حذیفہ-غزل(5)

غزل

میں اس سے مل نہیں سکتا مجھے اس سے نہیں ملنا
مجھے اس سے شکایت ہے مجھے اس سے نہیں ملنا

مجھے اب خوف آتا ہے اندھیروں سے اجالوں سے
مجھے راتوں سے نفرت ہے مجھے اس سے نہیں ملنا

مجھے جب چھوڑ کر اسنے نہ ملنے کی جو ٹھانی تھی
مجھے اب گھر بلاتی ہے مجھے اس سے نہیں ملنا

مجھے جب گھر بلاتی ہے یہی میں بول پڑتا ہوں
مجھے اس سے شکایت ہے مجھے اس سے نہیں ملنا

مجھےزیفی بس اس کی یاد اب فرقت میں آتی ہے
مجھے مغرور ہونا ہے مجھے اس سے نہیں ملنا

حذیفہ اشرف عاصمی