جان نثار اختر

جان نثار اختر

امتل سحر

(ولادت: 18 فروری 1914ء – وفات: 19 اگست 1976ء)۔۔

“اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط اُن کو سنانے کے لیے ہیں”

گوالیار شہر اس تہذیبی ورثے کا ایک ٹوٹا ہوا ٹکڑا ہے دنیا جیسے ہڑپہ تہذیب کے نام سے یاد کرتی ہے ۔یہاں پر صدیوں قبل ہڑپہ کی جدید تہذیب آثار یہ بتاتے ہیں کہ یہ شہر کبھی بھی کسی بھی لحاظ سے دنیا سے پیچھے نہیں رہا ہوا ۔ یہاں پر فنون لطیفہ سے جڑے افراد کی ایک تعداد رہی ہے۔
احمد راہی ، اللہ رکھا خان ، اکشے کمار ، اے حمید اور ایم ڈی تاثیر کا تعلق اسی خطہ زمین سے رہا ہے ۔ان جغادری افراد کے ساتھ ساتھ یہاں جانثار اختر بھی پیدا ہوئے ۔ جن کے گھرانے کو دیکھ کر کہا جاتا ہے کہ علم و ادب اور فنون لطیفہ اس خاندان کو وراثت میں ملا ہے ۔
والد مضطر خیرآبادی شاعر تھے تو ان کا بیٹا جاوید اختر بھی اس عہد کے عمدہ شاعر نثر گو ، فلمی رائٹر ہیں اور اب ان کا پوتا فرحان اختر بھی اپنے خاندان کی تابندہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے فلمی دنیا کا ایک مشہور ستارہ بن چکا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ زویا اختر جو جاوید اختر کی صاحب زادی ہیں وہ بھی عمدہ فلمی ڈائریکٹر ہیں۔

گوالیار کے محل و وقوع کا جائزہ لیا جائے تو یہ دہلی سے تین سو تیس کلو میٹر اور بھوپال سے چار سو تیس کلو دور ایک خوبصورت مقام ہے۔اس شہر کی ثقافتی، تاریخی اور سیاسی حیثیت مسلم ہے۔
اس شہر کی تاریخ کی بات کریں تو یہ کہا جاتا ہے کہ راجا سورج پال نے ایک گوالی کے توسط سے جذام سے شفا پائی تو اس سے خوش ہو کر لفظ ” ار” کا اضافہ کر کے شہر کا نام گوالی ار رکھا ۔ جو تاریخ کے ساتھ سفر کرتے کرتے گوالیار کہلایا جانے لگا ۔۔

گوالیار کی اس دھرتی پر مضطر خیرآبادی کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا جسے دنیا جانثار اختر کے نام سے جانتی ہے۔جان نثار اختر ایک جانے مانے ترقی پسند شاعر اور فلمی نغمہ نگار تھے۔
جان نثار اختر 18 فروری 1914ء کو برٹش انڈیا کے شہر گوالیار میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مشہور شاعر مضطر خیر آبادی تھے۔ان کے تایا بسمل خیر آبادی بھی شاعر تھے۔ادبی ماحول ان کو اپنے گھر سے ملا اسی چیز نے ان کے شوق کو جلا بخشی۔
جان نثار اختر نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کی اور میٹرک کے بعد معروف ادارے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ یہاں سے انہوں نے پہلے بی اے آنرز اور اور بعد ازاں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
تعلیمی کرئیر کے اختتام کے بعد وہ عملی زندگی کی جانب لوٹ آئے۔انہوں نےوکٹوریہ کالج گوالیار میں اردو کے لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کر لی۔جانثار اختر کی پہلی شادی 1943 میں اسرار الحق مجاز لکھنوی کی ہمشیرہ صفیہ سراج الحق سے ہو گئی۔ ان کے دو بیٹے جاوید اختر اور سلمان اختر 1945ء اور 1946ء میں پیدا ہوئے۔جاوید اختر بولی انڈسٹری میں ایک بڑا اور معتبر حوالہ ہیں ۔ انہوں نے کل دو شادیاں کیں۔1953ء میں ان کی پہلی اہلیہ صفیہ کا انتقال ہوا۔ستمبر 1956ء میں جانثار اختر نے دوسری شادی کی۔ان کی دوسری زوجہ کا نام خدیجہ طلعت تھا۔

1947 میں تقسیم ہند کے بعد جانثار اختر نے ہندوستان میں ہی رہنا مناسب سمجھا۔وہ آزادی کے بعد بھوپال چلے گئے۔بھوپال میں انہوں نے تدریس کا سلسلہ جاری رہا۔ انہوں نے حمیدیہ کالج میں اردو اور فارسی کے شعبوں کی ذمے داری سنبھالی۔ یہیں سے وہ تحریک ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہوئے اور اپنی قد آور شخصیت کی وجہ سے اس تحریک کے صدر بھی بنے۔

صرف دو سال بعد 1949ء میں جانثار اختر نے تدریس کو خیر آباد کہہ کرخوابوں کے شہر ممبئی کی جانب عازم سفر باندھا۔
ممبئی آنے کے پیچھے ان کے کچھ خاص مقاصد تھے۔ وہ فلم انڈسٹری میں ایک فلمی نغمہ نگار کے طور پر کام کرنا چاہتے تھے اور فطری طور پر ایک شاعر تھے اور اپنے کلام کو لوگوں تک پہچانے کے خواہشمند تھے ۔ممبئی میں ان کا ساتھ ملک راج آنند، کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی اور دیگر ترقی پسند ادیبوں سے رہا۔
جانثار اختر کے شعری مجموعوں میں ’’نذر بتاں‘‘، ’’سلاسل‘‘،’’جاوداں‘‘،’’پچھلی پہر‘‘،’’گھر آنگن‘‘،اور ’’خاک دل‘‘ شامل ہیں۔
ان کے باکمال شعری مجموعے’’خاک دل‘‘پر انہیں 1976میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
فلموں سے جڑنے کے باوجود جانثار اختر نے بہت زیادہ کام نہیں کیا۔ ان کا کام زیادہ تر سی رام چندر،اوپی نیر اور خیام جسے سنگیت کاروں تک محدود رہا ۔ان کے فلمی گیتوں کی تعداد صرف 151 ہے۔ 1976ء میں آنے والی فلم رضیہ سلطان ان کے کرئیر کی آخری فلم تھی۔ جس کے نغمہ کلاسک میں شمار ہوتے ہیں ۔

جاں نثار اختر نے اپنی پہلی بیوی کے نام لکھے خطوط کے مجموعوں کو 1955میں شائع کروایا یہ مجموعے دو عنوانوں سے ’’حرف آشنا‘‘اور ’’زیر لب‘‘ کے نام سے مخلتف اوقات میں شائع ہوئے۔

جاں نثار کے کلام کا ذکر کریں تو ان کے ہاں رومانیت کا رنگ سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ لیکن اس رومان پرور شاعر کے ہاں رومانیت سے بھرپور دل فریب جذبات کے ساتھ اشتراکی نظریات بھی جا بجا ملتے ہیں۔ جو اس دور کے ترقی پسند شعراء کا مخصوص انداز تھا ۔
جانثار اختر 19 اگست 1976ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے ۔

زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو
کچھ نہ کچھ ہم نے ترا قرض اتارا ہی نہ ہو
دل کو چھو جاتی ہے یوں رات کی آواز کبھی
چونک اٹھتا ہوں کہیں تو نے پکارا ہی نہ ہو
کبھی پلکوں پہ چمکتی ہے جو اشکوں کی لکیر
سوچتا ہوں ترے آنچل کا کنارا ہی نہ ہو
زندگی ایک خلش دے کے نہ رہ جا مجھ کو
درد وہ دے جو کسی طرح گوارا ہی نہ ہو
شرم آتی ہے کہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں
نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو