ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

مرزا صہیب اکرام/ تبسم حجازی

وجود زن کیا ہے ۔۔۔۔خدا کی ایک تخلیق ہے ، کائنات کا حسن ہے
زمانے کی تکمیل ہے یا زمین پر خدا کے وجود کا سب سے خوبصورت ثبوت یا مرد کی ایک ضرورت ہے ۔ وہ گھر کی عزت ہے یا بازار کی رونق ہے وہ سراپا رحمت ہے یا باعث ذلت ہے ۔ وہ خدا کا اوتار ہے یا زمین کا کیڑا ہے ۔ وہ سیج سجانے کی ایک مورت ہے یا زندہ جذبوں کا دوسرا نام ہے ۔ وہ ویشیا ہے طوائف ہے یا ماں ہے ، بیوی ہے یا بیٹی ہے ۔وہ دل کا سکون ہے یا جسم کی لذت ہے ۔۔
سینکڑوں القاب بے شمار گالیوں اور لا محدود محبتوں ، اعتراضوں کے دریا اور خوبیوں کے سمندر ، کہیں صنف مخالف پر برتری کے دعوے اور کہیں ان کے وجود کو ماننے سے انکا ر ، ان تمام حالات عناصر اور واقعات مشاہدات علم اور بحثوں کی کوکھ سے وہ ہستی جنم لیتی ہے جس کے متعلق تینوں بڑے مذاہب کہتے ہیں کہ وہ مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے ۔
مختلف مذاہب اور عقائد کی رو سے عورت کا وجود مرد کے وجود کا ایک حصہ ہے ۔ادب کی زبان میں کہا جائے تو عورت مرد کے وجود سے جدا ہونے والا لافانی حسن ہے جس کے بنا اور جس کے انکار سے دنیا کا ہر مرد ادھورا ہے ۔ مرد کی کامیابی، عزت شہرت ،اس کا علم اور اس کا مکمل وجود ماں کے پیروں کی خاک ہے تو بیوی کے پلو کا بل بھی ہے ۔وہ بہن کے چہرے کی مسکان بھی ہے اور بیٹی کا بوسہ بھی ہے ۔
عورت مرد کے وجود سے الگ ہوئی یہ بات عقائد سے طے ہوتی ہے ۔لیکن آج دنیا کا ہر مرد عورت کی کوکھ میں پلتا اور وہ اس کو اپنے جسم کے نہاں خانوں میں ایسے پالتی ہے کہ اپنے جسم کی توانائیاں اپنی صحت اس کے حوالے کرتے ہوئے ایک نئی زندگی کو تشکیل دیتی ہے۔ انسان کا وجود جیسے بنا عورت دنیا میں نہیں آتا ویسے ہی وہ دنیا میں پھلتا پھولتا بھی نہیں ۔مرد کی تکمیل اسی لیے عورت ہے کہ مرد اپنی ذات کے اندر تو پورا انسان بھی نہیں ہے۔ اس کی ذات سے ماں کا ممتا ، بہن کی دعائیں ، بیوی کی ادائیں اور بیٹی کی شوخی نکال دی جائے تو وہ ایک ایسا پتلا ہوگا جو جذبات و خیالات سے عاری ہوگا اور وہ زندگی کو جینے کی بجائے ایک مشین کی طرح چلتے چلتے ایک دن بند ہو جائے گا ۔
کائنات کے پہلے انسان سے آج تک عورت کا وجود قائم ہے لیکن مذاہب کے بعد انسان جب عائلی اور معاشرتی پھندوں میں الجھا تو عورت کے لیے نت نئے قوانین ، اصول اور ضابطے مرتب ہونے لگے ۔ گھر کی عزت اور فخر بس شب گزری کا سامان بن گئی اسے بس جسم کی ہوس کے قابل سمجھا گیا ۔ وقت کی چکی اس قدر سخت کر دی گئی ہے کہ عورت کے سوچ کی اڑان کو خود اس کے ذہن سے محو کر دیا گیا ۔عورت کے لیے عقل و شعور , تعلیم اور سوچنے کے تمام در اس طرح بند کیے گئے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو افزائش نسل کا ایک ذریعہ اور گلدان میں سجا پھول سمجھنے لگی لیکن اس دور میں بھی جب عورت کو مرد کی چتا پر زندہ جلا دیا جاتا تھا جب عورت کاری کر دی جاتی تھی جب عورت مرد کی ضرورت پوری کرنے کا نام تھا تب بھی خواتین کے ایک طبقے نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور معاشرے میں اپنے وجود کے بقا کی کوشش کی اور جب بھی موقع ملا خود کو مرد کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ اہل ثابت کیا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ عورت بھی خدا کی افضل تخلیق ہے اور اشرف المخلوقات میں شامل ہے اور اسے بھی زمانے میں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن پر مرد صدیوں سے اکیلا قابض ہے ۔

“مجھے اپنی انسپائر یشن کتابوں اور پینٹنگ سے نہیں خواتین سے ملتی ہیں” ۔۔کیرولین ہرارا

وقت کی تیز رفتار میں خواتین کی اس کوشش کو پہلی بین الاقوامی پہچان تب ملی جب 8 مارچ کا دن دنیا میں عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔عورتوں کا عالمی دن منانے کا سلسلہ 1914 سے جرمنی میں شروع ہوا اس پہلے نیویارک ،آسٹریا ڈنمارک اور روس میں بھی عورتوں کا دن منایا جاتا رہا ۔۔یہ دن بنیادی طور پر کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے کام۔کرنے والی خواتین کے حقوق کے لئے مخصوص تھا ۔۔آہستہ آہستہ مختلف ویمن آرگنائزیشن اس میں شامل ہوتی گئیں اور 1975 میں اقوام متحدہ نے اس کو پہلی بار تسلیم کیا ۔
عورت کے پہچان کی یہ لڑائی کسی مرد کے یا مخصوص قوم کے خلاف نہیں بلکہ وہ صدیوں سے قائم اس استحصالی سوچ کے خلاف ہے جس کا شکار آج ناصرف مرد ہیں بلکہ بہت ساری خواتین بھی اس گھٹن کو جائز و احسن سمجھتی ہیں۔۔
آج ہم زمانہ قدیم سے اکیسویں صدی کے اس جدید ترین دور میں پائی جانے والی ایسی ہی چند خواتین کی زندگی اور شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں جنھوں نے نہ صرف مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ معاشرہ کی فلاح و بہبود کے لئے ایسے کام کئے کہ تاریخ کے پنوں میں ان کا مقام ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا۔۔

  “ایک ملکہ کی طرح سوچو۔ ملکہ ناکامی سے نہہی ڈرتی ۔۔اس کے لئے ناکامی ایک سنگ میل آگے بڑھنے کا” ۔۔اوپرا ونفری

قلوپطرہ

جواین آف آرک