمتر سمجھا جاتا ہے تب دنیا کو وہ چند لوگ یاد آتے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے عہد میں ان تمام معاشرتی برائیوں اور غلیظ سماجی رویوں سے نفرت کا اظہار کیا تھا اس خطے کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی انسانی حقوق کی سب سے بلند آوازوں میں بابا جی بھیم راؤ امبیڈکر کا نام سب سے اوپر نظر آئے گا ۔